وینزویلا میں امریکی فوجی مداخلت کی دھمکی

March 13, 2019

روس کے صدر ولادی میر پیوٹن اور وینزویلا کے صدر نکولس مدورا کے درمیان حالیہ ملاقات میں وینزویلا کی موجودہ سیاسی صورتحال اور درپیش مسائل پر بات چیت کی گئی۔روس کے وینزویلا سے پرانے تعلقات ہیں اور وینزویلا کے سابق صدر ہیوگوشیواز کے دور میں روس اور وینزویلا کے تعلقات بہت گہرے ہو گئے تھے۔ جنوبی امریکہ میں کیوبا کے بعد وینزویلا ہی روس کا قریبی اتحادی تھا جہاں بائیں بازو کی حکومت قائم تھی۔ہیوگو شیواز عوام میں بہت مقبول تھے، مگر مشیوان کے انتقال کے بعد نکولس مدورا نے پارٹی اور حکومت کی باگ ڈور سنبھالی،لیکن اپوزیشن نے ان کے خلاف بڑا محاذ کھڑا کر دیا۔درحقیقت وینزویلا اور امریکہ کے تعلقات ایک عرصے سے خراب چلے آ رہے تھے۔ شیواز کی حکومت میں امریکی اور نجی اداروں کو سخت مشکلات کا سامنا رہا۔شیواز اپنا انقلابی ایجنڈا لے کر آگے بڑھے تھے اس لیے سرمایہ داروں اور آزاد معیشت کے حامیوں پر سخت وقت آ گیا۔

وینزویلا اپنے قدرتی وسائل اور قدرتی حسن، انواع و اقسام کے پرندوں،پودوں، پھولوں اور قدرتی مناظر کے حوالے سے اپنا ثانی نہیں رکھتا، مگر چند برسوں سے حالات خراب سے خراب تر ہوتے چلے گئے۔اب صورتحال اس قدر خستہ ہو چکی ہے کہ امریکہ نے موجودہ حکومت کے خاتمے کیلئے ملک میں فوجی مداخلت کی بھی دھمکی دے دی ہے، اس لیے صدر مدورا نے صدر پیوٹن سے ملاقات کی اور اس نازک صورتحال میں روس سے تعاون طلب کیا، کیونکہ روس، وینزویلا کا آخری سہارا ہے اور روسی آئل کمپنی کے سربراہ نے وینزویلا کی مدد کے طور پر چار ارب ڈالر سے زیادہ قرضہ دیا ہے۔تیل سے مدد کر رہا ہے۔وینزویلا پر امریکہ اور روس کے اتحادیوں نے سخت اقتصادی اور تجارتی پابندیاں عائد کر دی ہیں جس سے ملک میں اشیاء خوردو نوش،دوائیں اور دیگر سامان نایاب ہو چکا ہے۔ وینزویلا کی سب سے بڑی آمدنی تیل کی فروخت سے تھی، اس پر پابندی ہے۔ان حالات میں روس نے وینزویلا کی مکمل سیاسی حمایت کا اعلان کیا ہے مگر اس کے ساتھ ہی صدر پیوٹن کو یہ پریشانی لاحق ہے کہ وینزویلا میں حکومت مخالف عناصر جس قدر منظم ہیں اور عوام کی بہت بڑی اکثریت صدر نکولس مدورا سے استعفیٰ طلب کر رہی ہے،اگر کل یہاں حزب اختلاف کی حکومت آ گئی تو روس کا آخری ٹھکانہ اس کے ہاتھ سے نکل جائے گا۔وینزویلا کے علاوہ پورے خطّے میں روس کا کوئی قابل بھروسہ دوست نہیں ہے اسی لیے وینزویلا کی مدد کرنا بھی ضروری ہے۔

ملک میں حزب اختلاف کے رہنمائوں سمیت امریکی اخبارات کے تجزیوں اور خبروں میں وینزویلا کی خراب معیشت،بدعنوانیوں اور عوام کو درپیش مسائل کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا جا رہا ہے۔امریکی، بائیں بازو کی اصلاحات اور حکومت کو ناکام بنانے کیلئے ہر حربہ استعمال کر رہے ہیں۔حزب اختلاف کے رہنمائوں نے فوج کو بھی اشارہ دیا ہے کہ صدر نکولس کا تختہ الٹ کر حکومت پر قابض ہو جائو مگر نکولس مدورا اور ان کی حلیف ڈیمو کریٹک پارٹی کا مؤقف ہے کہ، گزشتہ دو دہائیوں کی فوجی آمریت اور سخت ترین حالات سے گزر کر ہم نے جمہوریت حاصل کی ہے مگر ملک کے پرانے بدعنوان مفاد پرست ٹولے پھر ملک کو آمریت کے اندھیروں میں دھکیل دینا چاہتے ہیں۔ آمریت کے بعد ہیوگوشیواز کی عوامی حکومت نے ملک میں زرعی اصلاحات کیں، مزدوروں کی اجرت میں دوگنا اضافہ کیا،کھانے، پینے کی اشیاء کی سبسڈی دی،پیٹرول کی قیمت آدھی کر دی،اسکولوں کی فیس معاف کر دی۔جس سے غریب طبقے سمیت متوسّط طبقے کو بھی بہت فوائد حاصل ہوئے۔ملک کا نقشہ بدل گیا۔ خوشحالی اور معاشی استحکام نظر آنے لگا، مگر صدر ہیوگو شیواز کی امریکہ سے کشیدگی بڑھتی رہی۔امریکی سرمایہ کار ہر طریقے سے جنوبی امریکہ کے سب سے زیادہ تیل پیدا کرنے اور قدرتی وسائل سے مالامال ملک پر اپنے طرز کی حکومت قائم کرنا چاہتے ہیں۔اس مفادات کی لڑائی میں امریکہ اور اس کے اتحادی آگے آگے تھے، مگر شیواز کی زندگی میں حزب اختلاف کچھ نہ کر سکی پھر شیواز کی موت کے بعد نکولس مدورا نے صدارت کی کرسی سنبھالی اور شیواز دور کی پالیسیاں جاری رکھنے کا اعلان کیا،تب حزب اختلاف کے رہنمائوں نے صدر نکولس کے خلاف منظّم تحریک شروع کی تو دوسری طرف امریکہ اور یورپی ممالک نے وینزویلا پر پابندیاں عائد کر کے اس کی معیشت اور عوام کو مصائب و مسائل سے دوچار کر دیا۔امریکہ کو وینزویلا سے بڑا شکوہ یہ تھا کہ شیواز نے اپنے دور میں کئی بلین ڈالر کے روس سے ہتھیار خریدے،اپنی فضائیہ کو جدید تر بنایا اور بحری قوّت میں بھی اضافہ کیا جس سے وینزویلا کے پڑوسی ممالک میں شدید بے چینی پھیلی کہ صدر شیواز ان کے ملکوں میں بھی اپنے انقلابی پرچار کے ذریعہ ہماری حکومتوں کو خطرے سے دوچار کر سکتے ہیں مگر ایسا نہیں تھا۔ شیواز کا ایجنڈا، اپنے ملک میں قائم انقلابی حکومت اور انقلابی اصلاحات کو مستحکم کرنا تھا لیکن مغربی ملکوں نے پروپیگنڈہ کر کے پورے براعظم کو صدر شیواز کے خلاف کر دیا۔

روسی سفارت کار نے اخبار نویسوں سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ اگر وینزویلا میں حزب اختلاف کامیاب ہو گی تو وہ تمام روسی ہتھیاروں کو جنک پارٹ کی نذر کر دیں گے اور امریکہ سے سودے بازی کریں گے، کیونکہ پھر امریکہ اور اس کے حواری پابندیاں ختم کر دیں گے۔انقلابی اصلاحات منسوخ کر دیں گے، تب ان سب کو کھلا میدان میسّر آ جائے گا۔اس لیے امریکی صدر ٹرمپ یہ کہہ رہے ہیں کہ سارے آپشن میز پر ہیں جس میں فوجی مداخلت کا بھی آپشن ہے،مگر روسی سفارت کار نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ، روس نے جس طرح شام میں بشارالاسد کی حکومت کو بچانے کیلئے جو کردار ادا کیا، وہ وینزویلا میں شاید ایسا کردار ادا نہ کرے خواہ امریکہ یہاں آ جائے، کیونکہ روسی عوام کا اصرار ہے کہ خود روس پر اقتصادی پابندیاں عائد ہیں اس لیے وہ دوسروں کی جنگ میں حصّہ دار نہ بنے اور یہاں توجّہ دے۔

روس نے وینزویلا کے حوالے سے سفارتی طور پر اور سلامتی کونسل کو بھی بتایا ہے کہ مغربی قوّتوں نے اپنی ضد،انا اور مفادات کی خاطر لاکھوں انسانوں کو بھوکا،پیاسا اور بیمار چھوڑا ہے۔ وینزویلا میں قحط کا سماں ہے، اسپتالوں میں دوائیں نہیں ہیں،تیل پر پابندی کی وجہ سے ملک میں اندھیرے چھائے رہتے ہیں، روزمرہ زندگی اجیرن بن چکی ہے۔یہ انسانی حقوق کی سراسر خلاف ورزی ہے جس پر عالمی برادری کو وینزویلا کے عوام کو اس عذاب سے چھٹکارا دلانا چاہئے۔

حزب اختلاف کے رہنما جان گائیڈو نے واضح اعلان کیا ہے کہ ملک میں عوامی احتجاج اس وقت تک جاری رہے گا اور پہیہ جام رہے گا جب تک صدر نکولس مدور استعفیٰ نہیں دے دیتے۔