نئے بلدیاتی ادارے کیسے ہونگے؟

May 09, 2019

تجمل گرمانی، لاہور

پنجاب میں مہنگائی کا جن بے قابو ہو گیا ہے ۔ عوام تحریک انصاف کی حکومت کے ہاتھوںنو ماہ سے پٹرول ، گیس ، بجلی کی قیمتوں میں مسلسل اضافے سے پریشان ہیں ، اب رمضان المبارک میں مہنگائی کا طوفان امڈ آیا ہے ۔ اشیائے ضرورت سبزیوں، پھلوں، چینی، گھی ، دالوں کے دام یکدم بڑھ گئے ہیں، ذخیرہ اندوز بھی سرگرم ہیںاور اشیائ کی مصنوعی قلت پیدا کر کے منہ مانگے دام وصول کرنے میںمصروف ہیں۔ صوبائی حکومت نے رمضان المبارک میں 12ارب روپے سبسڈی دی ہے اور صوبہ میں309رمضان بازار قائم کئے ہیںجہاں 19اشیا سستے داموں فروخت ہو گی ، رمضان بازار میںمحکمہ زراعت کےسستی سبزیوں کے سٹالوںپر سینکڑوںسفید پوش شہری قطاروں میںکھڑے رہتے ہیں لیکن آدھا کلو لیموں ، کلو ٹماٹر ، دوکلو پیاز ، دو کلو آلو ۔ دس کلو آٹے کا ایک تھیلا اور دو کلو چینی سے زیادہ سامان فروخت نہیںکیا جاتا، سرکاری عملہ رمضان بازاروں میں شدید گرمی میںبھوکے ، پیاسے بزرگوں، خواتین اور بچوں کو قطاروں میں کھڑے کر کے ان کی تذلیل کر رہا ہے ، وزیر اعلیٰ پرائس کنٹرول کمیٹی کے سربراہ محمد اکرم چودھری کا کہنا ہے کہ رمضان بازاروں میںاشیا کی قیمتیں نمایاںکم ہیں، عوامی خدمت کو یقینی بنائیںگے اور ضلعی انتظامیہ سے بات چیت کر کے اشیا کی فروخت کو آسان بنائیں گے ، ان کے مطابق صوبہ میںمہنگائی نہیں بڑھی بلکہ قوت خرید میںکمی ہو گئی ہے ۔

گورنر پنجاب نےصوبائی اسمبلی میںمنظور ہونے والے لوگل باڈیز ترمیمی بل 2019پر دستخط کر کے پنجاب میںتمام بلدیاتی ادار ے تحلیل کردئیے ہیں، میئرز ، ضلعی ، تحصیل ، ٹائون اور یونین کونسلوںکے چیئرمینوں ، کونسلروں سمیت 60ہزار بلدیاتی نمائندوں کو فارغ کر دیا گیا اور بلدیاتی اداروں میں سرکاری افسران کو بطور ایڈمنسٹریٹرز مقرر کیا جائے گا۔ سیاسی حلقوں کے مطابق بلدیاتی اداروں کو ختم کر نے سے سیاسی اضطرات بڑھے گا، تحریک انصاف کی حکومت نے گزشتہ نو ماہ سے بلدیاتی اداروں کے ترقیاتی فنذز روکے ہوئے تھے اور آخر کار ان اداروں کا وجود ہی ختم کر دیا گیا ، بلدیاتی اداروں کو ختم کر کے آئندہ مالی سال ترقیاتی فنذز کی بچت ہو گی ، مسلم لیگ ن کو بلدیاتی اداروں میںاکثریت حاصل تھی جن سے تحریک انصاف کو نجات مل گئی ہے ، حکومت ایک سال میں بلدیاتی اداروںکے الیکشن کے دعوے کر رہی ہے لیکن لوکل باڈیز ترمیمی ایکٹ میںایڈمنسٹریٹر کی مدت کا تقرر نہیںجس وجہ سے نئے الیکشن کب ہو گے اس بارے میں ابہام ہے ،بلدیاتی اداروں کے الیکشن میںتاخیر کا خدشہ موجود ہے ،ماضی میں ن لیگ کی حکومت نے پنجاب میں بلدیاتی انتخابات کروانے میں دو برس کی تاخیر کی تھی جبکہ منتخب نمائندوں سے حلف مزید دو برس کی تاخیر سے لیا گیا تھا، ۔لوکل گورنمنٹ پانچ حصوں پر مشتمل ہو گی جس میں تحصیل کونسل، ویلیج کونسل، نیبر ہڈ کونسل، میونسپل کارپوریشن اور میٹرو پولیٹن شامل ہوں گی، بلدیاتی انتخابات میں نوجوان، ٹیکنوکریٹ کی نشستیں اور تعلیم کی شرط ختم کر دی گئی ہے،اسمبلی کی مدت بھی پانچ سال سے کم کر کے چار سال کر دی گئی ہے۔ اقلیتی علاقے میں اقلیتی نمائندہ ہی الیکشن لڑ سکے گا، امیدوار کی عمر کم سے کم 25 سال مقرر کی گئی ہے۔نئے نظام میں گوجرانوالہ،فیصل آباد، ملتان، راولپنڈی، ڈی جی خان، بہاول پور، ساہیوال اور لاہور ڈسٹرکٹ میں میٹرو پولیٹن کارپوریشنیں قائم کی جائیں گی۔ مسلم لیگ ن کے حلقوں نے نئے بلدیاتی نظام پر شدید تنقید کی ہے ، مسلم لیگ ق نے بھی اپنے تحفظا ت کا اظہار کیا ہے ، مسلم لیگ ن کا موقف ہے کہ صوبے کے 36 اضلاع میں نچلی سطح پر 60 ہزار نمائندے ہیں، جو عوام کی حقیقی خدمت کر رہے تھے۔ پاکستان کی 71 سالہ تاریخ میں لوکل باڈیز کے جماعتی بنیادوں پر انتخابات ہوئے موجودہ حکومت نے لوکل باڈیز کے فنڈز نو ماہ منجمند کیے رکھے اور اَب منتخب نمائندوں کا قتل کر کے ایڈمنسٹریٹرز سے فنڈز کی بندر بانٹ کر ے گی ۔نئے بلدیاتی بل کے خلاف لاہور ہائی کورٹ میں بھی درخواست دائر کی گئی ہے۔سیاسی حلقوںکے مطابق نئے بلدیاتی نظام کا واحد مقصد صوبہ پنجاب میں مسلم لیگ ن کے اثر و رسوخ اور ا طاقت کو ختم کرنا ہے۔ نئے قانون کے ذریعے غیر سیاسی عناصر اور ٹیکنوکریٹس کو ضرورت سے زیادہ اختیارات حاصل ہو جائیں گے۔پنجاب میںمسلم لیگ ن نے رانا ثنا ء اللہ کو صدر نامزد کر دیا ہے جو پی ٹی آئی کے خلاف سخت گیر موقف رکھتے ہیںاورامکان ہے کہ مسلم لیگ ن نئ صف بندی کے ساتھ حکومت کے خلاف سڑکوںپر نکلے گی ۔ وزیر اعظم عمران خان نے وزیر اعلیٰ عثمان احمد بزدار کی مکمل حمایت کا اعادہ کیا ہے جس وجہ سے عثمان بزدار کو تبدیل کرنے کی افواہیں دم توڑ گئی ہیں، تحریک انصاف کی صوبائی قیادت اور ارکان اسمبلی کی وزیر اعلی کے خلاف زبان بند ی کر دی گئی ہے اور آئندہ وزیر اعلیٰ کے خلاف تنقید ، گلے شکوے صرف پارٹی اجلاسوں میں ہو گے اور کسی دوسرے فورم پر بات چیت نہیں ہو گی، پرویز الہیٰاور ان کے بیٹے مونس الہیٰنے وزیر اعلیٰ سے مکمل اظہار یکجہتی کیا ہے اور مسلم لیگ ن سے خفیہ بات چیت کی سختی سے تردید کر دی ہے ، گورنر پنجاب چودھری محمد سرور نے اپنی آئینی حدود کے اندر رہتے ہوئے فرائض منصبی ادا کر نے کی یقین دہانی کرائی ہے اورسرور فائونڈیشن میں چیئرمین کے عہدہ سے مستعفی ہو گئے ہیں۔گورنر پنجاب چودھری محمد سرور نے امریکہ کے دورہ سے واپس پہنچ کر وزیر اعظم عمران خان سے اسلام آباد میں ملاقات کر کے انھیںاعتماد میںلیا اور گورنر ہائوس پہنچ کر سرور فائونڈیشن میںچیئرمین کے عہدہ سے استعفا دینے کا اعلان کر دیا ، چودھری سرور نے کہا کہ گورنر پنجاب اور چیئرمین سرور فائونڈیشن کے دو عہدوں کی وجہ سے مفادات کا ٹکرائو تھا ، انھوںنے سرور فائونڈیشن کے 20کر وڑ روپے فنڈز آب پنجاب اتھارٹی کے سپرد کر نے کا اعلان کیا اور کہا کہ سرور فائونڈیشن کے کسی فنڈ ریزنگ پروگرام میں شامل نہیں ہو گےاور آئندہ ان کی بیگم پروین سرور فائونڈیشن کے معاملات سنبھالیںگی ۔ وزیر اعظم نے چودھری سرور کے سر پر تین ٹوپیاں سجا دی ہیں وہ آئندہ گورنر پنجاب ، آب پنجاب اتھارٹی کے سرپرست اور مذہبی سیاحت کو فروغ دینے کے لئے خصو صی کمیٹی کے بطور سربراہ فرائض ادا کریں گے ۔ چودھری سرور آب پنجاب اتھارٹی کے ذریعے صوبہ میں 3ارب روپے لاگت سے 15ہزار واٹر فلٹریشن پلانٹ لگائیںگے ، آب پنجاب اتھارٹی واٹر فلٹریشن پلانٹ لگاکر بوتلوں میں پانی فروخت کر ے گی ، ڈونر ایجنسیوں اور بیرون ملک پاکستانیوں سے عطیات بھی جمع کرے گی ۔ یہ بات سب پر عیاں ہے کہ گورنر پنجاب چودھری محمد سرور جب مسلم لیگ ن حکومت میں پہلی بار گورنر منتخب ہوئے تو انکی واٹر فلٹر پلانٹوں کی تنصیب میں خصو صی دلچسپی تھی جس پر اس وقت وزیر اعلیٰ شہباز شریف سے اختلافات بھی ہو گئے اور آخر کار اپنے عہدے سے مستعفی ہو گئے جس کے بعد رفیق رجوانہ کو گورنر لگا دیا گیا۔