’’فیض محل‘‘ 200سالہ قدیم عمارت کو ’’لکھی پیلس ‘‘ بھی کہتے ہیں

July 02, 2019

تالپورمیروں کا خاندان،سندھ میں 1783 سے 1843 تک حکمران رہا ہے۔ جب بلوچ، کلہوڑا فوج میں بھرتی ہوئے تو بلوچ سردار میرشہداد تالپورکلہوڑ ا فوج کا سپہ سالار بن گیا۔ بعد میں کلہوڑوں نے تالپور سرداروں کو قتل کرادیاجس کا انتقام لینے کے لیے تالپوروں نے جنگ ہالانی ( 1783ء ) میں کلہوڑوں کو شکست دے کر سندھ پر قبضہ کرلیا ان کے چھ حکمرانوں نے 1843ء تک حکومت کی اوراپنے ساٹھ سالہ دور میں سندھ میں تین ریاستیں حیدر آباد، میر پور خاص اور خیر پور قائم کیں مگر ان ریاستوں میں اتحاد نہ تھا۔ کچھ عرصہ کابل کو خراج دیتے رہے۔ پہلی افغان جنگ ( 1838ء - 1842ء ) میں حیدر آباد اور میر پور خاص سے انگریزوں کے تعلقات بگڑ گئے البتہ خیر پور نے انگریزوں کیطرف داری کی۔ 1843ء میں برطانوی فوج نے چارلس جیمر نیپئر کی زیر کمان حیدر آباد اور میر پور خاص کے تالپوروںکو میانی کیخوں ریز جنگ میں شکست دے کر پورے سندھ پر قبضہ کر لیا ۔ان کاسند ھ پر قبضہ 1947ء میں پاکستان کے قیام تک سندھ پر ان کا قبضہ برقرار رہا۔

1786ء میں میر سہراب خان نے خیرپور کو اپنا پایہ تخت بنایا۔انہوں نے اپنی ممکت کا جھنڈا،ر ڈاک کے ٹکٹ متعارف کرائے۔ میر سہراب خان کے بعد میر رستم تالپور، میر علی مراد تالپور، میر فیض محمد تالپور اور میر امام بخش تالپور خیرپور ریاست کے حکمران رہے۔ میر سہراب خان نے اس ریاست کی حدود شمال میں کشمور اور کوٹ سبزل تک، جب کہ مغرب میں گنداواہ تک ، جنوب میں نوشہرو فیروز تک اور مشرق میں جیسلمیر تک پھیلا دی تھیں۔ 1783ء سے لے کر 1843ء تک تالپور گھرانے کے کل 6 حکمرانوں نے سندھ پر حکومت کی، اس دور میں جنگیں بھی لڑی گئیں، جب کہ تالپوروں نے سندھ میں تین ریاستیں بھی قائم کیں، جن میں حیدرآباد، میرپورخاص اور خیرپور شامل تھیں۔ خیرپور ریاست تالپور خاندان کی اہم ترین ریاست تھی جہاں سے انتظامی معاملات چلائے جاتے تھے۔ جہاں تالپورحکم رانوں نے اپنے اقتدار کومستحکم کرنے کی تگ و دو کی ،وہیں انہوں نے نئے قلعے اور عمارتیں بھی تعمیر کروائیں، آج بھی اگر خیرپور کو دیکھا جائے، تو وہاں کئی قدیم عمارتیں نظر آجائیں گی اور اس شہر کی سب سے خوبصورت عمارت فیض محل ہی ہے۔

تالپور حکم راں فن تعمیر سے گہری دل چسپی رکھتے تھے اور ان کی عمل داری میں بہترین معمار اور فن نقاشی کے ماہرین رہائش پذیر تھے ۔ ان کے دور حکومت میں قبو یعنی خوب صورت مقابر تعمیر کرائے، جن میں میران تالپورکے مقبرے شامل ہیں۔ میر سہراب خان تالپور نے کوٹ ڈیجی کا عظیم الشان قلعہ تاعمیر کروایا جب کہ میر شیر محمد خان تالپور نے 18ویں صدی میں پراسرار قلعہ ، رنی کوٹ کی مرمت کروائی۔ نالپور حکم رانوں کا ایسا ہی ایک قدیم اور فن تعمیر کا شاہکار’’ فیض محل‘‘ بھی ہے، جو خیرپور کی ایک شان دار تاریخی عمارت ہے۔ خیرپور شہرکے شمال مغرب میں واقع فیض محل سابقہ خیرپور ریاست کے تالپور حکمرانوں کی وہ عظیم یادگار ہے، جس کی مثال پورے برصغیر پاک و ہند میں کم ہی ملے گی۔فیض محل پاکستان کے شاندار فن تعمیر کے نمونوں میں سے ایک ہے۔، اس خوب صورت محل کی تاریخ دو سوسال پرانی ہے، اس کی تعمیر خیرپور کے شاہی خاندان تالپور میرس نے 1798 میں کروائی ۔اسے آرام گڑھ اور ’’لکھی محل ‘‘ کے نام سے بھی معروف ہے۔ یہ مغلیہ طرز تعمیر اور آرٹ ورک کا بہترین شاہکار سمجھا جاتا ہے۔

میر فیض محمد خان تالپور ریاست خیرپور کےچوتھےحکم ران تھے، جنہوں نے اپنی خدادادصلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے ایسا حسین محل تعمیر کروایا، جو آج بھی دیکھنے والوں کو اپنے سحر میں مبتلا کر دیتا ہے۔ ایک بادشاہ، سیاست دان، جنگجو، سپاہی، شہسوار اور باغبان، میر فیض محمد خان تالپور وہ باغ و بہار شخصیت تھے، جن کو فنون لطیفہ سے بے حد لگائو تھا، اسی ذوق و شوق کا لازوال عکس فیض محل میں دکھائی دیتا ہے، جو اپنے حسن اور طرز تعمیر کے باعث میران خیرپور کے تاریخی ورثے کا ایک نادر نمونہ ہے۔ میر فیض محمد خان تالپور 1894ء سے 1909تک ریاست خیرپور کے حکمران رہے۔ان کے اس تعمیری شاہ کار کو ان کے نام کی مناسبت سے فیض محل کا نام دیا گیا۔ کیوں کہ اس دور میں اس عظیم الشان عمارت کی تعمیر پر ایک لاکھ روپے کی لاگت آئی تھی اس لیے اسے ’’ لکھی محل ‘‘بھی کہا جاتا ہے۔تاریخی حوالوں سے پتا چلتا ہے کہ 1843ء میں جب چارلس نیپئر نے سندھ کا خطہ فتح کیا، تو سندھ کے آخر ی حکم راں، مبر جارج علی مراد خان تالپورکے ہاتھوں سے اقتدار چلا گیا اور انتظامی طورپر سندھ انگریزوں کی عمل داری میں آگیا۔

تالپور حکم رانوں کا تعمیر کرایا ہوا، فیض محل دو منزلہ عمارت ہے، جو لال اینٹوں سےتعمیر کی گئی ہے، جب کہ اس کا اگلا حصہ ہندوستان کے شہر جے پور سے منگوائے گئے زرد پتھروں سے سجایا گیا ہے، ان پتھروں کی سجاوٹ اور چمک دمک میں اتنا عرصہ گزرنے کے باوجود بھی کوئی فرق یا تبدیلی نہیں آئی ۔ فیض محل کا مرکزی ہال سرکاری تقاریب اور دربار کے لیے استعمال کیا جاتا تھا، روشن دانوں سے سجائے گئے اس خوب صورت ہال میں اس دور کا فرنیچر، جھولے اور نایاب اشیاء آج بھی موجود ہیں، دروازوں، کھڑکیوں سمیت جتنی بھی چیزیں اس میں ہیں وہ سب دیال، ساگوان، پرتل اور چلغوزے کی لکڑی سے بنی ہوئی ہیں، اتنا عرصہ گزرجانے کے باوجود یہ اشیاء آج بھی نئی لگتی ہیں۔ فیض محل میں ڈائننگ ہال بھی قائم ہے، ہال کے دونوں اطراف اخروٹ کی لکڑی سے بنوائی گئی ، ڈریسنگ ٹیبل بناوٹ کے لحاظ سے بے حد عمدہ اور بے مثال ہے۔

اس شان دار محل کے آگے مغلیہ طرز کا ایک باغ بھی بنایا گیا ہے، جو تقریباً بیس ایکڑ اراضی پر پھیلا ہوا ہے، کشادہ باغ میں املتاس، شیشم، کھجور کے درخت فضاء کو اور بھی خوش گوار بنادیتے ہیں۔ محل کی دائیں اور بائیں جانب توپیں نظر آتی ہیں۔ مرکزی ہال کی دیواروں پر تالپور حکمرانوں سے لے کر ان تمام شخصیات کی تصاویر آویزاں ہیں ، جنہوں نےفیض محل کے دورے کیے۔ ان میں پاکستان کے پہلے وزیرِاعظم لیاقت علی خان اور فیلڈ مارشل محمد ایوب خان بھی شامل ہیں۔اگرچہ حکومت اور محکمہ قدیم آثار و محکمہ ثقافت کی عدم توجہی کے باعث ہمارا تاریخی ورثہ زبوں حالی کا شکار ہے، مگر کچھ عمارتیں وقت کے ستم کےباوجود اپنا وقار اور شناخت برقرار رکھی ہوئی ہیں۔ آج بھی فیض محل میں ہر ایک شے کو اپنی اصل حالت میں برقرار رکھنے کی بھرپور کوشش کی گئی ہے، تاکہ اس تاریخی ورثے کو دیکھ کر گزرے زمانے کی یاد تازہ کی جاسکے۔ آج اس دل کش عمارت میں تالپور خاندان کے نوابوں کی پہلے جیسی زندگی تو نہیں رہی ہے، مگر فیض محل ہمیں اب بھی اس دور کی یاد دلاتا ہے، جب یہ عمارت ایک ریاست کی شان و شوکت کی علامت تھی۔

اس محل میں ایک عجیب سی کشش ہے، جو خیرپورکی سیر کے لیے آنے والے افراد کو اپنی طرف کھینچ لیتی ہے۔ اس محل کی بناوٹ اور فن تعمیر کی مہارت کو دیکھ کر کوئی بھی شخص متاثر ہوئے بغیر نہیں رہتا، اس کے مختلف حصوں میں گھومنے کے دوران اس خوب صورت محل کا سحر انسان کو جکڑ لیتا ہے۔

مغلیہ فن تعمیر کا نمونہ ، یہ عمارت خیرپور ریاست کی سب سے نمایاں عمارت رہی ہے۔ خیرپور ریاست کے دفاع کے لیے فوج بھی تھی مگر ہندوستان کی تقسیم اور پاکستان کے قیام کے بعد اس ریاست کو 1955ء میں پاکستان میں شامل کیا گیا اور اس طرح خیرپور ریاست کا وجود ختم ہوا اور اس نے ایک شہر کی حیثیت حاصل کرلی۔ آج بھی فیض محل میں ہر ایک شے کو اپنی اصل حالت میں برقرار رکھنے کی بھرپور کوشش کی گئی ہے تاکہ اس تاریخی ورثے کو دیکھ کر گزرے زمانے کی یاد تازہ کی جاسکے۔