موسم بدلا، ہم نہ بدلے

July 10, 2019

کئی برسوں سے ہم وطن موسمِ گرما اور سرماکے انوکھے انداز کا مشاہدہ کررہے ہیں۔موسمِ گرما کا دورانیہ اور گرمی کی شدّت بڑھتی جارہی ہے۔ملک کے مختلف حصوں میں اب بارشوں کی جھڑیاں نومبر اور دسمبر کے بجائے جنوری اور فروری کے مہینوں میں دیکھنے کو ملتی ہیں ، جو غیر معمولی امر ہے۔اب یہ دیکھیے کہ مون سون کا آغازہوچکا ہے،لیکن اب تک شمالی علاقوں کے چند مقامات کے علاوہ ملک کے کسی حصے سے زیادہ بارشوں کی اطلاعات موصول نہیں ہو رہیں، جو برسات میں غیر معمولی بات ہے۔ دوسری طرف پاکستان کے طول و عرض میں شدید گرمی پڑ رہی ہے۔ پارہ ماضی کے ریکارڈ توڑتا نظر آ رہا ہے۔ ایسا صرف پاکستان میں نہیں ہو رہابلکہ تقریباً ساری دنیا میں گرمی کی شدت میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔اسی طرح بارشوں کا تناسب بھی دنیا میں کم ہوا ہے۔

عالمی موسمیاتی تنظیم کے ماتحت ادارے ساؤتھ ایشین کلائمٹ آؤٹ لک فورم (ساسکوف) نے رواں برس پاکستان میں مون سون کی کم بارشوں کی پیش گوئی کی ہے۔ساسکوف کے مطابق پاکستان میں جولائی سے ستمبر 2019 کے دوران دس سے پندرہ فی صدکم بار شیں ہوں گی۔اس کمی سے سب سے زیادہ سندھ اور بلوچستان کے صوبے متاثر ہوں گے۔ جہاں پیش گوئی کے مطابق گزشتہ برسوں کی نسبت 20سے25فی صدکم بارش ہو گی ۔ بارشوں کی کمی سے جنوبی پنجاب بھی متاثر ہو گاجہاں ساسکوف نے 15 فی صد کم بارش ہونے کی پیش گوئی کی ہے۔

عالمی موسمیاتی تنظیم کی جانب سے گزشتہ برس جاری کی جانے والی رپورٹ کے مطابق2018 دنیا بھر میں لگاتار چوتھا گرم ترین سال تھا۔اونچے درجہ حرارت کے باعث 2018میں فضا میں کاربن ڈائی آکسائیڈ کی مقدار میں اضافہ ہوا اورسمندر میں پانی کی سطح بھی 2017 کی نسبت دو سے تین ملی میٹر اونچی ہوئی۔رپورٹ کے مطابق شدید درجہ حرارت میں پیدا ہونے والی گرمی کا 90 فی صد سمندر کا پانی جذب کرتا ہے جس کی وجہ سےوہ زیادہ گرم ہو جاتا ہے۔ماہرین کے بہ قول ان موسمیاتی تبدیلیوں کے باعث گلیشیئرز اپنی جگہ سے ہٹنا شروع کر دیتے ہیں۔ محکمہ موسمیات کے ڈائریکٹر جنرل طاہر خان کے مطابق اس طرح کی غیر متوقع موسمیاتی تبدیلیاں آب و ہوا میں بڑی تبدیلیوں کے باعث دیکھنے میں آتی ہیں۔ پاکستان کے شمال میں کئی گلیشئیرز کی حرکت دیکھی گئی ہے اور شستر گلیشیئر تقریباًقراقرم ہائی وے تک پہنچ گیا ہے ۔ یہ تمام باتیںآب و ہوا میں تبدیلیوں کی نشانیاں ہیں۔

موسمیاتی تبدیلیاں تباہی لاسکتی ہیں

ماہرین کا کہنا ہے کہ تیزی سے آنے والی اور شدید موسمیاتی تبدیلیاں غیرمتوقع اور تباہ کن واقعات کی وجہ بھی بن سکتی ہیں۔ جن میں سیلاب، طوفان، جنگلات کا خاتمہ، خشک سالی، خوراک کی کمی، اور شدید گرمی کی لہر وغیرہ شامل ہو سکتے ہیں۔طاہر خان کے مطابق کم وقت میں زیادہ بارش کا ہونا خطرناک ثابت ہو سکتا ہے۔اس ضمن میں وہ 2010 کے سیلابوں کی مثال پیش کرتے ہیںجن کی وجہ کم وقت میں زیادہ بارش بنی تھی۔ان کے مطابق ماضی میں پاکستان میں ایک مہینے میں سو ملی میٹر بارش ہوا کرتی تھی۔لیکن اب ہم دیکھتے ہیں کہ ایک گھنٹے میں دو سو ملی میٹر بارش ریکارڈ کی جا رہی ہے۔ یہ نہایت غیر معمولی باتیں ہیںاوریہ قدرتی آفات کا باعث بنتی ہیں ۔ بارش کا پانی جن ندی نالوں میں بہتا ہے، وہ صدیوں میں بنتے ہیں اور پانی کی خاص مقدار ان میں سما سکتی ہے۔ اب جب بارش کا پانی زیادہ ہو جائے گا تو ان ندی نالوں میں نہیں سما سکے گا اور یوں سیلاب کی وجہ بنے گا۔وہ کہتے ہیں کہ جغرافیائی ساخت ایک،دو سال یا عشروں میں تبدیل نہیں ہو جاتی، اس میں صدیاں لگتی ہیں۔

دوسری جانب عالمی موسمیاتی تنظیم کے سیکریٹری جنرل پیٹری تالاس کہتے ہیں کہ آب و ہوا کی تبدیلی محض ایک تبدیلی نہیں ہےبلکہ ان تبدیلیوں سے سمندر، آبی وسائل، ماحولیاتی نظام، فوڈ سیکیورٹی اور پورے کرہ ارض کی پائے دار ترقی متاثر ہوتی ہے۔زمین پر کاربن ڈائی آکسائیڈ کے ارتکاز میں اضافہ 30 سے 50 لاکھ سال پہلے دیکھنے میں آیا تھا۔ جب درجہ حرارت دو سے تین ڈگری سیلسیئس زیادہ اور سمندر کی سطح آج سے دس سے بیس میٹر اونچی ہوا کرتی تھی۔

بغیر ہتھیار کے سپاہی

ماہرین پہلے ہی بتاچکے تھے کہ پاکستان ان ممالک میں سر فہرست ہے جو ماحولیاتی آلودگی اور اس کے نتیجے میں ظاہر ہونے والی موسمیاتی تبدیلیوں سے شدید طور پر متاثر ہوں گے۔ 2010 میں آنے والے سیلاب اس خطرے کی نشان دہی کرنے کا نقطہ آغازتھے۔ 2015 میں کراچی میں جس شدّت کی گرمی پڑی اور جس قدر اموات ہوئیں اس نےعام آدمی کی بھی آنکھ کھول دی ۔ لیکن نہیں جاگے تو ہمارے حکم راں۔تاہم موسمیاتی تبدیلیاں سال بہ سال اپنا رنگ پہلے سے زیادہ شدّت سے دکھاتی جارہی ہیں۔ ایسے میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ہم صورت حال سے نبرد آزما ہونے کے لیے کتنے تیار ہیں ؟اس کا جواب اس خبر سے حاصل کیا جاسکتا ہے کہ رواں برس اپریل کے مہینے میں آبی وسائل کے بارے میں قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی کو مون سون کے موسم میں شدید سیلابوں کے امکان سے آگاہ کیا گیا تھا۔ تاہم موسمیاتی تبدیلیوں کے باعث متوقع قدرتی آفات کی روک تھام یا ان سے بچاؤ کے لیے کوئی حکمت عملی نہیں بنائی جا سکی ہے۔یعنی ہم میدانِ جنگ میں تو اُترچکے ہیں ، لیکن بغیر کسی ہتھیار کے۔

ادہر امریکی خلائی ایجنسی، ناسا اور سمندر، پانی اور ماحول پر کام کرنے والی سائنسی ایجنسی نےرواں برس فروری کے مہینے میں جاری کردہ مشترکہ رپورٹ میں 1880 سے 2018 تک، 139 سال کے ریکارڈ شدہ درجۂ حرارت کی بنیاد پر 2018کو مسلسل چوتھا گرم ترین سال قرار دیاہے اور جنوبی پاکستا ن کے صوبہ سندھ اور بلوچستان میں 2018کے دوران ایشیا میں سب سے زیادہ درجہ حرارت ریکارڈ کیا گیا۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ موسمیاتی تبدیلی کے باعث زمین کا درجہ حرارت مسلسل بڑھ رہاہے۔شدت اختیار کرتی موسمیاتی تبدیلیو ں میں گرمی کی شدت سر فہرست رہی۔ مارچ کے مہینے میں سب سے زیادہ درجہ حرارت 35.5ڈگری سیلسیئس پاکستان میں ریکارڈ کیا گیا، جو139سالوں میں مارچ کے مہینے میں سب سے زیادہ نوٹ کیا گیا درجہ حرارت ہے۔ اس رپورٹ کے ساتھ جاری کردہ دنیا کے نقشے پر مشتمل انفوگراف میں واضح طور پر جنوبی پاکستان کے صوبہ سندھ اور بلوچستان کو گرمی کی شدت سے متاثرہ خطے قرار دیا گیا ہے۔

اس رپورٹ کے مطابق2018میں 1950 سے 1980 تک ریکارڈ شدہ اوسط درجہ حرارت سے 0.8 ڈگری زیادہ ریکارڈ کیا گیا۔ 2015، 2016اور 2017 کے بعد 2018کو ماہرین نے چوتھا مسلسل گرم ترین سال قرار دیا ہے۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ1880 سے اوسط عالمی درجہ حرارت میں ایک ڈگری اضافہ ہوا ہے جس کی وجہ فضا میں کاربن ڈائی آکسائیڈ اور دیگر گرین ہاوس گیسز کا اخراج ہے۔رپورٹ میں خبردار کیا گیا ہے کہ عالمی حِدّت کے دور رس اثرات،مثلاساحلی سیلاب، گرمی کی لہر، شدید بارشیں اور ماحولیاتی نظام میں تبدیلیاں ابھی سے نظر آنا شروع ہو گئی ہیں۔

علاج کیا ہے؟

ماہرین کے مطابق اس مسئلے کا کوئی فوری اور سادہ حل موجود نہیں ہے بلکہ اس کے لیے پوری دنیا کو بہت کچھ اور بہت سے شعبوں میں کرنا ہوگا۔تاہم پاکستان جیسے ترقّی پذیر ،ممالک جن کے پاس وسائل محدود ہیں،فورا سستے اوربہت اچھے حل کے طورپر ہنگامی بنیادوں پر وسیع پیمانے پر شجر کاری کا راستہ اختیار کرسکتے ہیں۔اس عمل سے انہیں فوری طورپر دو بڑے اور اہم فواید حاصل ہونے لگیں گے۔پہلا فایدہ یہ ہوگا کہ موسمیاتی تبدیلیوں کی شدّت کسی حد تک کم ہوجائے گی۔دوسرا فایدہ یہ ہوگا کہ موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے ان کی زراعت اور معیشت پر پڑنے والے منفی اثرات کچھ کم ہوسکتے ہیں اور قدرتی آفات کی تعداد اور شدّت میں بھی کمی آسکتی ہے۔لیکن یہ مسئلے کا واحد حل نہیں ہے۔عقل مندی کا تقاضا یہ ہے کہ اس طرح کے اقدامات فوری طورپر اٹھائے جائیں اور ان کے مثبت اثرات کے نتیجے میں ملنے والی مہلت کے دوران مختلف جہتوں میں کام کیا جائے۔اس ضمن میں شہروں میں اربن فاریسٹ اگائے جائیں اور دیگر علاقوں میں معمول کے مطابق مگر جارحانہ انداز میں شجر کاری کی جائے۔

کراچی میں 2015میں پڑنے والی قیامت خیز گرمی کے بعد سے عوام اور ماہرین کی یہ متفقہ رائےنظر آتی ہے کہ شہر کی گرمی کا توڑ صرف درخت لگانا ہی ہے۔ رواں برس بھی شہر گرمی کی یکے بعد دیگرے آنے والی لہروں کی لپیٹ میں ہے۔ماہرین کا کہنا ہے کہ کراچی میں گرمی کی شدت بڑھنے کی وجہ موسمیاتی تبدیلی ہے جس کا ایک عنصر درختوں کی کٹائی اور نئے درخت نہ لگانا ہے ۔ تاہم ماہرین یہ بھی کہتے ہیں کہ شہر میں گرمی میں اضافے کی وجہ غلط اقسام کے درخت لگانا بھی ہے۔یاد رہے کہ کراچی میں مصطفیٰ کمال نے اپنے دورِ نظامت میں ’’کونو کارپس‘‘ نامی درخت بڑے پیمانے پر لگوائےتھے۔ ماہرینِ نباتات کے مطابق یہ درخت دراصل تمر کی ایک قسم ہے جس کی وجہ سے اس کے بارے میں عموماً مثبت رائے صرف اس لیے نہیں رکھی جاتی کیوں کہ اس کی نشوونماکے لیے کافی پانی درکار ہوتا ہے جس کی ویسے ہی شہر میں کمی ہے۔

شہری منصوبہ بندی کے ایک ماہر کے بہ قول کراچی کے ماسٹر پلان کی پرانی دستاویزات بتاتی ہیں کہ اسے بنانے والوں نےکافی محنت کی تھی۔ماسٹر پلان کے تحت شہر کو سات زونز میں تقسیم کیا گیا تھا۔ہر زون کی ارضی ساخت کے مطابق اس حصے کےلیے مناسب جھاڑیاں ، پھول دینے والے پودے،، بیلیں اور درخت کون سے ہونے چاہییں، یہ تمام باتیں اس پلان میں موجود ہیں۔ اگر حکومت خود اس پر عمل نہیں کر سکتی تو مقامی سطح پر کام کرنے والے اداروں کے ذریعےتو ان پر عمل درآمد کراسکتی ہے۔

کراچی میں ترقّی کے نام پر ہونے والی بے ہنگم اور بیش تر غیر قانونی سرگرمیوں کے نتیجے میں درختوں کی تعداد کس حد تک کم ہوئی ہے اس بارے میں صرف تخمینہ لگایا گیا ہےاور کسی ادارے کے پاس اس بارے میں کوئی حتمی اعدادوشمار نہیں ہیں۔کہا جاتا ہے کہ پہلے کراچی کے رقبے کے مطابق تقریبا چھ فی صد پودوں کا لینڈ کور تھاجو 2012 اور2013کے درمیان تین فی صد رہ گیاتھا۔ اب یہ خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ شاید اب یہ تین فی صد بھی نہ رہا ہو۔ماہرین کے مطابق کراچی میں مختلف ڈھنگ سے پڑنے والی گرمی کا درختوں سے بہ راہ راست تعلق اس لیے نہیں ہے کہ گرمی کی شدت موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے ہے۔تاہم بالواسطہ طورپر درخت گرمی کی شدت کم کرنے میں کارگر ثابت ہوسکتے ہیں۔

ان حالات میں یہ خوش کن خبر آئی ہے کہ حکومتِ سندھ کا محکمہ پبلک ہیلتھ انجینئرنگ اور دیہی ترقی 29 کروڑ روپے کی لاگت سے ایک منصوبے کا آغاز کرنے جا رہا ہے جس کے تحت صوبے بھر میںپانچ ہزار سے زاید مقامات پر درخت لگائے جائیں گے۔یہ مقامات زیادہ تر کراچی کے علاوہ صوبے کے دیگر اضلاع میں واقع ہیں۔لیکن افسوس ناک بات یہ ہے کہ عوام کئی برس سے اس قسم کے وعدے اور دعوے سن سن کر عاجز آچکے ہیں کیوں کہ عملی طور پر کچھ ہوتا نظر نہیں آتا۔کراچی اربن فاریسٹ پروجیکٹ 2016سے اخبارات کی زینت بنتا چلاآرہا ہے،لیکن کلفٹن میں کیے جانے والے ایک تجربے کے علاوہ اس ضمن میں آج تک اور کچھ نہیں کیا گیا ہے۔کلفٹن والا اکلوتا منصوبہ بھی اپنے روحِ رواں کی وجہ سے اب تک کھڑا ہے ورنہ اس کے ساتھ بھی کیا کیا کھیل نہیں کھیلا گیا۔


اربن فاریسٹ اور میاوا کی تیکنیک

بعض ماہرین کا کہنا ہے کہ دیگر ممالک کی طرح اب ہمیں بھی اربن فاریسٹ اگانے پر فوری توجہ دینی چاہیے ۔ان کے مطابق اگر کراچی میں صرف پچّیس شہری جنگلات اگالیے جائیں تو یہ شہر خوف ناک اربن ہیٹ آئی لینڈ افیکٹ سے چھٹکارا پا سکتا ہے۔دراصل اس عمل میں انسانی سرگرمیوں کی وجہ سے کسی علاقے کا درجہ حرارت دیہی علاقوں کے درجہ حرارت سے زیادہ ہوجاتا ہے ۔ کلفٹن کے ایک پارک میںشہزاد قریشی نامی شخص نے ذاتی دل چسپی اور کوششوں سے شہری جنگل اگاکر یہ ثابت کردیا ہے کہ اس شہر میں ایسے جنگلات اگانا ناممکن نہیں ہے۔

شہزاد نے یہ کام شہری جنگلات اگانے کے ایک بھارتی ماہر کی مدد سے کیا۔اس ماہر نے اس کام کے لیے میاواکی تیکنیک استعمال کی جودرختوں کو قدرتی ماحول سے دس گنا زیادہ تیزی سے اگنے میں مدد دیتی ہے جس کی وجہ سے خود کو برقرار رکھ سکنے والا جنگل صرف دو سے تین برس میں تیار ہوجاتا ہے۔میاواکی تیزی سے درخت لگانے کا وہ طریقہ ہے جسے جاپان کے ایک ماہر نباتات اکیرا میوا کی نے 60 سال کی تحقیق کے بعد دنیا کے سامنے پیش کیا تھا۔

شہزاد کا جنگل اب تقریباً چار برس کا ہوچکا ہے اور اس میں 1200 درخت ہیں۔ انہوں نے کراچی کے ایک پارک کی پانچ سال کے لیے سرپرستی حاصل کی اور اس کے 500 مربع فیٹ کے ٹکڑے پر جنوری 2016 میں جو پودے لگائے تھے ان میں سے کچھ اس وقت بیس بیس فیٹ کے اور کچھ 25 فیٹ بلند ہو چکے ہیں۔وہ کہتے ہیں کہ 100 مربع میٹر کے ٹکڑے کے لیے قانون یہ ہے کہ 320 سے 350 پودے لگائے جائیں جن میں مقامی انواع کے درختوں اور جھاڑیوں کی اقسام ایک دوسرے سے قریب لگائی جائیں۔مٹی کی تیاری کے لیے مخصوص مقدار میں گنے کا بھوسہ، چاول کا چھلکا اور گائے کا گوبر استعمال کیا جاتا ہے۔ ہر مربع میٹر کو پہلے 3 سال تک روزانہ 3 سے 5 لیٹر پانی درکار ہوتا ہے اور پہلے سال میں بیلیں صاف کرنی ہوتی ہیں۔ کسی بھی قسم کا کیمیکل، مصنوعی کھاد یا کیڑے مار دواکا استعمال سختی سے منع ہوتا ہے۔ان کے مطابق سبزے کے ان ٹکڑوں کو شجرکاری کے ابتدائی کام کے بعد انسانی دیکھ بھال کی زیادہ ضرورت نہیں پڑتی۔جب آپ پودوں کو ایک دوسرے کے نزدیک لگاتے ہیں تو وہ ایک دوسرے سے اہم غذائی اجزاء حاصل کرکے مضبوط اور تواناہو جاتے ہیں اور ایک خاندان کی طرح رہتے ہیں۔ان جنگلات کوبہت کم توجہ، محنت اور علم کی ضرورت ہوتی ہے ۔ میاواکی تیکنیک کی مدد سے کسی بھی خطے میں ان درختوں کے ساتھ تیزی سے جنگل اگایا جا سکتا ہے جو وہاں لاکھوں سال پہلے اگا کرتے تھے۔اس تیکنیک کے ذریعے کم جگہ پر زیادہ سے زیادہ درخت لگائے جا سکتے ہیں۔ اس مقصد کے لیے سب سے پہلے علاقے کے آبائی پودوں کو اکٹھا کیا جاتا ہے جن میں پھل دار، پھول دار،سایہ دار، جھاڑی نما پودے اوردرخت ،گویا ہر قسم کے پیڑ،پودے شامل ہوتے ہیں۔ جہاں جنگل اگانا ہوتا ہے وہاں زمین پر کوئی کیمیکل یا کیمیائی کھاد نہیں ڈالی جاتی بلکہ صرف دیسی کھاد ڈالی جاتی ہے اور پھر مقامی پودوں کو چار تہوں میں جنگل کی ترتیب سے لگا دیا جاتا ہے۔ انہیں صرف تین سال تک پانی دیا جاتا ہے، جس کے بعد وہ خودبہ خود بڑھنے لگتے ہیں اور ساٹھ، ستر فیٹ کی بلندی تک بھی پہنچ جاتے ہیں۔یوں صرف تین سال میں وہاں ایسا ماحول پیدا ہو جاتا ہے جہاں پرندے، ہر قسم کے حشرات، تتلیاں، چڑیاں، شہد کی مکھیاں، گرگٹ وغیرہ آنا شروع ہو جاتے ہیں جس سے جنگل کا پورا ماڈل تیار ہو جاتا ہے۔

میاواکی تیکنیک سے لگائے گئے درخت مقابلتاً دس گنا زیادہ تیزی سے بڑھتے ہیں،مقابلتاً تیس گنا زیادہ آکسیجن پیدا کرتے،تیس گنا زیادہ کاربن ڈائی آکسائڈ جذب کرتے اور ہوا میں موجود الرجی پیدا کرنے والے اجزا کو تیس گنا زیادہ جذب کرتے ہیں۔ یوں اس علاقے کی ہوا کو صاف کر کے صحت مند فضا پیدا کر دیتے ہیں۔

لاہور میں ایک نجی ہاؤسنگ کمپنی کے سی ای او نے بھی اپنی ہاؤسنگ اسکیم میں میاواکی تیکنیک سے چھوٹا سا جنگل اگانا شروع کیا ہے۔انہوں نے اپنی ہاؤسنگ اسکیم کے چھ کنال کے رقبے پر تقریبا ڈیڑھ برس قبل مذکورہ تیکنیک کے ایک ماہر کی مدد سے ساڑھے پانچ ہزار درخت لگائے تھے جو تیزی سے بڑھ رہے ہیں اور بہت خوب صورت منظر پیش کرتے ہیں۔