جناب وزیراعظم! واشنگٹن کیا لے کر جائیں گے؟

July 19, 2019

بلاشبہ یہ ایک بہت بڑے اعزاز کی بات ہے کہ امریکی صدر ٹرمپ نے ہمارے وزیرِاعظم کو ملاقات کی دعوت دی ہے۔ مسلمہ سفارتی آداب کے مطابق مہمان کو خالی ہاتھ نہیں جانا چاہئے۔ تبھی اُس کا احترام کے ساتھ استقبال بھی کیا جائے گا اور اُس کی پسندیدگی کا لحاظ بھی رکھا جائے گا۔ ہم سب کو معلوم ہے کہ پاکستان نے افغان طالبان اور امریکی نمائندوں کو قطر میں مذاکرات کی میز پر لانے اور بنیادی اصولوں پر اتفاقِ رائے پیدا کرنے میں استقامت اور عرق ریزی سے کام لیا ہے، وہ عمران ٹرمپ ملاقات کی بنیاد بنا ہے۔ پاکستان کے سوا یہ عظیم کارنامہ کوئی دوسرا ملک سرانجام نہیں دے سکتا تھا۔ یہ کریڈٹ بھی اِسی کو جاتا ہے کہ اس نے کثیر تعداد میں افغانستان کے نمائندے اسلام آباد بلائے اور اُنہیں طالبان سے معاملات طے کرنے اور افغانستان کو برسوں پر محیط خانہ جنگی سے نکالنے پر آمادہ کیا۔ اِن مذاکرات میں حزب المجاہدین کے سربراہ گلبدین حکمت یار نے اہم کردار ادا کیا جو افغان حکومت سے تعاون کر رہے ہیں اور جلد سے جلد خانہ جنگی کا خاتمہ چاہتے ہیں۔ پاکستان کی اِن مصالحتی کوششوں نے امریکی لیڈرشپ کی سوچ میں بڑی تبدیلی پیدا کی ہے حالانکہ صدر ٹرمپ نے انتخابات میں کامیابی اور حلف اُٹھانے کے چند ماہ بعد پاکستان کے خلاف سخت بیان دیا تھا اور تعلقات ڈگمگاتے ہوئے نچلی ترین سطح پر آ گئے تھے۔

اِس گمبھیر صورتحال کے مقابلے میں آج حالات بدرجہا بہتر محسوس ہوتے ہیں جن میں وزیرِاعظم عمران خان اور اُن کی ٹیم کے لئے اپنی صلاحیتوں کے جوہر دکھانے کے بڑے مواقع دستیاب ہیں۔ اُنہیں اپنے ساتھ لے جانے کے لئے ایک ایسی ٹیم کا انتخاب کرنا ہوگا جو پاک امریکی تعلقات کی تاریخ اور اُن کی نزاکتوں سے پوری طرح واقف ہو اور مستقبل میں دیکھنے کی بصیرت بھی رکھتی ہو۔ جناب عمران خان کو خود بھی ہر معاملے کا گہرائی سے جائزہ لینا اور فی البدیہہ گفتگو کے بجائے پہلے سے صحیح الفاظ کا انتخاب کرنا ہوگا۔ اُنہوں نے جب کبھی سوچ سمجھ کر تقریر کی، وہ عوام کے ذہنوں میں اُترتی گئی اور جس وقت اپنی روانیٔ طبع پر انحصار کیا، اُن سے غیرملکی دوروں میں فاش غلطیاں سرزد ہوئیں۔ ایک بار جوشِ خطابت میں یہاں تک کہہ گئے کہ جاپان اور جرمنی ایک دوسرے کے ہمسائے ہیں جو دوسری جنگِ عظیم کے دوران ایک دوسرے کی تباہی کا باعث بنے تھے۔ اُمورِ خارجہ کے ماہرین کے ساتھ مشاورت سے ایک ایسی تقریر تیار کی جائے جو تاریخ میں یاد بھی رکھی جائے اور ایک نئی تاریخ تخلیق کرنے کی استعداد بھی رکھتی ہو۔ عمران خان جس روانی اور خود اعتمادی سے گفتگو کرتے ہیں، وہ لکھی ہوئی تقریر کے ذریعے صدر ٹرمپ کے اندر جنوبی ایشیا میں امن قائم کرنے کا داعیہ بڑی قوت سے اُبھار سکتے ہیں۔

مفت مشورے شاید کسی بھی دور میں قابلِ توجہ نہیں سمجھے گئے مگر آج کے عہد میں تو ہمارے حکمران اُن سے ہردرجہ الرجک نظر آتے ہیں۔ اِس تلخ حقیقت کے باوجود میں یہ تجویز دینے سے باز نہیں رہ سکتا کہ جناب وزیرِاعظم اِس دورے میں آزاد صحافیوں کو اپنے ساتھ ضرور لے کر جائیں۔ ان کی موجودگی سے دورے کی تفصیلات عوام تک پہنچیں گی، زیرِ بحث آئیں گی اور وزیرِاعظم کے قدوقامت میں اضافے کا باعث ہوں گی۔ ہمیں وزیرِاعظم کی میڈیا ٹیم سے خوف آتا ہے کہ اس کی ناتجربہ کاری اور باہمی چپقلش سے وزیرِاعظم کی ایک اہم تقریر جو ریکارڈ کی گئی تھی، ایک تماشہ بن کے رہ گئی کہ اس کی ریکارڈنگ غیرپیشہ ورانہ طریقے سے کی گئی تھی۔

ہمارے وزیرِاعظم صاحب اچھی طرح جانتے ہیں کہ امریکہ میں فرد کی آزادی، قانون کی حکمرانی اور جمہوری اقدار کو غیرمعمولی اہمیت حاصل ہے۔ امریکی انتظامیہ اور عوام دوسرے ملکوں کو اِسی معیار پر جانچتے اور اُن کی درجہ بندی کرتے ہیں۔ اسے بدقسمتی کہا جا سکتا ہے کہ خان صاحب کی کابینہ میں ایسے افراد غیر معمولی اثر و رسوخ کے حامل ہیں جو آمرانہ مزاج رکھتے اور عجیب و غریب حرکتیں کرتے رہتے ہیں۔ جناب وزیرِاعظم کو اُنہیں فوری طور پر شٹ اپ کال دینا ہو گی کہ ان کے ارشادات اخبارت میں چھپتے اور سوشل میڈیا کے ذریعے اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ تک پہنچ جاتے ہیں۔ حال ہی میں ایک اہم حکومتی نے اسپیشل فورس بنانے کی تجویز دی ہے۔ میں نے اُن کا بیان اخبارات میں پڑھا، تو میرے اوسان خطا ہو گئے اور دل بیٹھنے لگا۔ وہ فرماتے ہیں ’’میں تمہاری ٹانگیں توڑ دوں گا، کوئی بھی ہڈی سالم نہیں رہے گی، میں تمہیں غائب کرا دوں گا اور جسم تمہارے گھر کے باہر پھینک دیا جائے گا۔ اِس مقصد کے لئے ایک اسپیشل اسکواڈ ہو گا۔‘‘ یہ دھمکیاں وہ صاحب سول ایوی ایشن اور ایک وفاقی ادارے کے جونیئر افسروں کو دے رہے تھے۔ خبر پڑھ کر جناب زیڈ اے بھٹو کی ایف ایس ایف یاد آئی جس نے سیاسی حریفوں پر ظلم کے پہاڑ توڑے تھے۔ ایک حالیہ گرفتاری سے ایسے لگتا ہے کہ وہ عہد واپس لوٹ آیا ہے جس میں سیاستدانوں کی بھینس چوری کے الزام میں گرفتاری عمل میں آتی تھی۔ کوشش کی جانا چاہئے کہ پاکستان سے زیادہ تر ایسی خبریں باہر جائیں جو اچھی حکمرانی کا تصور پیش کرتی ہوں۔ میرے خیال میں اپوزیشن کو بھی اِس امر کا خیال رکھنا چاہئے کہ ملک کے وزیرِاعظم ایک اہم دورے پر جا رہے ہیں جس کی کامیابی سے پاکستان میں اقتصادی سرگرمیاں تیز ہو سکتی ہیں اور بیرونی سرمایہ کاری کی نئی نئی راہیں کھل سکتی ہیں۔

دو خودمختار ملکوں کے سربراہ جب ملاقات کریں گے، تو فطری طور پر صدر ٹرمپ افغانستان سے جڑے ہوئے مسائل کو اہمیت دیں گے اور پاکستان کے تعاون کے طلب گار ہوں گے۔ وزیرِاعظم عمران خان امریکہ سے فنانشل سپورٹ کے خواہش مند ہوں گے اور اِس بات کے بھی کہ امریکہ، بھارت کو ہر نوع کی مہم جوئی سے باز رکھے، پاکستان سے مذاکرات پر آمادہ کرے اور مسئلہ کشمیر پُرامن طریقے سے حل کرنے کا راستہ نکالے۔ عمران خان امریکی سرمایہ کاروں کو پاکستان میں بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کے لئے مؤثر انداز میں ترغیب دے سکتے ہیں کیونکہ بیس کروڑ سے زائد آبادی کی مارکیٹ ہے اور نوجوان ٹیلنٹ بھی بہت زیادہ ہے۔ معلوم ہوا ہے کہ وزیرِاعظم بیس ہزار کے لگ بھگ امریکی پاکستانی کمیونٹی کے جلسۂ عام سے خطاب کریں گے۔ اُمید کی جا سکتی ہے کہ یہ خطاب پاکستان کے حق میں بہت بڑی نعمت ثابت ہو گا۔ اِس نعمت سے پوری طرح فائدہ اُٹھانے کے لئے پاکستان کو اپنا گھر درست کرنا اور عوام کے حقوق و مفادات کو مرکزی اہمیت دینا ہو گی۔