بھارت امن دشمن

August 22, 2019

میزبان:محمد اکرم خان

ایڈیٹر، جنگ فورم، کراچی

رپورٹ:طلعت عمران

عکّاسی:اسرائیل انصاری

سردار محمد اشرف خان
سابق صدر، آزاد کشمیر چیمبر
آف کامرس اینڈ انڈسٹریز/
ماہر امورِ کشمیر

مودی نے مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کر کے پاکستان پر دھاوا بولا ہے، بھارتی اقدام اس کی بین الاقوامی حکمتِ عملی کا حصہ ہے، پاکستان کی غیر مستحکم معیشت نے بھارت کو یہ موقع فراہم کیا اور ہم نے ہمیشہ کی طرح دفاعی حکمتِ عملی اپنائی، ہمیں جارحانہ رویہ اپنانا چاہیے، کشمیری باشندوں کو پاکستان کی مدد چاہیے، وہ آزادی کے لیے پاکستان کی طرف دیکھ رہے ہیں، یہ کشمیر آزاد کروانے کا نادر موقع ہے، بھارتیوں کو کشمیریوں سے نہیں، زمین سے غرض ہے، مودی سرکار نے بھارت کے منتشر ہونے کا بیج بو دیا، بھارتی سپریم کورٹ کی جانب سے فیصلے کو کالعدم قرار دینا حیران کن ہو گا

سردار محمد اشرف خان

نوشین وصی
اسسٹنٹ پروفیسر، شعبہ بین
الاقوامی تعلقات،کراچی
یونی ورسٹی

مودی سرکار نے ہندو ووٹ بینک برقرار رکھنے کے لیے آرٹیکلز 370اور 35اے کی تنسیخ کی، فیصلے کی ٹائمنگ اہمیت کی حامل ہے، بھارت نے بین الاقوامی برادری کو پیغام دینے کی کوشش کی، مقبوضہ کشمیر کو بھارت میں ضم کرنے سے کوئی قابلِ ذکر تبدیلی واقع نہیں ہو گی، اب کشمیریوں کی جانب سے شدید ردِ عمل سامنے آئے گا، پاکستان کا ردِ عمل غیر مناسب اور وزیر اعظم کی تقریر مایوس کن تھی، مستقبل میں دونوں ممالک کے درمیان محدود پیمانے کی جنگ ہو سکتی ہے، بھارت نے ہمیں مسئلہ کشمیر حل کرنے کا موقع فراہم کر دیا، ہم نے مسئلہ کشمیر پر اب تک کوئی جامع پالیسی نہیں بنائی، پاکستان کو سفارتی محاذ پر پیش رفت کرنی چاہیے

نوشین وصی

شاہد امین
سابق سفیر /ماہرِ بین الاقوامی
تعلقات

بھارتی فیصلے سے مستقبل میں پاک، بھارت کشیدگی میں مزید اضافہ ہو گا، پارلیمنٹ نے مثالی اتحاد کا مظاہرہ نہیں کیا، پاکستان جنگ کا متحمل نہیں ہو سکتا، ظالمانہ اقدام کے بعد بھارت نواز حلقے بھی بھارت کے خلاف ہو گئے، اب مسئلہ کشمیر دنیا بھر کی توجہ کا مرکز بن چکا ہے، ہمیں سفارتی محاذ پر فعالیت کا مظاہرہ کرنا چاہیے، مذاکرات ہی بہتر حل ہے، اسلامی ممالک کشمیریوں سے ہمدردی رکھتے ہیں، لیکن بھارت کو ناراض بھی نہیں کرنا چاہتے، دنیا کے کسی بھی ملک نے بھارتی فیصلے کی حمایت نہیں کی، پاکستان کو امریکا، طالبان مذاکرات کو ثالثی سے مشروط نہیں کرنا چاہیے، عالمِ اسلام کو متحد ہونے کی ضرورت ہے

شاہد امین

بھارتی حکومت نے اپنے آئین کے آرٹیکل، 370اور 35اے کو منسوخ کر کے مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرتے ہوئے اسے اپنی ریاست بنا لیا ہے۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر مودی سرکار نے یہ غیر آئینی اقدام کیوں کیا اور اس کے مضمرات کیا ہوں گے؟ پاکستان نے بھارتی حکومت کے اس فیصلے پر رد عمل کا اظہار کرتے ہوئے بھارت سے تجارتی تعلقات معطل اور سفارتی روابط محدود کر دیے، جب کہ پاکستان کا یومِ آزادی یومِ یک جہتیٔ کشمیر اور بھارت کا یومِ آزادی یومِ سیاہ کے طور پر منایا گیا۔ نیز، پاکستان کی درخواست پر 50برس بعد مسئلہ کشمیر پر سلامتی کائونسل کا ہنگامی اجلاس طلب کیا گیا، جس میں چین نے سخت رد عمل ظاہر کیا، جب کہ دیگر رکن ممالک نے یو این ایس سی کی ویب سائٹ پر جاری کردہ مشترکہ اعلامیے میں مقبوضہ کشمیر کو متنازع علاقہ قرار دیتے ہوئے اس کی خصوصی حیثیت ختم کرنے کا عمل یک طرفہ قرار دیا اور پھر پاکستان نے مقبوضہ کشمیر میں بھارتی جاری مظالم پر عالمی عدالت انصاف میں جانے کا فیصلہ کیا۔تاہم، اب یہ دیکھنا ہو گا کہ پاکستان مزید کس حد تک جائے گا اور بھارت کے غیر آئینی اقدام پر کشمیریوں کا کیا ردِ عمل ہے اور کیا ہونا چاہیے۔ علاوہ ازیں، سرحدوں پر تنائو میں مزید اضافہ ہو گا یا نہیں اور آیا دونوں ممالک کے درمیان جنگ ہو گی یا نہیں۔ گزشتہ دنوں مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے کے بعد پیدا ہونے والی صورتِ حال پر جامعہ کراچی کے شعبۂ بین الاقوامی تعلقات میں جنگ فورم منعقد کیا گیا۔ فورم میں سابق سفیر اور بین الاقوامی تعلقات کے ماہر، شاہد امین، آزاد کشمیر چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹریز کے سابق صدر اور ماہر امورِ کشمیر، سردار محمد اشرف خان اور کراچی یونی ورسٹی کے انٹرنیشنل ریلیشنز ڈیپارٹمنٹ کی اسسٹنٹ پروفیسر ، نوشین وصی نے اظہارِ خیال کیا۔ اس موقعے پر مقررین نے حاضرین کے سوالات کے جواب بھی دیے۔ فورم میں ہونے والی گفتگو ذیل میں پیش کی جا رہی ہے۔

جامعہ کراچی کے شعبۂ بین الاقوامی تعلقات میں کشمیر کے موضوع پر منعقدہ جنگ فورم کا منظر اور شرکا کا گروپ فوٹو،ایڈیٹر جنگ فورم ، کراچی محمد اکرم خان میزبانی کے فرائض سرانجام دے رہے ہیں

جنگ :مودی سرکار کی جانب سے کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے کے کیا مضمرات ہوں گے؟

نوشین وصی :اگرچہ بھارتی پارلیمنٹ نے مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے کے صدارتی حکم نامے کی آناً فاناً منظوری دی، لیکن یہ معاملہ پہلے سے زیربحث تھا۔ آرٹیکل 370کا خاتمہ بی جے پی کے منشور کا حصہ تھا۔ پھر مودی کے دور حکومت میں بھارت میں تیزی سے بڑھتی ہوئی انتہا پسندی کے پیشِ نظر بھی اس فیصلے کی توقع کی جا رہی تھی۔ تاہم، اس وقت ہندو ووٹ بینک کو برقرار رکھنے کے لیے یہ فیصلہ کیا گیا۔ اگر اس فیصلے کی قانون حیثیت کا جائزہ لیا جائے، تو کشمیر کی خصوصی حیثیت کا خاتمہ ایک غیر قانونی اقدام ہے، کیوں کہ مقبوضہ کشمیر کی دستو ساز اسمبلی کی جانب سے اس ترمیم کی منظوری لازمی تھی، جو اس وقت غیر فعال ہے اور وہاں گورنر راج نافذ ہے۔ مقبوضہ کشمیر کے گورنر نے اس آئینی ترمیم کو منظور کر لیا۔ ہر چند کہ یہ فیصلہ بھارتی آئین سے بھی انحراف ہے، لیکن بھارتی پارلیمان کی اکثریت اس کے حق میں ہے۔ تاہم، انڈین سپریم کورٹ اس فیصلے کو کالعدم قرار دے سکتی ہے۔ مقبوضہ کشمیر کو بھارت میں ضم کرنے کے بعد بھی وہاں کوئی قابلِ ذکر تبدیلی واقع نہیں ہو گی، کیوں کہ بھارت نے پہلے ہی مقبوضہ کشمیر کے عوام کے حقوق غصب کر رکھے تھے۔ البتہ اب کشمیریوں کی جانب سے شدید رد عمل سامنے آئے گا اور وادی میں پر تشدد واقعات بڑھ جائیں گے۔ بھارتی حکومت کے اس غیر آئینی اقدام کے بعد کشمیر میں موجود بھارت نواز عناصر بھی اس کے خلاف ہو گئے ہیں اور اس وقت تین سابق وزرائے اعلیٰ اپنے گھروں میں نظر بند ہیں۔ اگر آرٹیکل 35اے کی تنسیخ کی بات کی جائے، تو یہ اس قدر اہم آرٹیکل تھا کہ اگر کوئی کشمیری خاتون کسی غیر کشمیری مرد سے شادی کرتی، تو وہ بھی اپنے جائیداد کے حق سے محروم ہو جاتی۔ آرٹیکل 370کے خاتمے کا جواز پیش کرتے ہوئے نریندر مودی کا کہنا تھا کہ یہ کشمیر کی ترقی میں رکاوٹ تھا اور اس کی تنسیخ کے بعد وہاں ترقی ہو گی اور امن قائم ہو گا۔ تاہم، اس وقت صورتِ حال ان کی توقعات کے برعکس نظر آ رہی ہے، جب کہ آرٹیکل 35اے کی تنسیخ سے مقبوضہ کشمیر کی آبادی کے تناسب میں تبدیلی واقع ہو گی۔ صدارتی حکم نامے کی رو سے مقبوضہ جموں و کشمیر کو دو حصوں میں تقسیم کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ اب جموں کی اسمبلی ہو گی، جب کہ وادیٔ کشمیر میں اسمبلی نہیں ہو گی۔ اس کی سادہ سی وجہ یہ ہے کہ جموں میں پہلے ہی ہندوئوں کی اکثریت ہے اور وہاں قانون ساز ادارہ ہونے کی وجہ سے بھارتی حکومت کے لیے کسی قسم کی مشکلات پیدا نہیں ہوں گی۔ چوں کہ مقبوضہ کشمیر ایک متنازع علاقہ ہے، لہٰذا اس کی خصوصی حیثیت ختم کرنے کا فیصلہ اقوامِ متحدہ کی قراردادوں اور معاہدۂ شملہ کی صریح خلاف ورزی ہے۔ شملہ معاہدے میں یہ بات طے ہوئی تھی کہ دونوں ممالک دو طرفہ بات چیت کے ذریعے اس مسئلے کا حل نکالیں گے۔ اگرچہ مودی سرکار کے اس فیصلے پر کشمیری عوام شدید غم و غصے کا شکار ہیں، لیکن بھارت میں مودی کی مقبولیت میں اضافہ ہوا ہے۔ اس فیصلے کی ٹائمنگ بہت اہم ہے، کیوں کہ اس وقت ہمارے خطے میں بہت سی تبدیلیاں واقع ہو رہی ہیں۔ آج امریکا، افغانستان سے نکلنے کی راہیں تلاش کر رہا ہے اور کچھ عرصہ قبل عمران خان نے ٹرمپ سے مسئلہ کشمیر میں ثالثی کی درخواست بھی کی۔ اس موقعے پر امریکی صدر نے یہ انکشاف کیا کہ انہیں بھارت کی جانب سے بھی ثالثی کی درخواست کی گئی ہے، لیکن بھارتی حکومت نے ان کے اس بیان کو مسترد کر دیا اور بعد ازاں، مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کر دی۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ بھارت نے اس اقدام کے ذریعے اقوامِ عالم کو کوئی پیغام دینے کی کوشش کی ہے۔

جنگ :اس موقعے پر پاکستان کے ردِ عمل پر آپ کی کیا رائے ہے؟

نوشین وصی :اس واقعے کے بعد پاکستان کا ردِ عمل دیکھ کر تو مجھے بہت دکھ ہوا۔ بد قسمتی سے ہم نے ابھی تک مقبوضہ کشمیر سے متعلق کوئی جامع پالیسی ہی نہیں بنائی اور نہ ہی ہم نے اس حساسیت کا مظاہرہ کیا، جس کی ضرورت تھی۔ پھر بعض داخلی عناصر کی وجہ سے بھی ہمارے لیے مشکلات کھڑی ہوئیں۔ یاد رہے کہ کشمیر بھارت سے متعلق پاکستان کی خارجہ پالیسی کا کلیدی پتھر ہے اور اس سے ہمارے جذبات بھی وابستہ ہیں۔ نیز، خطے میں رونما ہونے والے واقعات بھی کشمیر سے جڑے ہوئے ہیں۔ لہٰذا، ان تمام باتوں کے پیشِ نظر مجھے پاکستانی حکومت کا رویہ بالکل غیر مناسب محسوس ہوا۔ پالیسی بھی غیر مربوط اور منتشر نظر آئی، جب کہ وزیرِ اعظم کی تقریر بھی مایوس کن تھی۔ انہیں صاف گوئی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایک جامع پالیسی پیش کرنی چاہیے تھی۔ اسی طرح نیشنل سیکوریٹی کائونسل نے بھی دفاعی رویہ اپنایا۔ بد قسمتی سے بھارت سے متعلق ہماری پالیسی ری ایکشن پر مبنی ہے۔ ہم بھارت کو جنگ کی دھمکیاں تو دیتے ہیں، لیکن سفارتی محاذ پر بھارت کا مقابلہ کرنے کے لیے ہماری کوئی تیاری نہیں۔ پھر کشمیر کے معاملے میں جذبات بھی شامل ہو جاتے ہیں، کیوں کہ تاریخی طور پر یہ معاملہ ہماری حب الوطنی سے جڑا ہوا ہے۔ تاہم، ریاستوں کے فیصلے جذبات پر مبنی نہیں ہوتے، بلکہ غور و فکر اور دور اندیشی کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔ اب ایک منظر نامہ تو یہ ہو سکتا ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں پر تشدد واقعات میں اضافہ ہو جائے اور اس کے نتیجے میں لائن آف کنٹرول پر تنائو بڑھ جائے۔ چوں کہ دونوں ممالک ایٹمی طاقت ہیں، تو باقاعدہ جنگ ممکن نہیں ہے، البتہ محدود پیمانے پر جنگ ہو سکتی ہے۔ دوسرا منظر نامہ یہ ہو سکتا ہے کہ ہم سفارتی ذرایع سے اس بحران میں اپنے لیے مواقع تلاش کریں۔ بھارت نے ہمیں ایک موقع فراہم کیا ہے کہ ہم اس مسئلے کے حل کی جانب جا سکتے ہیں۔

جنگ :مودی نے مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت کیوں ختم کی اور اس پر کشمیریوں کا کیا ردِ عمل ہے؟

سردار اشرف خان :مودی نے مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کر کے دھاوا بولا ہے۔ بی جے پی کا ہمیشہ سے یہ مؤقف رہا ہے کہ بھارت مخالف عناصر اور علیحدگی پسند تنظیموں کو بہ زور طاقت ختم کیا جائے۔ وہ اپنے ہندو توا کے نظریے پر عمل پیرا ہے۔ مودی نے اپنی دونوں انتخابی مہمات میں مقبوضہ کشمیر کو بھارت میں ضم کرنے کا نعرہ لگایا تھا اور وہ اس کی آبادی کا تناسب بھی تبدیل کر دیں گے۔ مودی سرکار کا یہ اقدام اس کی بین الاقوامی حکمتِ عملی کا ایک حصہ ہے۔ بھارت صرف کشمیر حاصل نہیں کرنا چاہتا، بلکہ افغانستان کے راستے وسطی ایشیا میں داخل ہونا چاہتا ہے۔ مغربی طاقتوں نے چین کا راستہ روکنے کے لیے بھارت کو خطے میں ایک بالا دست ملک کا کردار سونپا ہے۔ بھارت نے یہ اقدام ایک ایسے وقت میں کیا کہ جب پاکستان معاشی طور پر کمزور ہے اور ہم نے ہمیشہ کی طرح اس موقعے پر بھی دفاعی حکمتِ عملی اپنائی۔ اگرچہ اس وقت وادی کے 90فیصد سے زاید افراد پاکستان کے حامی ہیں، لیکن اس کے باوجود پاکستان کا لہجہ معذرت خواہانہ ہے۔ یہ لوگ پاکستان کی طرف مدد کے لیے دیکھ رہے ہیں۔ مودی ایک ضدی وزیر اعظم ہیں اور ان کے خلاف جارحانہ رویہ اپنانا چاہیے۔ پاکستان اس سے پہلے بھی کئی غلطیاں کر چکا ہے۔ پہلی غلطی کشمیر میں قبائلیوں کا جانا تھا۔ پھر افغان جنگ کے بعد مقبوضہ کشمیر میں عسکریت پسندی کو بڑھاوا دے کر ایک اور بڑی غلطی کی گئی۔ اس کی وجہ سے بین الاقوامی سطح پر کشمیر کے معاملے پر ہمیں شکست ہوئی۔ پھر کارگل میں مہم جوئی کی گئی، جس میں ہزاروں پاکستانی فوجی شہید ہوئے۔ پاکستان کو مقبوضہ کشمیر میں پر تشدد واقعات کو ہوا دینے سے گریز کرنا چاہیے۔ اگر کشمیریوں کو آزادی دلانا پاکستان کے بس میں نہیں ہے، تو ہمیں ان پر حقیقت واضح کر دینی چاہیے ۔ اس وقت ہر کشمیری آزادی کا خواہاں ہے اور اس مقصد کے لیے ریاستِ پاکستان کی طرف دیکھ رہا ہے۔ ان کا ماننا ہے کہ اگر ابھی نہیں، تو پھر کبھی نہیں۔ اس وقت مقبوضہ کشمیر میں ہماری پوزیشن وہی ہے، جو مشرقی پاکستان میں بھارت کی تھی۔ کشمیری عوام ہمارے ساتھ ہیں اور یہ ہمارے پاس کشمیر کو آزاد کروانے کا نادر موقع ہے۔ اگر پاکستان اس وقت خاموش رہتا ہے، تو اسے بہت بھاری قیمت ادا کرنا پڑے گی۔ ہمیں مودی کو بہ زورِ طاقت روکنا ہو گا۔ اس وقت امریکا سمیت کوئی بھی مغربی ملک پاکستان کے ساتھ نہیں ہے۔ وہ بھارت کو ناراض نہیں کرنا چاہتے۔ حتیٰ کہ بھارت کو امریکا اور اسرائیل کے ساتھ سعودی عرب کی بھی اشیر باد حاصل ہے۔

جنگ :بھارتی حکومت نے اتنا بڑا قدم کیوں اٹھایا؟ اس کے نتائج کیا ہوں گے اور اس وقت پاکستان کے پاس کیا آپشنز ہیں؟

شاہد امین :بھارتی حکومت کے اس فیصلے نے پاکستانی قوم اور کشمیریوں کے جذبات کو بھڑکا دیا ہے۔ بھارت کا یہ فیصلہ نہ صرف غیر آئینی بلکہ آمرانہ و جارحانہ بھی ہے۔ مستقبل میں پاکستان اور بھارت کے درمیان کشیدگی میں مزید اضافہ ہو گا اور حالات خوف ناک حد تک خراب ہو سکتے ہیں۔ تاہم، میرا یہ ماننا ہے کہ جنگ و امن کے فیصلے ٹھنڈے دل و دماغ سے کیے جاتے ہیں۔ جذبات کی رو میں بہہ کر یہ کہنا بہت آسان ہے کہ بھارت پر چڑھائی کر دو، جب کہ حقیقتاً یہ انتہائی قدم اٹھانے سے پہلے کئی عوامل پر غور و خوض کرنا پڑتا ہے، جن میں فوجی طاقت اور عالمی رائے عامہ کا تجزیہ بھی شامل ہے۔ کشمیر پر ہونے والے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں جو کچھ ہوا، وہ بھی ہمارے سامنے ہے، حالاں کہ ہمیں مثالی اتحاد کا مظاہرہ کرنا چاہیے تھا۔ اگر اقتصادی صورتِ حال دیکھی جائے، تو کیا پاکستان کسی جنگ کا متحمل ہو سکتا ہے۔ اگر جنگ ہو بھی جاتی ہے، تو کون سا ملک ہمارا ساتھ دے گا۔ اگر ہم چین سے توقع کر رہے ہیں، تو وہ بھی شاید صبر و تحمل کا مشورہ دے گا۔ ہمارا سب سے بڑا قومی مفاد پاکستان کی بقا اور سالمیت ہے۔ ہمیں جذبات پر قابو رکھتے ہوئے حالات کا جائزہ لینا ہو گا۔ اگرچہ بھارت کا کہنا ہے کہ اب مسئلہ کشمیر حل ہو گیا ہے، لیکن حقیقت اس کے برعکس ہے۔ کشمیریوں کی جدوجہدِ ازادی میں وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ تیزی آ رہی ہے اور مودی سرکار کے اس ظالمانہ فیصلے کے بعد بھارت نواز حلقے میں بھارت کے خلاف ہو گئے ہیں۔ یعنی سارے کشمیری ہی بھارت کے خلاف ہو گئے ہیں۔ جب کرفیو ہٹے گا، تو کشمیریوں کا شدید ردِ عمل سامنے آئے گا۔ ہم وقتاً فوقتاً اقوامِ متحدہ سمیت مختلف بین الاقوامی پلیٹ فورمز پر مسئلہ کشمیر کو اٹھاتے رہتے ہیں، لیکن درحقیقت یہ معاملہ سرد خانے کی نذر ہے۔ اقوامِ عالم ہمیں صرف ہری جھنڈی دکھا دیتی ہیں اور عملی طور پر کچھ نہیں کرتیں۔ اگرچہ اس واقعے پر مختلف ممالک کی جانب سے ردِ عمل سامنے آیا ہے، لیکن انہوں نے وزیرِ خارجہ کے فون کرنے پر ردِ عمل ظاہر کیا۔

جنگ :اقوامِ متحدہ کی جانب سے اظہارِ تشویش کی کتنی اہمیت ہے؟

شاہد امین:کچھ نہ ہونے سے کچھ ہونا بہتر ہے۔ میں سفیر کی حیثیت سے خدمات انجام دے چکا ہوں۔ مجھے معلوم ہے کہ پاکستان نے کئی بار یہ کوشش کی کہ ملائیشیا، انڈونیشیا اور برونائی دارالسّلام مسئلہ کشمیر پر کوئی بیان جاری کر دیں، لیکن انہوں نے کبھی ایک لفظ تک نہیں کیا۔ حتیٰ کہ ایک مرتبہ تو انڈونیشیا اور ملائیشیا نے مشترکہ طور پر یہ کوشش کی کہ او آئی سی میں مسئلہ کشمیر پر بحث ہی نہ ہو۔ اس اعتبار سے ملائیشین وزیرِ اعظم، مہاتیر محمد کا پاکستان کے حق میں بیان اس حکومت کی کامیابی ہے۔ بھارتی حکومت کے غیر آئینی اقدام کے بعد مسئلہ کشمیر دنیا کی توجہ کا مرکز بن چکا ہے۔ اب جہاں تک امریکا، بھارت گٹھ جوڑ کی بات ہے، تو پاکستان ہمیشہ سے ثالثی اور مذاکرات پر آمادہ رہا ہے، جب کہ بھارت کشمیر کو دو طرفہ مسئلہ قرار دیتا ہے۔ لہٰذا، ٹرمپ کی جانب سے ثالثی کا بیان ایک مثبت پیش رفت ہے اور اسے امریکا، بھارت گٹھ جوڑ قرار دینا غیر منطقی بات ہے۔ اس صورتِ حال میں قومی سلامتی کائونسل کی جانب سے بڑے مناسب فیصلے کیے گئے ہیں، لیکن اگر بھارت کے لیے پاکستانی فضائی حدود کو بھی بند کر دیا جاتا، تو یہ زیادہ بہتر ہوتا۔ اقوامِ متحدہ میں یہ معاملہ لے کر جانے فائدہ یہ ہوا کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان پائی جانے والی کشیدگی کسی بھی وقت فوجی تصادم کی شکل اختیار کر سکتی ہے اور عالمی برادری دو جوہری طاقتوں کے درمیان جنگ نہیں چاہتی، کیوں کہ اس سے ان کے اپنے مفادات پر ضرب پڑے گی۔ ہو سکتا ہے کہ انڈین سپریم کورٹ بھارتی حکومت کے اس فیصلے کو کالعدم قرار دے دے، کیوں کہ ایسا ہو ہی نہیں سکتا کہ ایک دم کسی ریاست کو ختم کر دیا جائے۔ بلاشبہ یہ ایک خطرناک صورتِ حال ہے اور حالات تیزی سے بگڑ رہے ہیں، مگر یہ بات واضح ہے کہ جنگ مسئلے کا حل نہیں۔ اگر دونوں ممالک کے درمیان جنگ چھڑتی ہے، تو یہ بڑھتے بڑھتے جوہری جنگ کی اختیار کر لے گی اور دونوں ممالک تباہ ہو جائیں گے۔ ہمیں سفارتی محاذ پر زیادہ فعالیت کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔

جنگ:کیا پاکستان اور بھارت کے درمیان سفارتی تعلقات قائم ہیں؟

شاہد امین :سفارتی تعلقات روابط کا ایک ذریعہ ہوتے ہیں اور اس سے آپ مثبت و منفی پیغامات بھیجتے ہیں۔ بھارتی ہائی کمشنر کو واپس بھیجنا اچھا فیصلہ ہے، لیکن ہمیں بات چیت کا سلسلہ برقرار رکھنے چاہئیں۔

طالب علم :شملہ معاہدہ ہوئے کم و بیش 57برس گزر چکے ہیں، لیکن ہم بھارت کو مذاکرات پر آمادہ نہیں کر سکے اور نہ ہی ہم بھارت پر فتح حاصل کر سکتے ہیں۔ اس وقت بھارت نواز کشمیری سیاست دان بھی بھارت کے خلاف ہو چکے ہیں، تو کیا اس موقعے پر ہمیں مقبوضہ کشمیر میں موجود مجاہدین کے ہاتھ مضبوط نہیں کرنے چاہئیں؟

شاہد امین :چرچل نے کہا تھا کہ بات چیت کا راستہ جنگ سے زیادہ بہتر ہے۔ اگرچہ ابھی تک پاکستان اور بھارت کے درمیان مذاکرات کامیاب نہیں ہوئے، لیکن یہی مناسب راستہ ہے۔ ہمیں امید قائم رکھنی چاہیے۔ کئی شدید عالمی تنازعات بات چیت ہی کے ذریعے ختم ہوئے، جن کے بارے میں توقع بھی نہیں کی جا رہی تھی۔ دیوارِ برلن سفارت کاری ذریعے ختم ہوئی۔ اس وقت کشمیریوں کی جدوجہدِ آزادی اور قربانیاں پاکستان کے حق میں ہیں۔ ہمیں امید کا دامن نہیں چھوڑنا چاہیے اور انشاء اللہ جلد یا بدیر مذاکرات ہی سے مسئلہ کشمیر کا حل نکل آئے گا۔

سردار اشرف خان :یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا مذاکرات سے، چاہے وہ دو طرفہ ہوں یا کثیر الملکی، مقبوضہ کشمیر کی صورتِ حال پر کوئی فرق پڑے گا۔ اب تک کم و بیش ایک لاکھ کشمیری باشندے شہید ہو چکے ہیں، جب کہ 8سے 9لاکھ کشمیری پر تشدد واقعات سے متاثر ہوئے ۔ اگر پاکستان صرف اپنی فیس سیونگ کے لیے یہ دعویٰ کرتا ہے کہ ہم نے ٹرمپ کو ثالثی پر آمادہ کر لیا ہے، تو یہ کوئی اہم بات نہیں۔ ٹرمپ ایک نسل پرست رہنما ہیں اور یہ بھی یاد رہے کہ امریکا کی ثالثی کے نتیجے ہی میں گولان کی پہاڑیاں اسرائیل کے پاس چلی گئیں اور یروشلم اسرائیل کا دارالحکومت بنا، جہاں امریکا کا سفارت خانہ قائم ہے۔ ہمیں 1948ء میں کشمیر آزاد کروانے کا موقع ملا تھا۔ اس وقت بھارت خود اقوامِ متحدہ گیا اور اس نے کشمیر میں ریفرنڈم کروانے کا وعدہ کیا اور پھر اس سے مکر گیا۔ بھارتیوں کو کشمیریوں سے نہیں، بلکہ زمین سے غرض ہے۔ بھارت کشمیریوں کی نسل کشی کرنا چاہتا ہے، جب کہ ہم مذاکرات کی بات کر رہے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ ہم نے افغانستان میں 70ہزار افراد لڑنے کے لیے بھیجے۔ پاکستان کو ترسیلاتِ زر کی مد میں سالانہ 20ارب ڈالرز ملتے ہیں اور ان میں سے 4ارب ڈالرز کشمیری بھیجتے ہیں۔ اب جہاں تک سفارت کاری کی بات ہے، تو کشیدگی بڑھانا اور ملٹری اپ گریڈیشن بھی سفارت کاری کا ایک حصہ ہوتی ہے۔ دنیا میں جنگیں اچانک ہی ہوئیں۔ دوسری عالمگیر جنگ بھی اچانک ہوئی تھی۔ ہمیں کہیں تو یہ ثابت کرنا پڑے گا کہ پاکستان ایک ریاست ہے۔ آخر اتنی فوج رکھنے کا مقصد کیا ہے۔ اگر ہم کشمیریوں کی مدد نہیں کر سکتے، تو پھر انہیں واضح طور پر بتا دیں کہ وہ اپنی آزادی کی جدوجہد خود کریں۔ ہم نے آج تک کشمیر کاز کے لیے کیا کیا ، جب کہ بھارت نے ابھی آرٹیکل 370کی تنسیخ کی ہے۔

صدف شبیر :اقوامِ متحدہ قبرص کا مسئلہ حل کرنے کے لیے مداخلت کر رہی ہے، تو کیا مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے بھی مداخلت نہیں کرنی چاہیے؟

شاہد امین: قبرص کی صورتِ حال کو مقبوضہ کشمیر سے نہیں جوڑا جا سکتا۔ اگرچہ اس سلسلے میں ہماری سفارت کاری کی بھی ناکامی ہے، لیکن بھارت کو اپنے رقبے اور آبادی کی وجہ سے پاکستان پر فوقیت حاصل ہے۔ پھر وہ ایک بڑی اقتصادی، سیاسی اور فوجی طاقت ہے۔ ہر ملک اپنے قومی مفاد کو دیکھتے ہوئے پالیسی بناتا ہے۔ چوں کہ میں کئی اسلامی ممالک میں تعینات رہا ہوں، تو مجھے معلوم ہے کہ وہ پاکستان سے ہمدردی رکھتے ہیں اور کشمیریوں کا درد بھی محسوس کرتے ہیں، لیکن وہ ایسی خارجہ پالیسی نہیں بنانا چاہتے کہ جس سے بھارت ناراض ہو، کیوں کہ یہ ان کے قومی مفاد کے خلاف ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان ممالک نے بھارت کے خلاف ایک لفظ تک نہیں کہا۔ دوسری جانب دنیا کے کسی ملک نے بھارت کی حمایت بھی نہیں کی اور کوئی اس بات کا ذکر نہیں کرتا۔ البتہ بھارت کو اپنی پالیسی بدلنی چاہیے اور اقوامِ متحدہ کو مسئلہ کشمیر پر سنجیدگی کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔

سردار اشرف خان :مودی سرکار نے اپنے اس فیصلے کے ذریعے بھارت کے منتشر ہونے کا بیج بو دیا ہے اور بھارتی حکومت کے اس اقدام پر بھارتی سیکولرز اور لبرلز نے جتنی سخت تقاریر کی ہیں، ایسی پاکستان میں بھی شاید کسی نے نہ کی ہوں۔ بھارتی پنجاب کے وزیرِ اعلیٰ نے بھی اس فیصلے پر ناراضی کا اظہار کیا ہے اور باقی ریاستیں بھی اس پر خوش نہیں۔ اب جہاں تک بھارتی سپریم کورٹ کی بات ہے، تو مودی نے اسے منقسم کر دیا ہے۔ لہٰذا، اگر وہ فیصلے کو کالعدم قرار دے گی، تو یہ حیرانی کی بات ہو گی۔ وہ ابھی تک بابری مسجد کا فیصلہ نہیں کر سکی، تو کشمیر تو کہیں بڑا مسئلہ ہے۔

سید یاسین عالم: 2003ء میں سلامتی کائونسل کے پانچوں ارکان کی جانب سے ویٹو کیے جانے کے باوجود امریکا نے عراق پر حملہ کیا۔ پھر روس نے کریمیا پر چڑھائی کر دی اور اس سے پہلے کیوبن میزائل کا واقعہ پیش آیا، تو ایسے میں ثالثی، مذاکرات اور اقوامِ متحدہ کی قرار دادوں کی کیا اہمیت رہ جاتی ہے؟

شاہد امین :دنیا کے بہت سے تنازعات مذاکرات کے ذریعے حل ہوئے ہیں، جن میں کوریائی جنگ، ویت نام کی جنگ، جنوبی افریقا میں تبدیلیٔ اقتدار اور افغانستان سے سوویت یونین کا انخلا قابلِ ذکر ہیں۔ بلاشبہ بات چیت کا مرحلہ بڑا صبر آزما ہوتا ہے، لیکن یہ جنگ سے بہتر ہوتا ہے۔ اسی طرح اگر امریکا دونوں ممالک کے درمیان مصالحت کروانے کی کوشش کرتا ہے اور اس دوران جب ہمارے مفادات پر ضرب پڑے گی، تو ہم مصالحتی عمل سے الگ ہو سکتے ہیں۔

نوشین وصی :مذاکرات کے لیے بھی مقاصد کی ضرورت ہوتی ہے۔ ہم نے اب تک مسئلہ کشمیر کے حوالے سے کوئی جامع پالیسی ہی نہیں بنائی، بلکہ وہاں رونما ہونے والی تبدیلیوں پر رد عمل ظاہر کیا۔ لیاقت، نہرو ملاقات میں تمام آپشنز پر بات کی گئی تھی۔ لہٰذا، یہ کہا جاتا ہے کہ جب لیاقت، نہرو مذاکرات نتیجہ خیز ثابت نہیں ہو سکے، تو باقی بھی نہیں ہوں گے۔ ہمیں مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے کوئی فارمولا تلاش کرنا چاہیے۔ ایک معقول حل یہ پیش کیا جا رہا ہے کہ لائن آف کنٹرول کو بین الاقوامی سرحد میں تبدیل کر دیا جائے۔ اصل مسئلہ وادیٔ کشمیر میں ہے۔ پرویز مشرف نے ایک آئوٹ آف دی باکس حل دیتے ہوئے کہا تھا کہ وادی کو خود مختار حیثیت دے دی جائے یا اسے کچھ عرصے کے لیے یو این ٹرسٹی شپ کائونسل میں دے دیا جائے یا اسے پاکستان اور بھارت دونوں کے لیے کھول دیا جائے۔ مودی نے ایل او سی کو بین الاقوامی سرحد بنا دیا ہے اور اب پاکستان کو سفارتی محاذ پر پیش رفت کرنی چاہیے۔ اگرچہ اس موقعے پر پارلیمنٹ نے معقولیت کا مظاہرہ نہیں کیا، لیکن ہو سکتا ہے کہ این ایس سی کوئی معقول فیصلے کرے۔ سب سے پہلے تو ہمیں کشمیر سے متعلق ایک جامع اور پائیدار پالیسی بنانی چاہیے اور اس کے بعد مذاکرات کی طرف جانا چاہیے۔ اس موقعے پر ہمارا ایٹمی طاقت ہونا بھارت پر اس حد تک دبائو ڈالے گا کہ وہ جنگ کو ہوا نہیں دے گا۔ ہمیں ایل او سی کو بین الاقوامی سرحد میں بدلنا چاہیے اور عالمی برادری کو یہ باور کروانا چاہیے کہ جب تک مقبوضہ وادی میں امن قائم نہیں ہو گا، مسائل حل نہیں ہوں گے اور اس مقصد کے لیے ہمیں سب سے پہلے اپنے اہداف کا تعین کرنا ہو گا۔

فلک ناز :اگر امریکا اس معاملے میں مداخلت نہیں کرتا، تو کیا امریکا اور طالبان کے مذاکرات بھی متاثر ہو سکتے ہیں؟

شاہد امین :گزشتہ دس برس کے دوران پاک، امریکا تعلقات اس لیے خراب ہوئے کہ امریکا، پاکستان پر افغان طالبان اور دیگر شدت پسند عناصر کی پشت پناہی کا الزام عاید کرتا تھا۔ جب ٹرمپ نے افغانستان سے افواج نکالنے کا فیصلہ کیا، تو کسی فیس سیونگ فارمولے کے لیے انہیں پاکستان کی ضرورت محسوس ہوئی، کیوں کہ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ پاکستان ہی طالبان کو مذاکرات کی میز پر لا سکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حالیہ عرصے میں پاک، امریکا تعلقات میں کچھ بہتری آئی ہے۔ اگر امریکا، طالبان مذاکرات کامیاب ہو جاتے ہیں، تو پاک، امریکا تعلقات میں مزید بہتری آئے گی۔ لہٰذا، اگر پاکستان امریکا، طالبان مذاکرات میں مدد کو مسئلہ کشمیر میں امریکی ثالثی سے مشروط کرتا ہے، تو پھر دونوں ممالک کے تعلقات کشیدہ ہو جائیں گے۔

سردار اشرف خان :امریکا کی افغان پالیسی ناکام ہو چکی ہے۔ امریکا، طالبان مذاکرات سے امریکا سے زیادہ پاکستان کا فائدہ ہے، لیکن اگر پاکستان، افغانستان میں عسکریت پسندوں کو استعمال کرے گا، تو یہ پاکستان کے لیے تباہ کن ہو گا۔

نوشین وصی :ہمیں امریکا، طالبان مذاکرات کو کسی معاملے سے مشروط نہیں کرنا چاہیے اور ہم اپنی مغربی سرحدوں پر مثبت انداز سے جتنے فواید حاصل کر سکتے ہیں، کرنے چاہئیں۔

ظفر اللہ :جب مودی اپنی انتخابی مہم کے دوران آرٹیکلز 370اور 35اے منسوخ کرنے کا اعلان کر رہے تھے، تو اس وقت پاکستان نے عملی اقدامات کیوں نہیں کیے یا کہیں اس بھارتی اقدام کا انتظار تو نہیں کیا جا رہا تھا؟

شاہد امین :بھارت ہماری مزاحمت کے باوجود بھی یہ قدم ضرور اٹھاتا۔ اس وقت مودی سرکار اپنی من مانی کر رہی ہے۔

سردار اشرف خان :پاکستان نے ہمیشہ ہی دفاعی اور معذرت خواہانہ رویہ اپنایا ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم نے ابھی تک اپنے مقاصد کا تعین ہی نہیں کیا۔ پھر اس معاملے میں ہماری پارلیمنٹ بھی بے اختیار ہے۔

نوشین وصی:کسی بھی فیصلے کے لیے ٹائمنگ بڑی اہمیت رکھتی ہے اور بھارت نے اس وقت کا انتخاب اس لیے کیا کہ پاکستان معاشی طور پر بہت کمزور ہے اور ملک میں تقسیم بھی پائی جاتی ہے۔

ریشا: کیا کشمیر میں جنگ سے پاکستان کو نقصان نہیں ہو گا؟

سردار اشرف خان :پاکستان کو عسکریت پسندوں کو مقبوضہ کشمیر میں استعمال نہیں کرنا چاہیے۔ اس وقت دنیا میں ایران سے زیادہ الگ تھلگ شاید ہی کوئی ملک ہو، لیکن اس نے شام میں مداخلت کی۔ لبنان جیسے کمزور ملک نے اسرائیل کی ناک میں دم کر رکھا ہے۔

شاہد امین :جہادی سرگرمیوں کی وجہ سے کشمیر کاز کو نقصان پہنچا اور اس سے بھارت نے فائدہ اٹھایا۔ ہمیں مستقبل میں بھی مقبوضہ کشمیر میں عسکریت پسندوں کو استعمال نہیں کرنا چاہیے۔

کامران ملک :اگر پاکستان میں جمہوریت نہیں، تو کیا کشمیریوں کے لیے بھارت کے ساتھ رہنا زیادہ بہتر نہیں؟

سردار اشرف خان :بھارت کا بھی یہی مؤقف ہے کہ پاکستان اپنے شہریوں کو تو حقوق دیتا نہیں اور کشمیریوں کے حقوق کے لیے لڑنے کی بات کرتا ہے۔ جیسا کہ قائدِ اعظم محمد علی جناح نے کشمیر کو پاکستان کی شہ رگ قرار دیا تھا، تو اگر ہم نے بھارت کو نہ روکا، تو پنجاب ویران ہو جائے گا۔ بھارت پاکستان کا پانی روکنے کے لیے بہت سنجیدہ ہے۔ مودی کے اس اقدام سے دونوں ممالک کے درمیان ہونے والے سارے معاہدے کالعدم ہو گئے ہیں۔ کشمیری عوام بھارت کے ساتھ نہیں رہنا چاہتے اور ہمیں ان کی مدد کرنی چاہیے۔ ہمیں امریکا اور چین کی طرف دیکھنے کے بہ جائے اپنے مفادات کو مقدم رکھنا چاہیے۔

محمد عمران اکرم :اس واقعے کے بعد سید علی گیلانی نے عالمِ اسلام سے مدد کی درخواست کی ہے، تو اس سلسلے میں او آئی سی اور اسلامی فوجی اتحاد کیا کردار ادا کر سکتا ہے؟

شاہد امین :میں او آئی سی میں بھی پاکستان کا سفیر رہا ہوں۔ یہ اسلامی ممالک کی واحد سیاسی نمایندہ ہے اور اس میں کمزوریاں اسلامی ممالک کے رہنمائوں کی وجہ سے پائی جاتی ہیں۔ او آئی سی اس وقت تک کوئی قدم نہیں اٹھا سکتی کہ جب تک اسے رکن ممالک کی حمایت حاصل نہ ہو۔ اس وقت اسلامی ممالک کے درمیان اتحاد کی ضرورت ہے، جب کہ اس کے برعکس عرب ممالک کے درمیان کشیدگی پائی جاتی ہے۔ سعودی عرب اور ایران ایک دوسرے کے خلاف ہیں۔ وسطی ایشیا کے اسلامی ممالک خود میں مگن ہیں۔

ہبہ آصف :کیا طالبان کے ساتھ مذاکرات کے بدلے امریکا، پاکستان کی مدد کر سکتا ہے؟

سردار اشرف خان :چاہے امریکا پاکستان کی مدد کرے یا نہ کرے، ہمیں اس سے تعلقات قائم رکھنے چاہئیں۔ افغانستان میں کشیدگی کی وجہ سے پاکستان کو زیادہ نقصان ہو رہا ہے اور اگر یہ مسئلہ حل ہو گیا، تو سب سے زیادہ فائدہ بھی پاکستان ہی کو ہو گا۔

عرفان جاموٹ :ہم ہمیشہ سے امریکا کے اتحادی رہے ہیں، لیکن ہم اس سے وہ رعایتیں حاصل نہیں کر سکے، جن کے ہم مستحق تھے؟

شاہد امین :امریکا سے اتحاد کرنا ہماری مجبوری تھی۔ قیامِ پاکستان کے وقت بھارت سے جنگ کی صورت میں ہم اپنا دفاع کرنے کے قابل نہیں تھے، لیکن پھر ہمیں امریکا سے اس قدر دفاعی امداد ملی کہ ہم نے 1965ء کی جنگ میں بھارت کی پیش قدمی روک دی۔ اس میں ہمارے فوجی جوانوں کی بہادری کا بھی بڑا کردار ہے۔ ہم نے سوویت یونین کے خلاف لڑائی کے لیے ملنے والے دفاعی ساز و سامان کو بھارت کے خلاف استعمال کیا۔ اسی طرح پاکستان میں 1960ء کی دہائی میں زرعی انقلاب بھی امریکا ہی کی وجہ سے آیا۔ لہٰذا، یہ بات غلط ہے کہ امریکا نے صرف ہم سے فائدہ اٹھایا۔

ارل حسین :کیا کرتار پور راہداری کھولنے سے سفارتی محاذ پر پاکستان کو فائدہ حاصل ہو گا؟

شاہد امین:کرتار پور راہداری کھلنے پر بھارتی پنجاب کے سکھ بہت زیادہ خوش ہیں۔ اگر پاکستان ان کی وفاداری حاصل کرنے میں کامیاب ہو جاتا ہے، تو یہ پاکستانی کی تزویراتی کامیابی ہو گی۔ یہ سلسلہ جاری رہنا چاہیے۔

صبا عنایت :کیا کشمیری عوام کی پاکستان سے محبت سے ایسا محسوس نہیں ہوتا ہے کہ وہ پاکستان سے الحاق چاہتے ہیں؟ نیز، مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں روکنے کے لیے پاکستان کو کیا اقدامات کرنے چاہئیں؟

سردار اشرف خان :آپ کی بات بالکل درست ہے، لیکن پاکستانی حکومت مقبوضہ کشمیر میں ہونے والی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کو عالمی برادری کے سامنے اجاگر نہیں کر سکی۔ اس سے تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ پاکستان کو کشمیریوں سے کوئی جذباتی لگائو نہیں۔ مقبوضہ کشمیر میں عسکریت پسندوں کی کارروائیوں کی وجہ سے بھارت نے کشمیریوں کی جدوجہدِ آزادی کو انتہا پسندی اور دہشت گردی سے جوڑ دیا اور ہم اسے کیش نہیں کروا سکے۔ ہمیں عسکریت پسندوں کو فوج میں شامل کرنا چاہیے، ورنہ یہ ملک کے لیے خطرہ بن جائیں گے۔