تبدیلی کا دعویٰ کرنیوالی حکومت ایک سال میں اپنی منزل کا تعین بھی نہ کرسکی

September 12, 2019

میرؔ نے عرصہ پہلے شاید آج کی بات کی ہو کہ

میرؔ کتنے سادہ ہیں کہ بیمار ہوئے جس کے سبب

اسی عطار کے لونڈے سے دوا لیتے ہیں

ہم سادہ لوح اور اپنے حالات کے مارے ہوئے لوگ بار بار اپنی وعدہ فراموشی ، بے حسی اور مفاد پرستی کا شکار اشرافیہ کے دروازے اور دربار پر حاضری دیتے ہیں۔میری طرح کروڑوں سفید پوش عوام کی حسرت ہے کہ کبھی یہ ارکان پارلیمینٹ عوام کو مہنگائی سے بچانے، ٹیکسوں کے بوجھ سے نجات دلانے اور اربوں، کھربوں کی کرپشن سے بچانے کےلئے اسی طرح شیروشکر ہو جائیں جس طرح وہ اپنے مفادات کو حاصل کرنے کےلئے اسمبلیوں میںیک جان ہوتے ہیں۔ وہ اسی طرح دوستی اور مفاہمت کا ثبوت دے کر صحیح معنوں میں عوام دوست ہونے کا ثبوت دیں جب سے اسمبلیاں وجود میں آئی ہیں تب سے عوام یہ خواب دیکھتے چلے آ رہے ہیں دراصل سیاست میں یار لوگوں نے اپنے مفادات ہی کو سب سے اہم قرار دے رکھا ہے۔ اقتدار کےلئے ہر کام کرنے کو تیار رہتے ہیں یہ لوگ عوام کے غم میں ’’ڈنر‘‘ اڑاتے ہوئے شرم محسوس نہیں کرتے اور نہ ہی جھوٹے وعدے کرتے ہوئے کچھ سوچتے ہیں۔ کیوں کہ یہ اقتدار کی دیوی کی زلفوں کے کچھ اس طرح اسیر ہوتے ہیں کہ عوام کی التجائیں، سسکیاںاور چیخیں ان پر اثر اندز نہیں ہوتی ہیں۔ایسے حالات کے بارے میں میر تتقی میر نے کیا خوب کہا تھا ۔

ہم ہوئے تم ہوئے کہ میرؔ ہوئے

سب اسی کی زلف کے اسیر ہوئے

حالات کی ستم ظریفی کہ تبدیل ہوتے ہوئے ماحول میں عوام مہنگائی، بیروزگاری اور امن وامان کی خراب صورتحال ہی میں زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ طفل تسلیاں دے کرجان چھڑائی جا رہی ہے کیونکہ ’’اشرافیہ‘‘ کو معلوم ہے کچھ دیر دہائی دینے چیخیں مارنے اور رونے دہونے کے بعد یہ عوام صبر وشکر کرکے خاموشی کی چادر اوڑھ لیں گے۔ نئے ٹیکس براہ راست لگا کر عوام پر مالی بوچھ میں اضافہ کیا جا رہا ہے کتنا جائز اور ناجائز بوجھ ڈالا جا رہا ہے اس کی کسی کو کوئی پرواہ نہیں ہے۔ قومی خزانے کی جھولی میں ہونے والے چھید بند نہیں کئے جاتے اسے بھرنے کےلئے عوام کا خون نچوڑا جا رہا ہے اور اپنی سیاست کو چمکایا جا رہا ہے۔مگر ایسا ممکن نہیں ہے۔

آج میرے ذہن میں کئی ایسے سوالات ہیں جن کو میں قارئین کے ساتھ شیئر کرنا ضروری سمجھتا ہوں میں پچھلے دنوں حج کی سعادت کے سلسلے میں سعودی عرب میں تھا وہاں پر قانون کی عملداری کا جو تجربہ ہوا اس میں سیکھنے کےلئے بہت کچھ ہے۔ ٹریفک قوانین کو ہی لے لیجئے ان پر عملدرآمد اتنا موثر ہے کہ بہت کم کوئی ٹریفک کی خلاف ورزی کرتا ہے اور جو ایسا کرتا ہے اس کےلئے اتنا بھاری جرمانہ ہے کہ دوبارہ ایسا کرنے کی کسی کو جرات نہیں ہوتی۔امن وامان کی مجموعی صورتحال تسلی بخش ہی نہیں قابل رشک ہے۔ اگر وہاں پر ایسا ہو سکتا ہےتو پھر وطن عزیز میں ایسا کیوں نہیں ہو سکتا ۔وطن عزیز میں قانون پر عملدرآمد کا یہ عالم ہے کہ کبھی کوئی پولیس حراست میں جان گنوا بیٹھتا ہے کبھی کوئی قانون کی تاویلیں کرنے والا قانون پر عملدرآمد کروانے کے ذمہ دار ان پر تشدد کرتا ہے مگر کسی کے خلاف کوئی موثر کارروائی نہیں ہوتی۔تبدیلی سرکار سے بڑی امیدیں تھیں مگر بدقسمتی سے مایوسی اور اندھیرے بڑھتے جا رہے ہیں۔ تبدیلی سرکار کو اب ہر صورت میں ہر محکمے کے لئے ٹارگٹس کا تعین کر لینا چاہئے بصورت دیگر ان کا بھی نام نہ ہو گا داستانوں میں،اس کی وجہ یہ ہے کہ ہمارے ہاں سیاسی اور سماجی اقدار بہت کمزور ہیں سماجی اقدار کو بہتر کرنے کےلئے ضروری ہے کہ سیاسی منازل کا درست تعین کر لیا جائے مگر تبدیلی سرکاری اپنے ایک سال سے زائد کے دور میں کسی بھی شعبہ میں منزل کا تعین نہیں کر سکی اور ابھی تک یہی طے کیا جا رہا ہے کہ کسی کو اقتدار میں اپنا اہم کردار ادا کرتے رہنا ہے اور کسی کو ہٹا دیا جانا ہے اس بے یقینی کی صورتحال میں سیاسی موہرے اور بیوروکریسی کوئی قابل ذکر کارکردگی نہیں دکھا پا رہے ۔بیورو کریسی احتساب کی تلوار کا بہانہ کرکے ہاتھ پر ہاتھ دہرے بیٹھی ہے۔ سیاسی قیادت اپنی ناتجربہ کاری کے باعث مکار بیوروکریٹس کے سامنے بے بس نظر آتی ہے پنجاب میں ایک سال کے بعد بھی محکموں کے لئے ٹارگٹس کا تعین نہیں کیا جا سکا جس کے باعث گوں مگوں کی صورتحال ہے۔ ایک ایک محکمے میں کئی کئی کنسلٹنٹ کام کر رہے ہیں اور ان کے باہمی اختلافات کے باعث کوئی پالیسی نہیں بن پا رہی ہے جس کے باعث ایک طرف بیوروکریسی بغیر کام کئے اختیارات کے مزے لے رہی ہے تو دوسری طرف عوام بری طرح سے متاثر ہو رہے ہیں۔اس حوالے سے محکمہ تعلیم، پولیس اور محکمہ صحت میں سٹیک ہولڈرز کو اعتماد میں لئے بغیر نئے نئے تجربات کئے جارہے ہیں محکمہ صحت میں صوبائی وزیر صحت ڈاکٹر یاسمین راشد اگرچہ خود پریکٹسنگ ڈاکٹر ہیں مگر بیوروکریسی ان کے پائوں ہی زمین پر نہیں لگنے دے رہی۔سرکاری ہسپتالوں کے لئے خود مختاری کی نئی پالیسی شاید ان اداروں کے لئے بہت ہی بہتر ہو مگر ڈاکٹر ز تنظیموں اور متعلقہ اداروں کے سربراہان سے سیرحاصل مشاورت نہ ہونے کے باعث غلط فہمیاں اور مسائل پیدا ہو رہے ہیں اب اس حوالے سے وضاحتیں پیش کی جا رہی ہیں۔

مسلم لیگ (ن) کی قیادت اب مسائل میں اس قدر الجھ چکی ہے کہ اسے سیاست شاید بھول چکی ہے میاں نواز شریف ، مریم نواز شریف، حمزہ شہباز ، رانا ثناء اللہ ، شاہد خاقان عباسی اور دیگر اہم رہنما پابند سلاسل ہیں۔ میاں شہباز شریف کی صحت کےمسائل ہیں جس کے باعث ان کی سیاسی سرگرمیاں نہ ہونے کے برابر ہیں۔اپوزیشن کو اپنا موثر کردار ادا کرنے کے لئے نچلی سطح سے الزامات سے پاک افراد کو عہدے دے کرتنظیم سازی کرنی چاہئے اور پھر انہیں بااختیار بنانا چاہئے تاکہ آگے چل کر متبادل سیاسی قیادت سامنے آ سکے موجودہ حالات میں تو دور دور تک دونوں بڑے سیاسی خاندانوںکی سیاست کا کوئی مستقبل دکھائی نہیں دیتا۔اگرچہ کوئی معجزہ ہو جائےتو کچھ کہا نہیں جاسکتا۔