اسرائیل اپنی سیاسی تاریخ کے بھنور میں

October 09, 2019

اپریل 2019 میں پہلی بار آئینی مدت کے مطابق اسرائیل میں انتخابات عمل میں آئے مگر ملک کی بڑی جماعتوں نتن یاہو کی لیکڈ پارٹی(Likud Party) اور مقابل امیدوار کی بلیو اینڈ وائٹ پارٹی کو مساوی ووٹ حاصل ہوئے۔ بڑی تگ و دو کے بعد بھی کوئی پارٹی حکومت نہیں بنا سکی۔

اسرائیل کی تاریخ میں تین بار وزیراعظم رہنے والے بنجمن نتن یاہو تک کو پسینے آگے اور معاملہ وہیں کا وہیں رہا۔ آخرکار اسرائیل کے صدر ریولین سے درخواست کی گئی کہ وہ دوسری بار انتخابات کا اعلان کریں۔ لہٰذا گزشتہ ماہ ستمبر میں دوبارہ انتخابات کا انعقاد کیا گیا، مگر حیرت انگیز طور پر دونوں بڑی جماعتوں کو 120 نشستوں کے ایوان میں پھر 34-34 نشستیں حاصل ہوئیں اور کوئی جماعت اکثریت حاصل نہ کر سکی، جبکہ حکومت سازی کے لئے 61 نشستیں حاصل کرنا لازمی ہیں۔

اسرائیل گزشتہ چند برسوں سے بڑے معاشی، سماجی اور سیاسی بحرانوں کا شکارہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ وزیراعظم نتن یاہو پر بدعنوانیوں کےالزامات ہیں۔ اس کے علاوہ اختیارات کے ناجائز استعمال اور گزشتہ برسوں امریکی صدر بارک اوباما سے ایران جوہری معاہدے کے مسئلے پر شدید کشیدگی نے بھی اسرائیل کو نقصان پہنچایا، مگر ایران اور امریکا کا جوہری معاہدہ طے ہوگیا

وزیراعظم نتن یاہو نے اپنے حریف امیدوار بینی گینٹز کو مخلوط حکومت بنانے کی پیش کش کی جس کو مخالف امیدوار نے رد کر دی۔ ان دو بڑی پارٹیوں کے علاوہ اسرائیل میں آٹھ مزید سیاسی اور مذہبی جماعتیں ہیں ان میں صرف چند پارٹیاں چار چار ووٹ حاصل کر کے ایوان میں شامل ہوتی ہیں۔ آئین کے تحت چار نشستوں سے کم والی جماعت ایوان میں نہیں آسکتی۔ نتن یاہو نے کوشش کی کہ چار ووٹوں والی جماعتوں کو ملا کر حکومت بنا لیں مگر ان کی لیکڈ پارٹی کے اراکین اس پر راضی نہیں ہیں۔

اسرائیل گزشتہ چند برسوں سے بڑے معاشی، سماجی اور سیاسی بحرانوں کا شکار چلا آ رہا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ وزیراعظم نتن یاہو پر بدعنوانیوں کے بڑے الزامات ہیں۔ اس کے علاوہ اختیارات کے ناجائز استعمال اور گزشتہ برسوں امریکی صدر بارک اوباما سے ایران جوہری معاہدے کے مسئلے پر شدید کشیدگی نے بھی اسرائیل کو نقصان پہنچایا، مگر ایران اور امریکا کا جوہری معاہدہ طے ہوگیا۔

اس کی وجہ سے نتن یاہو کو سیاسی طور پر بڑا صدمہ برداشت کرنا پڑا تھا۔ یہ وہ عوامل ہیں جس کی وجہ سے وہ حالیہ انتخابات میں سادہ اکثریت بھی حاصل نہیں کر پارہے ہیں۔البتہ نتن یاہو کو ملک کے کٹر مذہبی حلقوں کی حمایت حاصل ہے جو اسرائیلی ریاست کی مزید توسیع چاہتے ہیں اور دو ریاستوں کے فارمولے کو رد کرتے ہیں۔

بلیو ینڈ وائٹ پارٹی کے رہنماء بینی گینٹز نے نتن یاہو کو تجویز پیش کی کہ دونوں جماعتیں اگر مخلوط حکومت تشکیل دیتی ہیں تو دونوں کو متفقہ طور پر موجودہ پالیسی میں بیشتر ترامیم کرنا ہوں گی۔ نئی پالیسی گائیڈ لائن ترتیب دی جائے گی اور وزیراعظم کا عہدہ باری، باری دونوں رہنمائوں کے پاس طے شدہ مدت تک رہے گا،مگر نتن یاہو نے اس تجویز کو رد کر دیا۔

جس کے بعد صدر نے خبردار کیا ہے کہ دونوں جماعتیں جلد فیصلہ کریں ملک میں سیاسی ڈیڈ لاک کی وجہ سے بے چینی، بے یقینی اور مایوسی بڑھ رہی ہے۔ معیشت کمزورسے کمزور تر ہو رہی ہے۔ سیاسی گومگو کی صورتحال کی وجہ سے عسکری حلقوں میں بھی بے یقینی میں اضافہ ہو رہا ہے۔

ایک طرح سے اسرائیل کو موجودہ بحران سے بہت سے خطرات اور خدشات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ صدر نے یہ بھی کہا کہ عین ممکن ہے کہ وہ ملک میں عبوری فوجی حکومت کا اعلان کر دیں جس کی سربراہی وہ خود کریں گے،مگر اسرائیل کے لبرل اور جمہوریت پسند حلقے صدر کی تجویز سے ناخوش ہیں اور وہ اس کی شدت سے مخالفت کررہے ہیں۔

گزشتہ دنوں یروشلم کو اسرائیل کا دارالخلافہ بنانے کے بعد سے ملک کے شدت پسند اور قدامت پسند مذہبی حلقے ملک میں مزید سخت مذہبی پالیسیوں پر، زور دے رہے ہیں۔ اب یوم کیپور جو ستمبر کے آخر اور اکتوبر کے اوائل میں چار تا چھ روزے رکھ کر منایا جاتا ہے اب پہلے سے کہیں زیادہ شدت اور گرم جوشی سے منایا جاتا ہے۔ نتن یاہو بھی ایک دن کا مکمل روزہ رکھتے ہیں۔

اب جبکہ گزشتہ سال بینی گینٹزنے اپنی بلیو اینڈ وائٹ پارٹی قائم کی ہے ملک میں قدرے سیاسی تبدیلی دکھائی دیتی ہے۔ بینی گینٹز 1959 میں اسرائیل میں پیدا ہوئے۔ تل ابیب یونیورسٹی سے سیاسیات میں ایم اے کرنے کے بعد فوج میں کمیشن لے لیا۔ 2011 تا 2018 تک اسرائیلی افواج کے سربراہ سے اور پھر فوج سے سبکدوش ہونے کے بعد اپنی سیاسی جماعت تشکیل دی۔

ان کی جماعت میں لبرل اور جمہوریت پسند اراکین زیادہ ہیں جن میں بیشتر سیکولر ہیں، اس لئے ان کی جماعت نتن یاہو کے خلاف ہے، کیونکہ نتن یاہو کی جماعت میں قدامت پسند اور شدت پسند یہودی مذہبی افراد زیادہ ہیں اور وہ گریٹر یہودی ریاست کے قیام کی جدوجہد میں مصروف ہیں، جس کے لئے وہ عربوں کے مقبوضہ علاقوں کو بھی اسرائیلی ریاست میں ضم کر کے وہاں یہودی بستیاں آباد کر رہے ہیں۔

بلیک اینڈ وائٹ پارٹی نے بھی اعلان کیا ہے کہ فلسطینیوں کو آہنی جالی سے آگے آنے نہیں دیں گے جو کہ ایک طرح سے قید خانہ ہے۔ اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ یہودی خواہ قدامت پسند ہو یا لبرل ہو وہ اندر سے کٹر یہودی اور فلسطین دشمن ہے۔

اسرائیل کی آبادی گزشتہ بارہ برسوں میں 55 لاکھ سے بڑھ کر 90 لاکھ ہوگئی ہے، جبکہ پوری دنیا میںیہ مع اسرائیل کی آبادی یہودیوں کی تعداد ایک کروڑ ستر لاکھ سے کچھ زائد ہے،دنیا کی سیاست، معیشت، سائنس ٹیکنالوجی، ہتھیار سازی اور سماجیات کے شعبوں میں اپنا مکمل سکہ جمائے ہوئے ہے۔

دنیا کے تمام بڑے بینک سرمایہ کار، صنعتی ادارے اور تجارتی ادارے یہودی ماہرین کے مرہون منت ہیں۔ نیویارک اور وال اسٹریٹ یہودیوں کا گڑھ ہے۔ وال اسٹریٹ میں واقع بیشتر ادارے اور دفاتر یہودی قانونی مشیروں، انکم ٹیکس ماہرین، عیار اکاؤنٹینٹس اور بینکاروں سے بھرے ہیں جو روزانہ دنیا کی معیشت میں تلاظم پیدا کرتے رہتے ہیں۔

اسرائیل کی قدامت پسند جماعتوں کی مانند نئی بلیو اینڈ وائٹ جماعت بھی دیگر یہودیوں کی طرح ایران سے شدید خائف رہتی ہے ، اس کی وجہ یہ ہے کہ مشرق وسطیٰ اور مسلم دنیا میں ایران نے اسرائیل کو ہمیشہ کڑی ضرب لگائی ہے اور اب اسرائیل کو ایک طرف ایران کے ممکنہ ایٹمی پروگرام سے خطرہ ہے تو دوسری طرف ایران کے شام، عراق اور لبنان سے شاہراہ تعمیر کرنے کا خدشہ ہے اگر ایسا ہوا تو اسرائیل پوری طرح ایران کے گھیرے میں آ جاتا ہے۔

اس لئے اسرائیل ایران کے ساتھ پراکسی وار کا بہانہ ڈھونڈتا رہتا ہے۔ شام میں تا حال صدر بشار الاسد کی حکومت قائم ہے جو اسرائیل اور اس کے حواریوں کے لئے بہت بڑا سیاسی دھچکا ہے۔ اسرائیل تا حال امریکا پردبائو ڈال رہا ہے کہ ایران کا جوہری پروگرام سرے سے ہی ختم کرا دے، مگر امریکی انتظامیہ اسرائیل کی ایسی کسی خواہش کو پورا کرنے سے قاصر ہے۔ فی الفور اسرائیل کو اپنے سیاسی بحران پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ معلوم نہیں یہ اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا۔