شام میں ترکی کی فوجی کارروائیاں

October 16, 2019

شام میں ایک بار پھر تشویش ناک صورت حال میں اضافہ ہورہا ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ گزشتہ ماہ امریکی صدر نے اشارہ دیا تھا کہ وہ شام سے اپنی فوجوں کو واپس بلا رہے ہیں، انہوں نے یہ دعویٰ بھی کیا کہ اب شام میںداعش کا خاتمہ کردیا ہے اس لئے امریکی فوجی اپنا کام ختم کرچکے ہیں۔ دراصل شام کے شمال مشرقی علاقے میں جس کی سرحد ترکی سے ملتی ہے، اس علاقے کے کردوں کو امریکا نے داعش کے خلاف لڑائی میں امریکی فوجوں کی حمایت کے لئے راضی کیا تھا اور بلاشبہ امریکی امداد اور ہتھیاروں کی فراہمی کے بعد کردوں نے داعش کے خلاف جنگ میں نمایاں کردار ادا کیا ۔

ہزاروں داعش کے جنگجو مارے گئے یا اب شام کی جیلوں میں ہیں۔ کرد علاقے میں واقع جیل اور کیمپوں میں پچاس ہزار سے زائد داعش کے دہشت گرد اور ان کے اہل خانہ قید ہیں۔ اہم بات یہ ہے کہ ان جیلوں اور کیمپوں کی کرد ملیشیا کے جوان حفاظت کرتے ہیں۔اب جبکہ گزشتہ دنوں امریکی فوجیوں کا انخلا عمل میں آیا ترکی کے صدر طیب اردگان نے فوری طور پر شامی کرد علاقوں پر اپنے لڑاکا طیاروں سے بمباری شروع کردی اس کے دو دن بعد بری فوجی اور آرٹلری بھی وہاں روانہ کردی۔

قبل ازیں طیب اردگان امریکا پر واضح کرچکے تھے کہ امریکی فوجیوں کی واپسی کے بعد ترکی شمال مشرق شامی علاقے میں جہاں کرد آبادی زیادہ ہے اس خطے میںچالیس مرلع میل کے علاقے کی صفائی کرکے وہاں ترکی میں پناہ گزین شامی کو آباد کرے گا۔ اس وقت سرکاری اعداد و شمار کے حوالے سے ترکی کے ذرائع بتاتے ہیں کہ ترکی میں 36لاکھ سے زائد شامی مہاجرین موجود ہیں ،جبکہ ان کو خدشہ ہے، اس کے علاوہ لاکھوں شامی ترکی میں غیرقانونی طور پر بھی رہ رہے ہیں۔

دوسری طرف مغربی ممالک ترکی کے اس اقدام کی شدت سے مخالفت کررہے ہیں کہ ترک لڑاکا طیاروں کی بمباری اور توپ خانے کی مسلسل گولہ باری سے مزید لاکھوں کرد اور شامی باشندے نقل مکانی پر مجبور ہوجائیں گے، کیونکہ اس علاقے کے دو بڑے قصبے راس العین اور تل ابیض کے لگ بھگ مکانات بمباری کی نذر ہوچکے ہیں ۔ اس علاقے کی اہم شاہراہ پر ترک فوجوں نے قبضہ کرلیا ہے۔

شامی کردوں کی جنگجو تنظیموں نے ترکی کے حملوں کے خلاف بھرپور مزاحمت کا اعلان کردیا ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ شامی کردوں کی جنگجو تنظیم ’’پیش مرگ ملیشیا‘‘ نے امریکی ہتھیاروں اور امداد کی مدد سے خطے میں داعش کا بھرپور مقابلہ کیا جس کے نتیجے میں داعش کے دہشت گرد پسپا ہوئے بیش تر فرار ہوگئے بہت سے مارے گئے اور پچاس ہزار سے زائد داعش کے دہشت گرد اور ان کے اہل خانہ شامی کردوں کے علاقے کی جیلوں اور کیمپوں میں قید ہیں۔

اس حوالے سے ترکی کو تشویش ہے کہ کردوں کو ملنے والا اسلحہ اب جنوبی ترکی کے سرحدی علاقے میں آباد کردوں کو بھی فائدہ پہنچا سکتا ہے اگر یہ اسلحہ شامی کرد اور ترکی میں آباد کردوں نے استعمال کرنا شروع کیا تو ترکی کو مزید مسائل کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اس لئے گزشتہ ایک ہفتے کے دوران ترکی کے فوجی حملوں میں شدت آتی جارہی ہے ،جس کی وجہ سے یہ خدشہ ہے کہ کردوں کے مزاحمتی گروہ ترک فوجوں سے نبرد آزما ہوتے گئے تو داعش دہشت گرد جن جیلوں اور کیمپوں میں قید ہیں ان کی حفاظت یہی کرد ملیشیا کرتی ہے۔

جاری حالات میں کرد ان جیلوں اور کیمپوں کی حفاظت کے بجائے ترک فوجوں سے مزاحمت کرنے میں مشغول ہوں گے تب ایسے میں داعش کے جنگجو جیلیں اور کیمپ توڑ کر باہر آجائیں گے اور ایک بار پھر اپنی تنظیم کو منظم کرنے کی جدوجہد کریں گے۔

مگر ترکی کردوں کے خلاف جنگ کرکے شامی مہاجرین کا بوجھ اپنے اوپر سے کم کرنا چاہتا ہے، جبکہ مغربی حلقے داعش کی وجہ سے خدشات کا شکار ہورہے ہیں۔ یہ دہشت گرد جاری صورت حال سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ شامی کیمپوں اور جیلوں میں قید داعش کے جنگجو کا تعلق زیادہ تر مسلم ممالک سے ایک سو کے قریب جنگجو یورپی ممالک سے تعلق رکھتے ہیں۔

ان کے بار ےمیں امریکہ نے یورپی ممالک سے کہا ہے کہ ان کو اپنے ملک جیلوں میں رکھے مگر یورپی ممالک ان کو واپس لینا نہیں چاہتے،تاہم وسطی ایشیا کی ریاستوں سے شام جاکر داعش کا حصہ بننے والوں کو ان ممالک نے واپس لے لیا ہے اور وہ اب اپنے ممالک کی جیلوں میں قید ہیں، ان ممالک میں ازبکستان، تاجکستان اور قزاقستان شامل ہیں۔ترک حملوں میں اب تک ایک سو سے زائد شہری ہلاک ہوچکے ہیں اور دو لاکھ افراد کو بے گھر ہونا پڑا ہے۔

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ترکی کو پیغام دیا ہے کہ وہ فوری جنگ بند کرے،ورنہ ترکی کو شدید معاشی پابندیوں سے گزرنا پڑے گا۔ واضح رہے کہ ترکی پر پہلے ہی سے کچھ اقتصادی پابندیاں عائد ہیں، جس کی وجہ سے ترکی کی معیشت بہت کمزور ہوچکی ہے۔

امریکی صدر نے مغربی ملکوں کو بھی اپنی تنقید کا نشانہ بنایا ہے کہ شام میں داعش کے خلاف جنگ کرنے میں جن ملکوں نے اپنا اپنا حصہ ڈالنے کی حامی بھری تھی وہ وعدے انہوں نے تاحال پورے نہیں کئے، جبکہ امریکا شام میں داعش کے خلاف جنگ کرنے کی مہم میں جتنے حصہ کا وعدہ کیا تھا، اس سے زیادہ حصہ ادا کرچکا ہے۔ کرد رہنما کہتے ہیں اسلامی ممالک سے بہت بڑی تعداد شام آکر داعش کی تنظیم کا حصہ بنی ہے، مگر اب اسلامی ممالک بھی خاموش ہیں۔

ترکی کے شہر استنبول میں موجود شامی مہاجرین شدید پریشانیوں اور مصائب سے گزر رہے ہیں۔ شامی مہاجرین کے ذرائع کا کہنا ہے کہ ترک سیکورٹی فورس ان لوگوں پر ظلم کرتی ہے اور ان کا جینا دوبھر کر رکھا ہے، جبکہ استنبول کے سرکاری ذرائع کا کہنا ہے کہ حکام نے ان مہاجرین کو پہلے ایک ماہ کا عرصہ دیا تھا کہ وہ شہر چھوڑ کر چلے جائیں مگر وہ نہیں گئے۔

پانچ لاکھ شامی مہاجرین نے یہاں اندراج کردیا ہے جبکہ اتنی ہی تعداد غیرقانونی طور پر شہر میں رہ رہی ہے ،اگر ان پر سختی کی جاتی ہے تو مشہور کرتے ہیں کہ ترک نسل پرست قوم ہے، اپنے مسلم بھائیوں سے ان کو کوئی ہمدردی نہیں ہے۔ شامی مہاجرین کی تعداد کے بارے میں ذرائع کہتے ہیں یہ پورے ترکی میں 36لاکھ سے زائد ہیں۔ ترکی اب ان کا بوجھ نہیں سہار سکتا۔ ترکی کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوچکا ہے۔

امریکا کے وزیر دفاع مارک ایسپر کا کہنا ہے کہ ،ہم نے ترکی کو خبردار کردیا ہے کہ اگر اس نے یہ لڑائی بند نہ کی تو اس کو سنگین معاشی پابندیوں کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے، جبکہ امریکی ذرائع ابلاغ کا دعویٰ ہے کہ صدر ٹرمپ کے شام سے امریکی فوجوں کی واپسی کے فیصلے نے ترکی کو شام پر حملے کا موقع فراہم کیا ہے۔ دوسرے لفظوں میں امریکیوں کا خدشہ ہے کہ امریکہ نے داعش کے دہشت گردوں کے خلاف جو کارروائیاں کیں، ان کو پسپا ہونا پڑا۔ اب ترکی کی شدت پسندی داعش کو آزادی دلا سکتی ہے اور پھر ایک بار یہ خطہ جہنم بن سکتا ہے۔

دوسرے زاویہ نگاہ سے دیکھا جائے تو اس میں امریکا کی بھی پرانی دو عملی پالیسی واضح نظر آتی ہے۔ امریکا نے کردوں کی مجبوری کا فائدہ اٹھاتے ہوئے انہیں اسلحہ دے کر داعش اور صدر اسد کی حامی فوجوں کے خلاف استعمال کیا، جب کام پورا ہوا تو اس نے ترکی کو گرین سگنل دے دیا، گویا امریکا ہمیشہ اپنے دونوں ہاتھوں میں لڈو رکھنا چاہتا ہے۔ عراق میں بھی کردوں کے ساتھ امریکا نے یہی کیا تھا۔

تلخ حقیقت یہ ہے کہ، کرد جن کو کردش بھی کہا جاتا ہے،ان کی دنیا میں مجموعی طور پر ساڑھے تین کروڑ سے زائدآبادی ہے اور اتنی بڑی تعداد کے پاس اپنی کوئی ریاست نہیں ہے۔ گزشتہ صدی میں برطانیہ اور فرانس مشرق وسطٰی کے تمام علاقوں کو اپنی نوآبادیات میں شامل کرچکے تھے۔ انہوں نے کردوں کو جان بوجھ کر چار حصوں میں تقسیم کردیا۔ترکی، ایران، عراق اور شام۔ چاروں ممالک میں کرد ،دو نمبر کے شہری سے بھی کم درجہ پر رہنے پر مجبور ہیں۔

ترکی میں سب سے زیادہ کرد آبادی ہے، جو ایک کروڑ بیتیس لاکھ ہیں،جب کہ ایران میں اسی لاکھ سے زائد کرد آباد ہیں۔ عراق میں پچپن لاکھ اور شام میں ستائیس لاکھ کے قریب ہیں۔باقی کرد آبادی روزگار کی تلاش یا پناہ کی تلاش میں مغربی ممالک میں آباد ہیں، جس میں جرمنی سرفہرست ہے اس کے علاوہ فرانس، برطانیہ، روس، امریکا وغیرہ میں آباد ہیں۔ ترکوں کو سب جگہ مزاحمت کا سامنا رہا ہے ان میں ترکی سرفہرست ہے۔ اس کے بعد عراق میں صدام حسین کی حکومت میں بھی انہیں شدید مصائب کا سامنا کرنا پڑا ہے۔

کہا جاتا ہے کہ سلطان صلاح الدین کرد نے جب بیت المقدس فتح کیا تھا تب سے عیسائی کردوں کے شدید مخالف رہے ہیں اور صلیبی جنگوں کا خاتمہ ہوگیا۔ کرد چونکہ ابتداء سے بہادر اور جفاکش قوم تسلیم کی جاتی رہی ہے اس لئے بیشتر ممالک ان سے دبائو میں رہتے تھے۔

کردوں کی ترکی، عراق اور شام مختلف تنظیمیں اور جنگجو گروہ سرگرم رہے ان میں وائی پی جی اور پی کے کے، کے این سی، کے ڈی پی اور پی یو آر وغیرہ ملے جلے کرد سیاسی، مذہبی، لبرل اور جمہوریت پسند گروپ ہیں۔ اپنی شناخت اور آزادی کے لئے کردوں نے بہت قربانیاں دیں، مگر انہیں تاحال کچھ حاصل نہیں ہوا۔

ترکی کی حکومت نے ان پر پابندی لگا دی کہ وہ اپنی زبان نہیں بولیں گے اور خود کو کرد نہیں کہیں گے، بلکہ پہاڑی ترک کہلائیں گے،جبکہ المیہ یہ ہے کہ کردوں کی آبادی ترکی سے آرمینا تک پھیلی ہوئی ہے اور ان کی زبان، کلچر اور سماجی اقدار میں تبدیلیاں آگئی ہیں اس کے علاوہ مسلک میں بھی یہ گروہ زیادہ ہیں اور مختلف سنی، شیعہ، یزدی، زیدی اور وہابی گروہ میں تقسیم ہیں مگر آزادی اور یکجہتی کی شدید خواہش رکھتے ہیں۔