’بے گھر افراد‘ ان کی تعداد روز بہ روز بڑھ رہی ہے

October 17, 2019

وسیم صدیقی

بے روزگاری میں اضافے اور چھوٹے علاقوں سے ہجرت کے باعث شہر کا موجودہ انفراسٹرکچر اور وسائل دباؤ کا شکار ہیں۔ عام طور پر بے گھر افراد کے نام سے ہمارے ذہنوں میں جو تصویر آتی ہے، وہ پل کے نیچے سویا ہوا یا کسی ریلوے اسٹیشن کے بینچ پر اونگھتا ہوا کوئی شخص یا وہ جو نشے کے عادی ہوتے ہیں۔

کراچی پاکستان کا سب سے بڑا شہر، صوبائی دارالحکومت اور معاشی مرکز ہے ،کیوں کہ یہاں باقی شہروں کے مقابلے میں کاروبار اور ملازمتوں کے مواقع سب سے زیادہ ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ یہاں ملک کے دیگر چھوٹے بڑے شہروں اور علاقوں سے لوگوں کی آمدکا سلسلہ سارے سال جاری رہتا ہے، جس کے باعث اب صورتِ حال یہاں تک آ پہنچی ہے کہ دوسرے علاقوں سے آنے والوں کی یہ ’عارضی جنت‘ شہر کے لیے ’سزا‘ بنتی جارہی ہے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ شہر کے مسائل تو دن رات بڑھ ہی رہے ہیں، شہر کو مسلسل آبادی کے دباؤ کا بھی سامنا ہے، جس کی وجہ سے کچی بستیوں میں اضافہ ہورہا ہے اور بے گھر افراد کی تعداد بڑھ رہی ہے۔ان میں سے کئی افراد غربت یا رہائش کا مناسب انتظام نہ ہونے کی وجہ سے دن بھر روزگار کمانے کے بعد سڑکوں، فٹ پاتھوں اور پارکوں میں رات بسر کرتے ہیں۔

کراچی ایک شہر جو انتہائی شفیق باپ کی طرح اپنے اندر ہر ایک کو سمیٹ کر اس کی کفالت کرتا رہا ہے، آج خود مفلوک الحال اور کسمپرسی کی حالت کا شکار ہے۔ یہ مہاجرین و پناہ گزین کے ایک کثیر تعداد کو اپنے سایہ ء شفقت میں لئے ہوئے ہے۔ایک خاندان آتا ہے تو اُس کے پیچھے دس خاندان اور آتے ہیں۔

کراچی کا دِل بڑا ہے یہ بات سرائیکی علاقوں تک بھی جاپہنچی اور اب محتاط اور غیرمحتاط اندازوں کے مطابق کراچی سرائیکیوں کا بھی سب سے بڑا شہر ہے۔زراعت کے شعبے میں ایسا زوال آیا ہے کہ ہاری ، دہاڑی دار بلکہ بعض چھوٹے رقبے کے مالک زمیندار بھی اپنے گھروں کو چھوڑ کر کراچی آنے پر مجبور ہوگئے۔

کراچی کی آبادی کی گِنتی ایک حساس مسئلہ ہے ۔ اِس لیے کوئی وثوق سے نہیں بتا سکتا کہ کراچی میں کتنے پرانے مہاجر ہیں اور کتنے نئے ہیں۔

روزگار کی تلاش کراچی کے پرانے باسیوں کو بھی کراچی کے ایسے حصوں میں لے جاتی ہے جو ابھی کراچی بن رہے ہیں، جن کے نام ابھی رکھے جا رہے ہیں۔

مشاہدے سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ شہر میں بے گھر افراد کی تعداد میں پچھلے 25 سے 30 برسوں کے درمیان سب سے زیادہ اضافہ ہوا ہے۔ نئی نئی بستیاں اور گوٹھ آباد در آباد ہونے کے بعد ان میں بھی جگہ ختم ہوگئی ہے اور لوگ سڑکوں کے کنارے، پلوں کے نیچے، ریلوے اسٹیشنز، اسپتالوں کے باہر اور جھونپڑیوں میں رہ رہے ہیں۔ مسلسل نقل مکانی کے باعث شہر میں بے روز گاروں کی تعداد بڑھتی جارہی ہے۔

سرجانی ٹاؤن، گلستان جوہر، نارتھ کراچی، نیو کراچی، گلشن اقبال، لیاقت آباد، گلبرگ، ڈیفنس، صفورا گوٹھ، سہراب گوٹھ، سپرہائی وے، لانڈھی، ملیر، اولڈ سٹی ایریا، ایم اے جناح روڈ، طارق روڈ، سوسائٹی، شاہراہ فیصل، محمود آباد، چنیسر گوٹھ، سائٹ ایریا، اورنگی ٹاؤن، کورنگی، ڈیفنس، کلفٹن۔۔ کوئی ایسا علاقہ نہیں، جہاں آبادی کا دباؤ محسوس نہ ہوتا ہو یا جہاں لوگ سڑکوں کے کنارے، کھلے آسمان تلے یا کچی آبادیوں میں نہ رہتے ہوں۔

درجنوں بے گھر افراد سے ان کے کراچی آنے کا سبب پوچھا تو سب کا تقریباً ایک ہی جواب تھا،معاشی حالات میں بہتری اور اچھے مستقبل کے خواب اور روزگار کے زیادہ مواقع۔

کراچی میں آ کربسنے والے ان افراد کا تعلق ملک کے چاروں صوبوں سے ہے،تاہم سب سے زیادہ پنجاب سے لوگ کراچی کا رخ کرتے ہیں۔ اس کے بعد اندرون سندھ، پھر خیبر پختونخوا اور آخر میں بلوچستان کا نمبر آتا ہے۔

بے روزگاری میں اضافے اور چھوٹے علاقوں سے ہجرت کے باعث شہر کا موجودہ انفراسٹرکچر اور وسائل دباؤ کا شکار ہیں۔ بے گھر افراد کی مسلسل بڑھتی ہوئی تعداد کو روکنے کے لیے حکومتی پالیسیوں میں نئی تبدیلیوں کی ضرورت ہے۔

ماہرین کے مطابق بے گھر افراد کی تعداد میں جس تیزی سے اضافہ ہورہا ہے وہ باعثِ تشویش ہے۔ آبادی میں مسلسل اضافے سے وسائل کم سے کم ہوتے جارہے ہیں حتیٰ کہ کرائے کے مکانات میں بھی کمی کا سامنا ہے۔ پانی کا بحران بے قابو ہورہا ہے، بجلی کی رسد اور کھپت میں فرق بڑھتا جارہا ہے، اسپتالوں میں جگہ نہیں، اسکولوں میں داخلہ نہیں، سڑکوں پر ٹریفک بے ہنگم ہے، گندگی کے ڈھیر بڑھ رہے ہیں اور لوگ قطار در قطار ملازمتوں کے انتظار میں بوڑھے ہورہے ہیں۔