بچے کی ناکامیوں کو بھی قبول کیجئے

October 27, 2019

اگر آپ کے بچے نے دس پیپرز دیے اور اس کے نمبر یا گریڈ آپ کی توقعات کے مطابق نہیں آئے تو شاید آپ اس کی سرزنش کریں یا سخت سست کہیں، لیکن آپ کو یہ بھی دیکھنا چاہئے کہ اس کی کامیابی کاتناسب کیا ہے۔ نمبر یا گریڈز میںکمی کی وجوہات جاننے کی کوشش کریں اور بچے کے ساتھ مل کر اس بارےمیںکھوج لگائیں۔

آج کے دور میں مسابقت بہت زیادہ ہے اور اسی دوڑ میں والدین اپنے بچوں پر ٹاپ پوزیشن لانے کیلئے زور دیتے ہیں۔ اگر ان کی پوزیشن آجاتی ہے تو انہیںخوب سراہتے ہیں، دوست احباب سے ان کی کامیابی کا ذکر کرتے ہیں، سوشل میڈیا پر بھی ان کے کارناموں کو شیئر کرتے ہیں اورجب لائکس اور ماشاء اللہ کے کمنٹس آتے ہیں تو خوشی سے پھولے نہیں سماتے ، لیکن جب بچوںکے نمبرز کم آجائیں یا وہ محض پاس ہوئے ہوں تو ایسے میں وہ خفت کاشکار رہتے ہیں۔

انہیں ایسا لگتاہے کہ وہ پاس تو ہوگئے لیکن پوزیشن نہ لے کر انہوںنے کوئی گناہ عظیم کردیا ہے۔ ان کا خاندان میں موجود دیگر پوزیشن ہولڈرز کے ساتھ موازنہ کیا جاتاہے ۔ والدین خود ہی اپنے ’پاس‘ ہونے والے بچوں کو طعنے دیتے ہیں اور بہت سے والدین پڑھائی پر اٹھنے والے اخراجات بھی جتاتے ہیں۔

والدین کسی ایک چیز میںناکام ہونے کو زندگی کی ناکامی سمجھ لیتے ہیں، وہ سمجھتے ہیں کہ اب راستے مسدود ہوچکے ہیں، آگے نہیںبڑھا جاسکتا۔ وہ اپنے بچوں کی ناکامی یا توقعات کے برعکس کارکردگی کو حوصلے اور ہمت سے نہیں سہتے اور نہ ہی بچوں کی ہمت بندھاتے ہیں۔

ہمت و حوصلے کے فقدان کی وجہ سے والدین ناکامی کی وجوہات جاننے کی سعی نہیں کرتے، بچوں کو یہ نہیں بتاتے کہ ناکامی اور کامیابی زندگی کا حصہ ہے۔ بچے کی ناکامی کے پیچھے بہت سی وجوہات ہوسکتی ہیں، جن میںسے ایک آپ کا رویہ یا مصروفیت بھی ہوسکتی ہے، لیکن پھر بھی سارا دبائو بچے پر ڈال دیا جاتاہے۔ آپ یہ جاننے کی کوشش کریںکہ بچہ کسی مضمون میںکمزور کیوں ہے، کہیں گھر کے خراب حالات، والدین کے لڑائی جھگڑے، خراب طرزِ زندگی، بچے کی دوستیاںوغیرہ تو اس کی ناکامی کا سبب نہیںبن رہیں۔

بچے کی ناکامی کو گلے لگائیں،جیسے اپنے بچے کو چوٹ لگنے پر آپ گلے لگاتے اور اسے دلاسہ دیتے ہیں۔ کسی چیز میں ناکامی بھی چوٹ کی طرح ہوتی ہے، اس پر مرہم رکھیں۔ اسے زندگی اور موت کا مسئلہ نہ بنائیں، ڈانٹ پھٹکار کے بجائے اسے پیار دیں۔

پڑوسی ملک میں ایک طالب علم محنت کے باوجود کامیاب نہ ہو سکا ،لیکن اس کے والد نے گھر میںجشن کا سماںپیدا کردیا۔ دروازے پر دھوم دھام سے ڈھول تاشے ہونے لگے۔ چھت پر آتش بازی اور شامیانوںمیں کھانوں مٹھائیوں کے دور چلنے لگے۔ ارد گرد کے تمام ہمسائے اور رشتہ دار بھی اس جشن میںشریک ہوئے، یہاں تک کہ لڑکے کے ہم جماعت اور ان کے والدین کو بھی دعوت دی گئی، غرض یوں لگ رہا تھا کہ لڑکے نے کوئی کارنامہ انجام دیا ہے۔

اس دوران لڑکے نے چپکے سےاپنے والد کے کان میںکہا کہ آپ کو غلط فہمی ہو گئی ہے، میںپاس نہیں بلکہ ۔۔۔ لیکن والد نے بیٹے کی بات نہیں سنی اور بولے، تو میرا بیٹا ہے ، امتحان میں کامیاب ہو یا نہ ہو، تو میرا بیٹا ہی رہے گا ۔

جس طرح پاس ہونے یا پوزیشن لانے پر باپ بیٹے کا رشتہ برقرار رہتا ہے ، اسی طرح فیل ہونے پر بھی اس رشتے میں بال برابر فرق نہیں آنا چاہئے۔ اس لڑکے کا باپ سمجھتا تھا کہ اس کے بیٹے کی زندگی کایہ آخری امتحان نہیں ہے۔ آگے اسے زندگی میں بہت سارے امتحانات کا سامنا کرنا ہے۔ وہ ان والدین میں سے نہیںتھا جو امتحانات میں ایک بارناکامی کو زندگی بھر کی ناکامی تصور کرلیتے ہیں۔

بعض بچے پوزیشن لانے کے پریشر اور والدین کی ناراضگی کا سوچ کر خود کشی کاسوچنے لگتے ہیں اور ایسے والدین خود ناکام والدینمیں شمار ہوتے ہیں، جو اپنے بچوں کی فقط ایک ناکامی برداشت کرنے کا حوصلہ نہیں رکھتے۔

اکثر دیکھا گیا ہے کہ والدین یا سوسائٹی کے پریشر کی وجہ سے طالب علم چڑچڑے ہوجاتے ہیں، وہ سہمے سہمے سے رہتے ہیں، ٹھیک طرح سے سو نہیں پاتے، ان کا کھانے کو دل نہیں کرتااور بعض اوقات وہ سر یا پیٹ کے درد کا شکار بھی ہو جاتے ہیں۔

یہ بات درست نہیں ہے کہ صرف نالائق طالب علم ہی امتحانات کے دوران دبائو کا شکار ہوتے ہیں بلکہ یہ کہا جاتا ہے کہ لائق طالب علموں کے دبائو کا شکار ہونے کا زیادہ امکان ہوتا ہے۔ امتحان میں دوسروں سے بہتر کارکردگی دکھانے اور آگے نکلنے کی لگن بعض اوقات انہیں دوسروں سے زیادہ دبائو کا شکار بنا دیتی ہے اوراسی دبائو کی وجہ سے وہ کسی نہ کسی مضمون میںکمزور پڑنے لگتے ہیں یا پریشر کو برادشت نہیںکرپاتے۔

اس وجہ سے جب وہ کسی ایک پیپر میں کم نمبر لاتےہیںیا ناکام ہوجاتے ہیں تو انہیں اپنے ناکام ہونے سےزیادہ اپنے والدین کی توقعات پر پورا نہ اترنے کا دکھ ہوتاہے۔ لہٰذا اپنے بچوں کو ان کی استطاعت کے مطابق پڑھنے دیں، انہیں پڑھائی کا لطف لینے دیں۔ جس طرح کامیابیوں میں آپ ان کے ساتھ ہوتے ہیں،اسی طرح ان کی ناکامی کو بھی اپنی ناکامی سمجھیں اور اسے دور کرنے یا اس کمی کو پورا کرنے کی کوشش کریں۔