زمین کی کہانی

October 26, 2019

انیلہ افضال

پھٹ پھٹ کی آواز جب عین زینی کے قدموں کے پاس آکر رکی تو نحیف و نزار زینی نے آنکھوں پر سے ہاتھ ہٹا کر دیکھا۔ ٹھندی ہوا کا ایک خوش گوار سا جھونکا اس کے گالوں کو چھو کر گزر گیا۔ ”اوہ! اللہ کا شکر ہے۔ تم آ گئے ہو بادل بھیا! کہاں تھے تم؟ کتنے دنوں سے تمہاری راہ دیکھ رہی تھی۔ دیکھو تو تمہارے انتظار میں میرا کیا حال ہو گیا ہے“۔

سیاہ رنگت، بکھرے بال اور ہونٹوں جمی خشکی کی پپڑیاں زینی کی صداقت کی گواہی دے رہی تھیں۔ ”تم نہ گھبراو! میری پیاری بہنا! میں تمہارا ساتھ کبھی نہیں چھوڑوں گا۔ جب بھی مجھے تمہاری اس حالت زار کی خبر ملتی ہے میں اڑتا ہوا چلا آتا ہوں“۔ ”تو اتنی دیر سے کیوں آتے ہو؟ جب میں مرنے کے قریب پہنچ جاتی ہوں۔ دھوپ سے، گرمی سے میری رنگت سیاہ ہو جاتی ہے۔ گلے میں کانٹے اگنے لگتے ہیں۔ پیاس کی شدت سے میری سانسیں رکنے لگتی ہیں۔ جب موت قریب آنے لگتی ہے تب تم آتے ہو“۔

”دیکھو بہنا! میں بھی یہ نہیں چاہتا کہ تم اتنی تکلیف اٹھاو ٔ لیکن یہ تمہارے گھر والے! یہ تو خود ہی تمہاری جان کے دشمن بنے ہوئے ہیں۔ تمہیں نوچ رہے ہیں، کاٹ رہے ہیں۔ میں نے انہیں تمہارا خون نچوڑتے ہوئے بھی دیکھا ہے۔ تمہیں پتا ہے تمہاری یہ حالت دیکھ کر سورج بھیا کو کتنا غصہ آتا ہے“۔ ”ہاں میں جانتی ہوں میں نے دیکھا ہے غصے سے ان کا چہرہ ایک دم لال ہو جاتا ہے، مگر وہ نہیں جانتے کہ ان کے غصے کی آگ مجھے ہی جلاتی ہے۔ اگر ان کا غصہ اسی طرح بڑھتا رہا تو ایک دن میں مر جاو ٔں گی۔ تم انہیں سمجھاؤ نا بادل بھیا“۔

”کیا کروں زینی وہ بھی کچھ سننے کو تیار نہیں اور یہاں تمہارے گھر والے ہیں کہ کچھ سمجھنے کو تیار نہیں۔ میں اکیلا کہاں تک حالات کو سنبھالوں گا“، بادل نے بیچارگی سے کہا۔ ”آہ!“ زینی کے منہ سے کرب سے نکلا۔ ”کیا ہوا؟ میری پیاری بہنا!“ بادل تڑپ کو بولا۔ ”کچھ نہیں سانس اکھڑ رہی ہے۔ ہوا کو بلاؤ“۔ بادل دیوانوں کی طرح ہوا کو آوازیں دینے لگا۔ ہوا بھاگتی ہوئی وہاں پہنچی تو اپنے ساتھ بہت سی مٹی اور کوڑا بھی اٹھا لائی۔

کھہوں کھہوں کھہوں! زینی کی حالت اور بھی بگڑے لگی۔ بادل نے ہوا کو ڈانٹتے ہوئے کہا، ”دیکھتی نہیں پہلے ہی اس کی حالت خراب ہے اس پر یہ دھول مٹی اڑانے کی کیا ضرورت تھی؟“ ”میں کیا کروں؛ ہوا لا پرواہی سے بولی! اس کے گھر والوں نے ہی یہ کچرا پھیلایا ہے اور یہ مٹی بھی انہیں کی وجہ سے ہے۔ سارے درخت، سارے پودے تو اکھاڑ ڈالے ہیں یا کاٹ ڈالے ہیں۔

تو دھول تو اڑے گی نا! کتنی بار سمجھایا ہے کہ چھوڑ دو ان کی فکر کرنا۔ جب انہیں خود اپنی فکر نہیں تو تم کیوں ان کے غم میں ہلکان ہو رہی ہو؟ تم کیوں اپنی جان کی دشمن بنی ہوئی ہو؟“ ہوا بنا رکے بولے ہی چلی گئی۔ لیکن زینی گرمی کی شدت اور ہوا کی آلودگی کی وجہ سے بے ہوش ہو چکی تھی۔ زینی کی حالت دیکھ کر بادل کے تو ہاتھ پاؤں ہی پھول گئے، اس نے جلدی جلدی اس کے منہ پر پانی کے چھینٹے مارنے شروع کر دیے۔ دوچار چھینٹوں کے بعد زینی کی حالت کچھ سنبھل گئی، مگر وہ سب جانتے تھے کہ یہ وقتی افاقہ ہے۔

اسی اثناءمیں سامنے والے گھر کا دروازہ کھلا اور اس گھر میں رہنے والے دونوں بچے، نمرہ اور عبداللہ کھیلنے کے لیے گھر سے باہر آئے۔ پیچھے ہی ان کی دادی جان بھی چلی آئیں تھیں۔ نمرہ نے زینی کے سر پر جھکے ہوئے درخت پر جھولا جھولنا شروع کردیا جب کہ عبداللہ نے کودنا اور پھاندنا شروع کر دیا۔ دادی جان اسی درخت کے سائے میں بیٹھ گئیں۔

نمرہ نے دادای جان کو بیٹھے دیکھا تو جھولے سے اتر آئی اور بولی، ”دادی جان آپ بھی اپنے بچپن میں درخت پر جھولا جھولتی تھیں“۔ ”ہاااا!“ دادی جان نے سرد آہ بھری، ”بیٹا اب تو درخت ہی نہ رہے۔ میں تو سوچتی ہوں کہ اگلے وقتوں کے بچے جھولا کس پر جھولیں گے؟ پانی کہاں سے لیں گے؟ کیسی گندی ہوگی وہ ہوا جس میں وہ سانس لیں گے؟ یہی زمین کتنی سر سبز ہوا کرتی تھی۔ ہری ہری گھاس، پھول، پیڑ اور سکون ہی سکون“، دادی جان اپنے بچپن میں کھو سی گئی تھیں۔ ”تو اب وہ سب کہاں گیا دادی جان“، ننھے عبداللہ نے پوچھا۔ ”کھا گئے ہم سب کچھ“۔ ”کیا مطلب؟“

نمرہ نے حیرت سے پوچھا۔

”ہم انسانوں نے دھڑا دھڑ درخت کاٹنے شروع کر دیے۔ گھاس کے میدانوں پر عمارتیں کھڑی کر دیں۔ جنگل کے جنگل فرنیچر بنا کر گھروں میں بھر دیے۔ زیادہ سے زیادہ کی ہوس نے زمین سے نہ صرف اس کا حسن چھین لیا ہے بلکہ اس کی سانسیں تک روک دی ہیں۔ آنے والی نسلیں ہمیں کن الفاظ میں یاد کریں گی کہ ہم کیسے لوگ تھے؟ ان کے لیے کیا چھوڑ گئے ہیں؟ دیکھو یہ درخت! یہ تمہیں سایہ بھی دیتا ہے، ہوا بھی صاف کرتا ہے اور تمہارے کھیل کا ساتھی بھی ہے۔ آنے والی نسلوں کو یہ بھی میسر نہ ہو گا“۔ ”ہاں دادی جان! ہماری ٹیچر نے بتایا تھا کہ درختوں اور جنگلات کی کمی ہمارے ماحول کی دشمن ہے۔ درخت نہ ہوں تو ہوا آلودہ ہو جاتی ہے بارشوں کی کمی سے پانی کی سطح خطرناک حد تک کم ہو چکی ہے اور آنے والے وقتوں میں پانی کی وجہ سے ملکوں کے درمیان جنگیں ہوں گی۔

زمین کا درجہ حرارت خطرناک ہو جائے گا اور ہو سکتا ہے کہ زمین پر سے زندگی بھی ختم ہو جائے“، ننھے عبداللہ کی آنکھیں پھیل سی گئی تھیں۔ ”اپیا! درخت اس قدر ضروری ہیں؟“ ”ہاں میرے بھائی“۔ ”ہاں مجھے یاد آیا! میری ٹیچر نے بتایا تھا کہ ایک درخت تین سلنڈر کے برابر آکسیجن فراہم کرتا ہے“، عبداللہ نے کہا۔ ”تو سوچو ہزاروں درخت کیا کر سکتے ہیں؟“ دادی جان نے مسکراتے ہوئے کہا۔ ”بالکل! میں آج ہی ابو جان سے کہوں گا کہ وہ مجھے کچھ ننھے پودے لا دیں، میں ان کی پرورش کروں گا اور آنے والے بچوں کے لیے کچھ درخت چھوڑ جاؤں گا“۔ ”ہاں اور میں بھی“، نمرہ بولی۔

زینی نے آنکھیں اٹھا کر بادل اور ہوا کی جانب دیکھا اور بولی، ”دیکھا! میں نہ کہتی تھی میرے گھر والے میرے دشمن نہیں ہیں۔ آج ان دو بچوں نے مجھے بچانے کی ٹھانی ہے، کل یہ تعداد ہزاروں میں ہو جائے گی۔ میں ایک بار پھر سے سر سبز ہو جاؤں گی۔

پھر میری سانسیں کبھی نہیں اکھڑیں گی، پھر سورج بھیا کبھی مجھ سے خفا نہ ہوں گے اور نہ ہی ان کے غصے کی آگ مجھے جھلسائے گی“۔ اس کی آنکھوں میں آنے والے سنہرے کل کی چمک دیکھ کر بادل کھل کر برسا اور ہوا بھی دھیرے دھیرے اٹھلانے لگی۔ زینی( زمین) نے کھل کر سانس لی اور اطمینان سے آنکھیں موندے لیں۔