ذہنی تناؤ، ایک سنگین عالمی مسئلہ

November 07, 2019

آج کے مشینی دور کی روزمرہ زندگی میں سکون کے لمحات تلاش کرنا مشکل سے مشکل تر ہوتا جارہا ہے۔ ہمارے طرزِ زندگی (لائف اسٹائل)، افراتفری اور ہر چیز کی قلت (وقت، وسائل، سکون وغیرہ) نے ہماری زندگیوں سے ٹھہراؤ ختم کردیا ہے۔

ایسے میں ہمیں اپنے ارد گرد کئی لوگ (ہم خود بھی) کبھی ملازمت میں مسائل کی وجہ سے ذہنی تناؤ کا شکار نظر آتے ہیں تو کچھ گھر، خاندان اور دوست و احباب میں اپنے کسی پیارے کی خراب صحت کے باعث ذہنی کرب میں مبتلا دِکھائی دیتے ہیں۔ دراصل، روزانہ چھوٹی چھوٹی چیزیں ہمارے مزاج پر اندازوں سے زیادہ اثرات مرتب کرسکتی ہیں۔

دماغی یا ذہنی تناؤ کے حوالے سے ایک حیران کن بات یہ ہے کہ اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ دماغی پریشانی یا تناؤ صرف غریب ملکوں کے غریب عوام کو لاحق ہوسکتا ہے تو اسے یہ جان لینا چاہیے کہ ایک نئی تحقیق کے مطابق، کسی بھی وقت تقریباً 50فیصد امریکی شہری معتدل ذہنی تناؤ میں مبتلا رہتے ہیں۔

اگر عالمی سطح پر ذہنی تناؤ کے مسائل کی بات کریں تو اندازہ ہے کہ اس وقت دنیا میں 50کروڑ کے لگ بھگ افراد کسی نہ کسی دماغی عارضے میں مبتلا ہیں۔ ذہنی تناؤ کے لحاظ سے پاکستان میں کیے جانے والے سروے بھی پریشان کن ہیں۔ پاکستان سائیکائٹریک سوسائٹی کا کہنا ہے کہ ملک میں نفسیاتی اور ذہنی امراض میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔

سوسائٹی کے اعداد و شمار سے ظاہر ہوتا ہے کہ پاکستان میں 33فیصد لوگ ذہنی پریشانی اور ڈپریشن، 4فیصد لوگ وہم جبکہ3فیصد بے جاخوف کے عارضے میں مبتلا ہیں۔ صرف یہی نہیں بلکہ ایک اندازہ ہے کہ زندگی جوں جوں تیزی کی طرف گامزن ہوگی، ڈپریشن کے امکانات مزید بڑھتے چلے جائیںگے۔

ذہنی تناؤ کے حوالے سے عالمی ادارہ صحت کی رپورٹ سے ظاہر ہوتا ہے کہ دنیا بھر کے 10سے 20فیصد نوجوان مختلف ذہنی امراض میں مبتلا ہیں۔ وہ افراد جو 20سے 40سال کی عمر کے زمرے میں آتے ہیں، ان میں ذہنی تناؤ (جو آگے چل کر ڈپریشن کی وجہ بن سکتا ہے) پیدا ہونے کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں جبکہ خواتین میں مردوں کے مقابلے میں یہ عارضہ لاحق ہونے کا خدشہ زیادہ ہوتا ہے۔

عالمی ادارہ صحت کا کہنا ہے کہ ذہنی تناؤ اور دیگر دماغی امراض کے باعث، دنیا بھر میں ہر سال 8لاکھ افراد خودکشی کے ذریعے اپنی زندگیاں گنوا بیٹھتے ہیں۔ ان اعدادوشمار کا سب سے زیادہ حیران کن پہلو یہ ہے کہ 15سے 29سال کی عمر کے نوجوانوں میں خودکشی سب سے بڑی وجہ ہے جبکہ مجموعی خودکشیوں میں سے 79فیصد خودکشیاں تیسری دنیا کے ممالک میں ہورہی ہیں۔

ذہنی تناؤ کی اقسام

ماہرین کے مطابق، ہر طرح کا تناؤنقصان دہ نہیں ہوتا۔ کچھ ذہنی تناؤ ایسا بھی ہوسکتا ہے جو سستی، کاہلی اور بے زاری سے جان چھڑواکر آپ کو متحرک بنادے۔ یہ تناؤ آپ کو زیادہ کام کرنے اور زیادہ کارکردگی دِکھانے میں مددگار اور معاون ثابت ہوسکتا ہے۔

یہی نہیں، ہر فرد کی شخصی نوعیت کے پیشِنظر ہر ایک کے لیے تناؤ کا پیمانہ مختلف ہوتا ہے۔ ہوسکتا ہے کہ ایک بات جو آپ کے لیے ذہنی تناؤ کی وجہ بن رہی ہے، اسی نوعیت اور اسی شدت کی بات کسی اور کے لیے ایک عام سی بات ہو۔ تاہم، جب کبھی کوئی شخص ذہنی تناؤ محسوس کرتا ہے، اس کے بعد ہر فرد کا جسم ایک ہی طرح اس تناؤ پر ردعمل ظاہر کرتا ہے۔ تناؤ پر ردِعمل جسم کا سخت یا مشکل صورتحال سے نمٹنے کا طریقہ ہوتا ہے۔

ذہنی تناؤ کے نتیجے میں اعصابی نظام، ہارمونز، نظامِ تنفس اور خون کی شریانوں میں تبدیلیاں رونما ہوسکتی ہیں، جس سے دل کی دھڑکن تیز ہوجانا، سانس کا پھولنا، پسینہ بہنے لگنا وغیرہ عام ہے۔ ساتھ ہی، یہ جسمانی توانائی کی ایک لہر بھی فراہم کرتا ہے۔ اسے جسم کا فائٹ یا فلائٹ ردِعمل کہا جاتا ہے، یہ ایک کیمیائی ردعمل ہوتا ہے، جس کے نتیجے میںوہ جسمانی ردعمل کے لیے تیار ہوتا ہے کیونکہ اسے لگتا ہے کہ وہ حملے کی زد میں ہے۔

مثبت تناؤ

کچھ ذہنی تناؤ ایسا ہوتا ہے، جو عارضی اور مختصر وقت کے لیے پیدا ہوتا ہے، جس پر آپ کو فکرمند ہونے کی ضرورت نہیں۔ اس کی مثال یوں دی جاسکتی ہے کہ جب آپ کو اپنے ادارے کی طرف سے کسی بڑے پروجیکٹ کی ذمہ داری دی جاتی ہے یا پھر جب آپ کو لوگوں کے سامنے پریزنٹیشن دینی ہوتی ہے تو آپ کو پیٹ میں گڑگڑاہٹ سی محسوس ہوتی ہے اور ہتھیلیوں پر پسینہ بہنے لگتا ہے۔ یہ مثبت ذہنی تناؤ ہوتا ہے، جو دراصل بہتر کارکردگی دِکھانے میں معاون ہوتا ہے۔

منفی تناؤ

پاکستان جیسے معاشرے میں جب رپورٹس یہ بتاتی ہیں کہ یہاں ہر تیسرا فرد ذہنی تناؤ کا شکار ہے تو وہ منفی تناؤ ہوتا ہے۔ منفی جذبات انتہائی پُرتناؤ ہوتے ہیں، ان میں ہر وقت کی فکرمندی، غصہ آنا، خوفزدہ رہنا یا مزاج میں مستقل چڑچڑاپن شامل ہے۔ اس طرح کا تناؤ اچھا نہیں ہوتا اور طویل المیعاد بنیادوں پر سنگین مسائل کی وجہ بن سکتا ہے۔

ذہنی تناؤ کے اثرات

اگر ایک شخص مسلسل ذہنی تناؤ کا شکار رہنے لگے تو وہ سردرد، دل کے امراض کے ساتھ ساتھ جِلدکے امراض، ہائی بلڈ پریشر، دمہ، ذیابطیس، ڈپریشن، معدے کے مسائل اورجوڑوں کے درد جیسے موذی امراض کا شکار ہوسکتا ہے۔