’پرندے کی فریاد‘

November 09, 2019

علامہ اقبال

آتا ہے یاد مجھ کو گزرا ہوا زمانہ

وہ باغ کی بہاریں وہ سب کا چہچہانا

آزادیاں کہاں وہ اب اپنے گھونسلے کی

اپنی خوشی سے آنا اپنی خوشی سے جانا

لگتی ہے چوٹ دل پر آتا ہے یاد جس دم

شبنم کے آنسوؤں پر کلیوں کا مسکرانا

وہ پیاری پیاری صورت وہ کامنی سی مورت

آباد جس کے دم سے تھا میرا آشیانا

آتی نہیں صدائیں اس کی مرے قفس میں

ہوتی مری رہائی اے کاش میرے بس میں

کیا بد نصیب ہوں میں گھر کو ترس رہا ہوں

ساتھی تو ہیں وطن میں میں قید میں پڑا ہوں

آئی بہار کلیاں پھولوں کی ہنس رہی ہیں

میں اس اندھیرے گھر میں قسمت کو رو رہا ہوں

اس قید کا الٰہی دکھڑا کسے سناؤں

ڈر ہے یہیں قفس میں میں غم سے مر نہ جاؤں

جب سے چمن چھٹا ہے یہ حال ہو گیا ہے

دل غم کو کھا رہا ہے غم دل کو کھا رہا ہے

گانا اسے سمجھ کر خوش ہوں نہ سننے والے

دکھتے ہوئے دلوں کی فریاد یہ صدا ہے

آزاد مجھ کو کر دے او قید کرنے والے

میں بے زباں ہوں قیدی تو چھوڑ کر دعا لے!