اسمارٹ ہوم سیکیورٹی سسٹمز کی طلب میں اضافہ

December 29, 2019

بین الاقوامی تحقیقی ادارے مارکیٹس اینڈمارکیٹس کی ’اسمارٹ ہومز رپورٹ 2019ء ‘ کے مطابق، 2018ء کے اختتام پر اسمارٹہومز کی مارکیٹ 76.6ارب ڈالر تک جا پہنچی تھی جبکہ توقع ہے کہ 2024ء تک اس مارکیٹکی مجموعی مالیت بڑھ کر 151.4ارب ڈالر ہوجائے گی۔

اسمارٹ ہومز کیا ہیں؟

اسمارٹ ہومز سے مراد ایسے گھر ہیں، جہاں گرمیوں میں گھر کے درجہ حرارت کو ٹھنڈا رکھنے اور سردیوںمیں گرم رکھنے سے لے کر لائٹنگ اور سیکیورٹی تک، ہر کام خودکار مشینی نظام کے تحت ہوتا ہے۔ ماہرین کے مطابق، اسمارٹ ہوم سسٹمز لوگوں کے لیے وقت کی بچت کرنے کے علاوہ پانی اور توانائی کا خرچ کم کرکے گھروں کو زیادہ ماحول دوست بناتے ہیں۔

گھر زیادہ محفوظ

چاہے وہ گھر ہو یا گاڑی، آج کے دور میں چابی کے بغیر دروازہ کھولنا (Key-less entry)فیشن سے زیادہ ضرورت بن گیا ہے۔ شکاگو میں رہنے والے 49سالہ کِرس پولاک نے 2012ء میںاپنے گھر میں چابی کے بغیر داخل ہونے کے لیے بائیومیٹرک سسٹم ’سپریم بائیو لائٹ فنگر پرنٹ ریڈر‘ نصب کروایا تھا۔ وہ کہتے ہیں، ’’یہ سسٹم فوری طور پر کام کرتا ہے۔ سینسر پر انگلی لگتے ہی لاک کھل جاتا ہے۔ یہ چابی استعمال کرنے کے مقابلے میں کہیں آسان ہے۔ ویسے بھی مجھے جیب میں کوئی چیز رکھنا پسند نہیں ہے‘‘۔

فنگر پرنٹ لاک اور چہرے کی شناخت کرنے والی بائیو میٹرک ٹیکنالوجیز کو پہلے پہل جب ہالی ووڈ کی سائنس فکشن فلموں میں متعارف کروایا گیا تھا تو شائقین حیرت زدہ رہ جاتے تھے۔ تاہم اس ٹیکنالوجی نے سائنس فکشن سے حقیقی دنیا کا سفر بڑی برق رفتاری سے کیا ہے۔

اس ٹیکنالوجی کے پیچھے الگارتھم کی بنیاد پر بنایا گیا ایک سسٹم ہے، جو ہر صارف کے لیے ان کی حیاتی شناخت (Bio Identity)، جیسے انگلی کا نقش اور اُبھار یا آنکھوں کے درمیان پکسل کی تعداد کی مدد سے ایک منفرد کوڈ تخلیق کرتا ہے۔ ایک بار جب ڈیجیٹل شناخت یا اس کا کوڈتخلیق ہوجاتا ہے تو اس کے بعد عملی طور پر جس وقت بھی وہ شخص اسکینر کو چھوتا ہے یا اس کے سامنے اپنی آنکھ لاتا ہے یا اس کے سامنے ہاتھ ہلاتا ہے تو ایک سیکنڈ کے ہزارویں حصے میں کوڈمیچ ہوکر لاک کھل جاتا ہے۔

ہڈسن یارڈز، نیویارک کا سب سے مہنگا اور پُرتعیش ٹاور ہے۔ اس مکسڈ-یوز ٹاور میں دو بیڈ روم کنڈومونیم کی قیمتیں 4.36ملین ڈالر سے شروع ہوتی ہیں۔ اس ٹاور کے دو فلور مختلف سہولیات کی فراہمی کے لیے مختص ہیں، جہاں پرائیویٹاسپا، گالف سمیولیٹر اور اسکریننگ روم جیسی سہولیات موجود ہیں۔ اس ایریا میںداخل ہونے کے لیے لوگوں کا فنگر پرنٹ اسکین کیا جاتاہے، مزید برآں انھیں یہ چوائس بھی دی جاتی ہے کہ وہ ہر بار یہاںداخل ہونے کے لیے ایک بار قابلِ استعمال ہندسہ حاصل کریں۔

میامی میں زیرِ تعمیر پرتعیش فلگ شگاف ٹاور ’2000اوشین‘ میں چہرے کی شناخت کرنے والی ٹیکنالوجی کا استعمال کرتے ہوئے ڈیجیٹل ویڈیو کیمرے نصب کیے جائیں گے، جہاں سے اسکین ہوکر ہی اس ٹاور کے مکین اپنے اپنے اپارٹمنٹس میں داخل ہوسکیں گے۔

متوقع طور پر2021ء میں مکمل تیار ہونے والے اس ٹاور کے 64اپارٹمنٹس کے ہر مکین کو پرائیویٹ ایلیویٹر کے ذریعے اپنے اپنے اپارٹمنٹ میں داخل ہونے کی سہولت فراہم کی جائے گی۔ آپ کے لابی میں داخل ہوتے ہی چہرے کی شناخت کرنے والا نظام وہاں موجود دربان کو چوکنا کردے گا کہ آپ پہنچ چکے ہیں۔ ایلیویٹر میں داخل ہونے کے بعد آپ کو اپنے چہرے کے ذریعے شناخت کرانا ہوگی، جس کے بعد ہی اس کا دروازہ آپ کے نجی اپارٹمنٹ میں کھلے گا۔ پروجیکٹ کے بلڈرز اسے اگلے درجے کا سیکیورٹی سسٹم قرار دیتے ہیں۔

ہوم سیکیورٹی نے حالیہ برسوںمیں تیزی سے فروغپانے والی صنعت کا درجہ حاصل کرلیا ہے اور ماہرین کا کہنا ہے کہ آنے والے عرصے میں صارفین ہوم سیکیورٹی کے زیادہ پرسنلائزڈ پراڈکٹس حاصل کرسکیں گے۔ رہائشی گھروں اور عمارتوں کی سیکیورٹی میں اسپیشلائزیشن رکھنے والی ایک مارکیٹریسرچ اور کنسلٹنگ فرم کا اس حوالے سے کہنا ہے، ’’کمپنیاں ایسی بائیومیٹرک ٹیکنالوجی تخلیق کرنے پر کام کررہی ہیں، جس کے تحت ہر صارف کو اس کی ضرورت، پسند اور آسانی کے مطابق پرسنلائزڈ سیکیورٹی سسٹم فراہم کیا جاسکے۔

مثلاً انگلی سے گھر کا لاک کھولتے ہی ٹیکنالوجی آپ کی دیگر ضروریات اور پسند کا خود ہی خیال رکھے گی، جیسے آپ گھر میں کتنی روشنی اور کتنا درجہ حرارت رکھنا چاہتے ہیں وغیرہ وغیرہ‘‘۔

شناخت کرنے والے ہوم سیکیورٹی سسٹم میں ملازمین کی شناخت کو آپ کنٹرول کرسکتے ہیں۔ مثلاً آپ کے گھر میں کام کرنے والی کے کام کے اوقات کار اگر صبح نو سے شام پانچ ہیں تو آپ شام پانچ بجے کے بعد، سسٹم سے اس کی شناخت کو غیر متحرک کرسکتے ہیں، اس کا مطلب یہ ہوا کہ شام پانچ بجے کے بعد آپ کا سیکیورٹی سسٹم، اسے آپ کے اپارٹمنٹ میں داخل ہونے کی اجازت نہیں دے گا۔

ذاتی معلومات کہاں جاتی ہیں؟

کئی صارفین کو اس بات پر تشویش ہے کہ آخر ان کے فیس پرنٹ اور فنگر پرنٹس کا ڈیٹا کہاں جاتا ہے؟ اس حوالے سے اسٹینفورڈ سینٹر فار انٹرنیٹ اینڈ سوسائٹی کی ڈائریکٹر برائے کنزیومر پرائیویسی اور انفارمیشن سائنٹسٹ جینیفر کنگ کہتی ہیں، ’’اگر آپ امیر ہیں تو آپ کو یہ خدشہ رہتا ہے کہ کہیں آپ کا ڈیٹا ہیک نہ ہوجائے یا سیکیورٹی سروس فراہم کرنے والی کمپنی اسے فروخت نہ کردے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ماہر ہیکرز آپ کے ہوم سیکیورٹی ڈیٹا کو ہیک کرسکتے ہیں‘‘۔

تاہم، ہوم سیکیورٹی سروسز فراہم کرنے والی کمپنیاںاکثر آپ کے ڈیٹا کو اِنکرپٹ کرنے کے بعد اسے اپنے محفوظ ڈیٹا سینٹرز میں یا آپ کے پاس موجود ڈیوائس میں رکھتی ہیں۔ کچھ کمپنیاں آپ کی انگلی یا چہرے کی اسکیننگ کے بعد اس کا ایک منفرد اِنکرپٹڈ کوڈ تخلیق کرتی ہیں اور آپ کے چہرے یا انگلی کی تصویر کے بجائے اس کوڈ کو اپنے ڈیٹا میں محفوظ کرتی ہیں، جسے کوئی بھی ہیک نہیں کرسکتا۔