کھیلوں میں خواتین کی شمولیت ضروری کیوں؟

March 08, 2020

ایک 90 کی دہائی میں پیدا ہونے والی پاکستانی کھلاڑی اور ایک خاتون یورپی سفارت کار جسے کھیلوں میں دلچسپی ہے، ہم دونوں کو یقین ہے کہ کھیل مردوں اور عورتوں کو بااختیار بنا سکتے ہیں۔ صنفی اور طبقاتی تفریق سے بالا تر کھیل کی طاقت لوگوں کو ملانے اور ان پر اثر انداز ہونے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ کھیل مایوسی میں بھی امید کو جنم دیتے ہیں اور قیادت پیدا کرتے ہیں، ایسی قیادت جو دنیا بدل سکتی ہو۔ معاشرے میں صنفی مساوات قائم کرنے میں کھیلوں کا کردار تسلیم شدہ ہے۔ کھیلوں کی مثبت اقدار مثلاً ٹیم ورک، صبر اور استقامت کے فروغ سے گھریلو تشدد جیسے مسائل پر بھی قابو پایا جا سکتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ صنفی عدم مساوات کی نوعیت کھیل کے میدان، گھر کے اندر اور کام کاج کی جگہ پر خواہ یورپی ممالک ہوں یا پاکستان، ایک جیسی ہے۔ عالمی سطح پر اوسطاً ایک ہی کام کے لیے خواتین مردوں کی نسبت 77فیصد معاوضہ حاصل کر پاتی ہیں۔ صنفی تشدد، ناقص سرمایہ کاری اور فرسودہ تصورات ہر جگہ پر موجود مسلمہ تلخ حقائق ہیں۔

کھیل کے میدانوں میں بھی انعامی رقوم، اسپانسر شپ، سہولتیں اور سامان کی فراہمی جیسے معاملات میں خواتین کھلاڑیوں کو امتیازی رویوں کا سامنا رہتا ہے۔ فکر انگیز بات یہ ہے کہ کھیلوں کے ادارے ان امتیازی روایات کو بدلنے کیلئے تیار دکھائی نہیں دیتے۔

گزشتہ عشروں کے دوران پاکستان نے کئی عالمی سطح کے کھلاڑی پیدا کیے ہیں۔ ان میں حسن سردار، جہانگیر خان، وسیم اکرم جیسے عالمی شہرت یافتہ کھلاڑی شامل ہیں جو بالترتیب ہاکی، اسکواش اور کرکٹ جیسے کھیلوں میں اپنے ملک کو شہرت کی بلندیوں پر لے گئے۔ تاہم اگر کوئی کھیل کی دنیا کے ان روشن ناموں کی فہرست میں شامل نہیں ہے تو وہ خواتین کھلاڑی ہیں۔ یہ صرف حالیہ دور میں ممکن ہوا کہ کچھ خواتین کھلاڑیوں کو بھی مرکزی نوعیت کے کھیلوں کی دنیا میں جانا، پہچانا اور تسلیم کیا جا رہا ہے لیکن خواتین کیلئے کھیلوں کی دنیا میں نام پیدا کرنا کوئی آسان کام نہ تھا۔ انہیں اس کیلئے بہت سی رکاوٹوں کو عبور کرنا پڑا، فرسودہ تصورات سے لڑنا پڑا اور اس مقام تک پہنچنے کیلئے انہیں بہت سی قربانیاں دینا پڑی ہیں۔ تحقیقی شواہد بتاتے ہیں کہ وہ ممالک جہاں عورتوں کو مردوں کے برابر سمجھا جاتا ہے، وہاں ترقی کا عمل تیز اور ان کا شمار زیادہ پیداوار والے خوشحال ممالک میں ہوتا ہے۔ مردوں کے برابر معاوضہ لینے والی خواتین اپنی کمائی کا ایک بڑا حصہ اپنے خاندان (بشمول تعلیم و صحت) اور دیگر اقربا پر خرچ کرتی ہیں جس کے نتیجے میں مضبوط تر معیشت اور جامع تر ترقی کا حصول یقینی ہو جاتا ہے۔

ورلڈ اکنامک فورم کی 2019ء میں شائع شدہ جینڈر گیپ رپورٹ کے مطابق پاکستان 153 ممالک کی فہرست میں 151ویں نمبر پر ہے اور یوں پاکستان اس میدان میں صرف عراق اور یمن سے آگے ہے۔ اس مایوس کن صورتحال کی بنیادی وجوہات میں معاشی مواقع کی کمی، تعلیم و صحت کی سہولتوں تک محدود رسائی اور سیاست و فیصلہ سازی کے عمل میں نمائندگی کی کمی شامل ہیں۔ اس لحاظ سے دیکھا جائے تو پاکستان ایک ایسا ملک ہے جو اپنے ملک کی نصف آبادی کی پیداواری قوت اور صلاحیت کو ضائع کرکے اپنے لیے اہم ترقیاتی و معاشی مواقع مسلسل گنوا رہا ہے۔ یہ وہ صورتحال ہے جس میں کھیلوں کے اداروں کا کردار مقامی اور بین الاقوامی سطح پر کلیدی اہمیت اختیار کر لیتا ہے۔ موجودہ صورتحال میں اس بات کی اشد ضرورت ہے کہ یہ ادارے کھیلوں کے میدان میں خواتین کی شمولیت یقینی بناتے ہوئے خواتین کی نمائندگی میں خاطر خواہ اضافہ کریں۔ اس کے ساتھ ساتھ میڈیا کو بھی خواتین کھلاڑیوں کو منظرِ عام پر لانے میں زیادہ موثر کردار ادا کرنا چاہیے۔

اس کمزور بہانے کو وجہ نہیں بنایا جا سکتا کہ خواتین کھلاڑی میڈیا میں لوگوں کی زیادہ توجہ حاصل کرنے میں ناکام رہ کر آمدنی میں کمی کا باعث بنتی ہیں۔ اگر خواتین کو باقاعدہ تربیت کی سہولتیں حاصل نہیں ہوتیں اور اگر کھیلوں کے ادارے ان کیلئے ایسے محفوظ مقامات پیدا نہیں کر پاتے جہاں وہ اپنی صلاحیتیں پروان چڑھا سکیں اور اگر انہیں وہ سازگار بنیادیں میسر نہیں آتیں جن کی مدد سے وہ اپنی پوری توجہ کھیلوں پر مرکوز کر سکیں تو وہ اعلیٰ سطح پر مقابلہ کرنے کے قابل نہیں ہو سکیں گی۔ اگر خواتین کو بھرپور انداز میں سامنے لاکر ان کی حوصلہ افزائی نہیں کی جاتی تو یہ عوامی توجہ بھی حاصل نہیں کر پائیں گی۔ کامیاب خواتین کھلاڑی نہ صرف کھیل کے میدانوں میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوا رہی ہیں بلکہ ان کا اثر کھیل کے میدان سے باہر بھی محسوس کیا جاتا ہے۔ ان کا کھیلوں کی دنیا روشن ستارہ ہونا انہیں دنیا میں صنفی مساوات کے موضوعات پر ہونے والی بحث میں خواتین کا پلڑا بھاری کرنے میں مدد دیتا ہے اور ان مباحث میں ان کا تاثر اہم تبدیلیوں کا پیش خیمہ ثابت ہو سکتا ہے۔ ہمیں اس سلسلے میں زیادہ سے زیادہ مرد کھلاڑیوں کی حمایت کی بھی ضرورت ہے تاکہ کھیل کے میدانوں اور ان سے باہر ایک ایسے معاشرے کی بنیاد ڈالی جا سکے جو مساوات، رنگا رنگی، عدم تشدد اور باہمی احترام جیسی اقدار کا عکاس ہو۔ ہم اس بات کے قائل ہیں کہ کھیل نہ صرف صنفی مساوات کے قیام کیلئے اہم کردار ادا کر سکتے ہیں بلکہ خواتین کی خود اعتمادی اور حوصلہ سازی کا باعث بھی بنتے ہیں۔ دنیا بھر میں اتھلیٹس کو نوجوان اپنے رول ماڈل کے طور پر دیکھتے ہیں، قطع نظر کہ ان کی صنف کیا ہے۔ اس صورتحال میں خواتین بالخصوص خواتین کے کھیلوں پر بنیادی سے لے کر پیشہ ورانہ سطح پر سرمایہ کاری کرنا نہ صرف لڑکیوں کیلئے کھیلوں کے مواقع میں اضافے بلکہ پاکستان اور یورپ کے معاشروں کیلئے وسیع تر فوائد کے حصول کا باعث بھی بن سکتا ہے۔

یہی وجہ ہے کہ کھیل کے میدانوں میں خواتین کی قیادت خاص اہمیت کی حامل ہے اور اسی بنیاد پر یورپی یونین غیر معمولی صلاحیتوں کی حامل حاجرہ خان اور فورٹس اسپورٹس اکیڈمی کے ساتھ مل کر فٹ بال کوچ بننے کی خواہش مند خواتین کی تربیت کا کام کر رہی ہے۔ ہمارا مقصد صرف خواتین کو کھیلوں کا موقع فراہم کرنا ہی نہیں بلکہ ان میں ایسی صلاحیت پیدا کرنا ہے جس کی بدولت وہ بہت سی اور خواتین، لڑکیوں اور مردوں کو کھیلنے کیلئے قیادت، تربیت اور معاونت فراہم کر سکیں۔

(یہ مضمون اندرولا کامینارا اور حاجرہ خان کی مشترکہ تحریر ہے، اندرولا کامینارا یورپی یونین کی سفیر اور حاجرہ خان پاکستان ویمنزفٹبال ٹیم کی کپتان ہیں)