مشکلات اور سختیاں

March 14, 2020

نادیہ اظفر

دیکھنے میں آیا ہے کہ کام کی ابتدا میں جب مشکلات اور سختیاں آتی ہیں، تو بیش تر نوجوان ہمت ہار بیٹھتے ہیں۔ہمارے یہاں زندگی کے مختلف شعبوں میں نوجوانوں کی رہنمائی کے لیےکا کوئی واضح نظام ہے، نہ ایسی اکیڈمی ہے، جو بچوں کی صلاحیت کو جانچ کر انہیںرہنمائی فراہم کریں اورنہ ہی ہمارا نصاب تعلیم ایسا ہے، جس سے طالب علم خود اپنی منزل کا تعین کر سکیں۔ بالخصوص نچلے اور متوسط طبقے کے طالب علموں کے لیے ،یہ ان کی تعلیمی زندگی کا سب سے اہم مسئلہ رہا ہے۔ پالیسی ساز اداروں کو اس پر ضرور غور کرنا چاہیے۔ کم از کم میٹرک کے نصاب میں ایک مضمون ایسا ضرور ہونا چاہیے، جو طلبا کی اس حوالے سے رہنمائی کر سکے۔ اس ضمن میں یہ دیکھا گیا ہے کہ ،بعض نوجوان والدین کے دباؤ، دوستوں کی رائے یا کسی شخصیت سے متاثر ہو کر اپنے لیے پیشے کا انتخاب کرلیتے ہیں،چاہے، اس میںا ن کی دل چسپی ، رجحان اور اس شعبے کے لیے مطلوبہ صلاحیتیںہوں یا نہ ہوں، نتیجہ ناکامی کی صورت میں نکلتا ہے۔ بعض نوجوان ذاتی تجربوں کو کام یابی کا زینہ بناتے ہیں ، ذاتی تجربوں کے ذریعے کام یابی کا حصول مشکل ہوجاتا ہے، کام یابی اسی وقت مقدر بن سکتی ہے ، جب ہم دوسروں کے تجربات سے بھی بھر پور فائدہ اُٹھائیں۔ہمارے معاشرے میںاکثریت ایسے نوجوانوں کی ہے ، جو اپنے لیےمضمون یا شعبے کا انتخاب خود نہیںکرتے بلکہ ، حالات انہیں ، جس سمت بہا کر لے جائیں، وہ اسی رخ میں بہتے چلے جاتے ہیں۔ اپنی زندگی کا بیش تر حصہ گزارنے کے بعد انہیں معلوم ہوتا ہے کہ انہوںنے جس شعبے یا مضمون کا انتخاب کیا ہے، وہ ان کے لیے درست نہیں ہے،مگر تب تک بہت دیر ہو چکی ہوتی ہے۔ وہ لوگ خوش بخت ہوتے ہیں،جو اپنی صلاحیتوں کے عین مطابق ہی شعبے کا انتخاب کرتے اورملازمت بھی اسی شعبے میں مل جاتی ہے۔ اس طرح کام ان کے لیے ایک مشغلہ بن جاتا ہے،کام کو انجام دینے میں انہیں تھکن، کوفت یا پریشانی کا احساس نہیں ہوتا، وہ پُر مسرت اور خوش گوار زندگی گزارتےہیں۔لیکن ہمارے معاشرے میں ایسے نوجوانوں کی بھی کمی نہیں ہے، جو متعلقہ شعبے میں نوکری نہ ملنے کے باعث کسی دوسرے شعبے میں نوکری کرنے پر مجبور اور اس بنا پر خود کو ناکام تصور کرتے ہیں، حالاں کہ ایسا نہیں ہے، اگر آپ کو، کوشش کرنے کے باوجود اپنے شعبے میں ملازمت نہیںمل رہی لیکن ، آپ ہمت ہارنے کے بجائے دوسری جگہ نوکری کر رہے ہیں ، تو اس میں بھی آپ کی کام یابی ہی ہے، کیوں کہ مایوس ہو کر گھر بیٹھ جانا انتہائی آسان ہے، مگر مشکلات کا ڈٹ کر مقابلہ کرنا ہر کسی کے بس کی بات نہیں۔ ایسے نوجوان، جو خود کو ناکام سمجھتے ہیں، وہ ان باتوں پر عمل کر کے اپنی خود اعتمادی بحال کر سکتےاوراپنی ناکامی کو کام یابی میں بدل سکتے ہیں۔ ہر انسان کو اپنی خوبیوں اور خامیوں کابہ خوبی اندازہ ہوتا ہے، کام یابی کا اہم راز یہ ہے کہ کوئی ایسا کام کرنےکی کوشش کریں، جو آپ کے ذوق کے مطابق ہو اگر یہ ممکن نہیں تو ، جو بھی کام کریں اس لگن کے ساتھ کریں کہ اس میں آپ کا شوق خود بہ خود پیدا ہوجائے۔مطالعے اور مشاہدے سے کوئی بھی کام بآسانی سیکھا جا سکتا ہے اورمشاہدے سے سیکھی ہوئی چیزیںبآسانی ذہن نشین ہو جاتیں، لمبی مدت تک یاد رہتی ہیں۔ اگر معاملہ اس کے بر عکس ہو تو ، ہمارا ذہن اسے فراموش کر دیتا ہے، ا س لیےضروری ہے کہ ، جو کام آپ کر رہے ہوں اس سے متعلق مکمل معلومات حاصل ، دل چسپی پیدا کریںاور اس میں مہارت حاصل کرنے کی کوشش کریں۔ایسے کاموں کو ہر گز نہ کریں، جنہیں کرنے سے آپ ذہنی کوفت یا انتشار کا شکار ہوتے ہوں، کیوں کہ وہ کبھی خوشی یا سکون کا باعث نہیں بن سکتے۔ مشکلات اور سختیاں ارادے میں پختگی اور مضبوطی کا باعث بنتی ہیں۔ مضبوط قوت ارادی کے ذریعے ہی منزل کی راہ میںحائل رکاوٹوں کو ہٹایا جا سکتا ہے، اس لیے ،ہر کام کا آغاز مضبوط قوت ارادی اورکام یاب ہونے کے جذبے کے ساتھ کریںپھرمنزل تک پہنچنے کی تگ دو میں لگ جائیں۔جذبہ ایک ایسا ہتھیار ہے، جو ہماری پوشیدہ قوتوں کو بیدار کرتاہے، اس لیے جذبے کے بغیر فتح کا حصول ناممکن ہے۔

آپ کسی لکڑی پر کلہاڑی سے مسلسل ضرب لگاتے ہیں، کچھ ضربیں لگانے کے بعد لکڑی دو حصوں میں تقسیم ہو جاتی ہے، آپ آخری ضرب کو ہی کام یابی سمجھتے ہیں ، جب کہ کام یابی آخری ضرب لگانے سے حاصل نہیں ہوتی بلکہ مسلسل ضرب لگانے سے حاصل ہوتی ہے۔ اس لیے منزل کے حصول کے لیے ،ایک اہم راز مسلسل جدو جہد ہے، اس کے بغیر آپ کبھی فتح یاب نہیں ہو سکتے۔اس کے اسباب میں سے ایک اہم سبب یکسوئی بھی ہے، یہ فکر اور سوچ کو ایک نقطہ پر مرکوز رکھتی ہے، جس سے انسان کے سامنے آنے والی مشکلات اس کے سامنے سے اُٹھ جاتی ہیں۔ دیکھا گیا ہے کہ جب بھی کوئی شخص مثبت سمت میں کام کرتا ہے، جہاں اس کے بہت سے لوگ حامی اور مدد گار ہوتے ہیں، وہاں اس کی مخالفت کرنے والے بھی کم نہیں ہوتے، ایسے حالات میں مایوس نہیں ہونا چاہیے، ثابت قدم رہتے ہوئے اپنا راستہ خود تلاش کرنا چاہیے۔ اس کے لیےآپ کو اپنے اندر یقین کی قوت پیدا کرنی ہوگی،یقین ایک ایسا سرمایہ ہے، جس کی بہ دولت کام یابی کے لیے منزل مقصود، ہدف اور مقاصد کو حاصل کیا جا تا ہے۔ کام یابی کا یقین زندگی کے سخت لمحات میں بھی کوشش سے دست بردار نہیں ہونے دیتا۔یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ، اکثر اوقات باربار کوشش کرنےکے باوجود انسان ناکامی سے دوچار رہتا ہے،ایسے حالات میں مایوس نہیں ہونا چاہیے۔ تاریخ گواہ ہے کہ انسانوں کو بہت سی کام یابیاں، ناکامیوں کے بعد ہی نصیب ہوئی ہیں، کیوں کہ شکست کھانے والے ایک نئے عزم کے ساتھ کوشش کرتے اور منزل پر پہنچ کر ہی دم لیتے ہیں۔یاد رکھیے!شکست چاہے کتنی بھی بڑی کیوں نہ ہو،دیر پا نہیں ہوتی، اسے صرف اور صرف جہد مسلسل اور یکسوئی کے ذریعے ہی شکست دیا جا سکتا ہے۔یہ بات بھی ذہن میں رکھنی چاہیے کہ کام یابی کا انحصار اس بات پر نہیں ہوتا کہ آپ زندگی میں کس مقام پر پہنچے ہیں بلکہ ، فیصلہ اس بات سے ہوتا ہے کہ آپ نے مشکلات اور نا مساعدحالات کےباوجود ہمت نہیں ہاری ، منزل مقصود پر پہنچ کر ہی دم لیا اور دشواریوں پر قابو پایا۔

یاد رکھیں! زندگی ایک طویل تھکا دینے والے سفر کا نام ہے، اس میں وہی اپنی منزل پر پہنچتے ہیں، جو راستے کی تمام رکاوٹوں کو ہٹاتے ہوئے آگے بڑھتے جاتے ہیں۔