موجودہ حالات میں توبہ و استغفار اور رُجوع الیٰ اللہ کی ضرورت و اہمیت

March 20, 2020

اس وقت کرونا وائرس کی وبا پوری دنیا میں بڑی تیزی سے پھیل رہی ہے۔ حالیہ وبا میں جسے اہلِ ایمان کے لیے اللہ کی طرف سے انتباہ، ابتلا، آزمائش کا لمحہ اور قیامتِ صغریٰ کہا جاسکتا ہے۔ یہ ملکی سانحہ اور سخت آزمائش کا لمحہ ہے۔ اس مشکل گھڑی میں گناہوں پر ندامت، توبہ و مناجات اور خصوصی دعائوں کے اہتمام اور اللہ کی طرف رجوع کرنے کی ضرورت ہے۔

قرآنِ کریم میں ارشادِ ربّانی ہے: (ترجمہ) ’’اور ہم کسی نہ کسی طرح تمہاری آزمائش ضرور کریں گے، کسی قدر خوف، بُھوک، مال اور جانوں اور پھلوں کی کمی سے، تو (آزمائش کی اس گھڑی میں) صبر کرنے والوں کو اللہ کی خُوشنودی کی بشارت سُنادیجیے، کہ جب اُنہیں کوئی (آزمائش اور) مصیبت پیش آتی ہے تو وہ کہہ دیا کرتے ہیں کہ ہم تو خود اللہ کی ملکیت ہیں اور ہم اُسی کی طرف لوٹنے والے ہیں، اُن پر اُن کے رب کی نوازشیں اور رحمتیں ہیں اور یہی لوگ ہدایت یافتہ ہیں۔‘‘ (سُورۃ البقرہ / 155۔ 157)

ترجمہ:”اور اگر ان بستیوں والے ایمان لے آتے اور تقویٰ اختیار کرتے تو ہم ان پر آسمان اور زمین سے برکتیں کھول دیتے، لیکن انہوں نے جھٹلایا تو ہم نے ان کے اعمال کی وجہ سے ان کو پکڑ لیا“۔(سورۃ الاعراف:۹۶)یعنی ایمان اور تقویٰ( اعمالِ صالحہ) برکت وخوشحالی کا ذریعہ اور بُرے اعمال عذاب وپکڑ اور پریشانی کا سبب ہیں۔

ترجمہ:”اور اے میری قوم! تم اپنے گناہ اپنے رب سے معاف کراؤ اور اس کے سامنے توبہ کرو، وہ تم پر خوب بارش برسائے گا اورتمہیں قوّت دے کر تمہاری قوّت میں زیادتی کرے گا اور مجرم رہ کر اعراض مت کرو“۔(سورہ ٔہود:۵۲)ترجمہ: ”تو میں نے کہا کہ گناہ بخشواؤ اپنے رب سے، بے شک وہ بخشنے والا ہے، تم پر آسمان کی دھاریں (تیز بارشیں) برسائے گا اور بڑھادے گا تم کو مال اور بیٹوں سے اور بنادے گا تمہارے واسطے باغ اور بنادے گا تمہارے لیے نہریں“۔(نوح:۱۲)ان آیات میں نعمتوں اور برکات کے حصول کا طریقہ گناہوں سے توبہ، استغفار اور تقویٰ کو بیان فرمایا ہے، جب معلوم ہوا کہ گناہوں کا چھوڑنا اور توبہ کرنا مال واولاد کی کثرت اور خوشحالی کا سبب ہے تو اس سے لازمی طور صاحبِ عقل وشعور یہی نتیجہ نکالے گا کہ” گناہ اور نافرمانی، نعمتوں میں کمی اور بدحالی کا سبب ہے“۔

آپ ﷺ نے فرمایا:” اس وقت کیا ہوگا؟ جب پانچ چیزیں تم میں پیدا ہوجائیں گی اور میں اللہ تعالیٰ سے پناہ مانگتا ہوں کہ وہ تم میں پیدا ہوں یا تم ان (پانچ چیزوں) کو پاؤ، (وہ یہ ہیں):

۱-بے حیائی: جسے کسی قوم میں علانیہ (ظاہراً) کیا جاتا ہو تو اس میں طاعون اور وہ بیماریاں پیدا ہوتی ہیں جو ان سے پہلوؤں میں نہیں تھیں۔

۲- اور جو قوم زکوٰۃ سے رک جاتی ہے تو وہ (درحقیقت) آسمان سے ہونے والی بارش کو روکتی ہے اور اگر جانور نہ ہوتے تو ان پر بارش برستی ہی نہیں۔

۳-اور جو قوم ناپ تول میں کمی کرتی ہے تو وہ قحط سالی، رزق کی تنگی اور بادشاہوں کے ظلم میں گرفتار ہوجاتی ہے۔

۴- اور امراء جب اللہ تعالیٰ کے نازل کردہ احکام کے بغیر فیصلے کرتے ہیں تو ان پر دشمن مسلط ہوجاتا ہے جو ان سے ان کی بعض چیزوں کو چھین لیتا ہے۔

۵- اور جب اللہ تعالیٰ کی کتاب اور نبی ﷺ کی سنت کو چھوڑتے ہیں تو اللہ تعالیٰ ان کے آپس میں جھگڑے پیدا کردیتا ہے“۔ (الترغیب،ج:۳،ص:۱۶۹)

رسولِ اکرم ﷺ کاارشادگرامی ہےکہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے ، جو بندہ میرا قرب حاصل کرنے کے لیے اور میری اطاعت و فرماں برداری کی راہ میں میری طرف بالشت بھر آگے بڑھتا ہے، میں اُس کی طرف ہاتھ بھر بڑھتا ہوں، اور جو میری طرف ہاتھ بھر آگے بڑھتا ہے، میں گز بھر اُس کی طرف بڑھتا ہوں، اگر میرا بندہ چلتا ہوا میری طرف آئے تو میں دوڑتا ہُوا اُس کی جانب بڑھتا ہوں۔‘‘اسی طرح ارشادِ نبویؐ کے مطابق گناہوں سے توبہ کرنے والا ایسا ہے،گویا اُس نے گناہ کیا ہی نہیں۔ (سنن ابنِ ماجہ)

بیش تر مواقع پر قدرتی آفات اور آسمانی مصائب اللہ کی طرف سے مقررکردہ طرزِ زندگی سے انحراف، سرکشی اور بغاوت کا نتیجہ ہوتے ہیں۔ یہ درحقیقت اللہ کی جانب سے انتباہ اور یاد دہانی ہوتے ہیں کہ اللہ کے احکام کی خلاف ورزی اور اُس کی نافرمانی چھوڑکر اللہ کے دامنِ رحمت میں پناہ تلاش کی جائے۔’’سُورۂ توبہ‘‘ میں ارشاد ہوتا ہے: ’’کیا یہ لوگ نہیں دیکھتے کہ ہم اُنہیں سال میں ایک دو مرتبہ کسی نہ کسی آزمائش میں مبتلا کردیتے ہیں، کیا یہ یاد دہانی بھی انہیں اس بات پر آمادہ نہیں کرتی کہ اپنے گناہوں سے توبہ کریں اور نصیحت پکڑیں۔‘‘ (سورۃ التوبہ)

ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اللہ کے حضور توبہ واستغفار کریں اور راضی کرنے والے اعمال میں لگ جائیں،صدقہ وخیرات کی کثرت کریں،کیوںکہ یہ اللہ رب العزت کو بہت زیادہ پسند ہے اور اس کے ذریعے اس کی ناراضی دور ہوتی ہے۔

ہمیں یہ حکم ہے کہ اللہ کی رحمت سے کسی صورت اورکبھی بھی مایوس نہ ہوں، اُس کے دامنِ رحمت سے وابستہ رہنے، دین پر عمل کرنے، عبرت و نصیحت حاصل کرنے میں ہی عافیت ہے۔ اللہ کی رحمت کا دامن جس قدر وسیع ہے، اُس کے عفو وکرم اور درگزر کا بھی کوئی ٹھکانہ نہیں۔ یہاں تک کہ وہ اپنی رحمت سے مایوس ہوجانے والوں سے بھی ناراضی کا اظہار فرماتا ہے، اس حوالے سے ارشاد ہُوا: ’’اللہ کی رحمت سے صرف گُمراہ ہی مایوس ہوسکتے ہیں۔‘‘ (سُورۃ الحجر)

حدیث میں مختلف گناہوں کو مختلف آفات وپریشانیوں کا سبب بتایا گیا ہے، اس قدر صراحت کے بعد بھی کیا اس حقیقت سے انکار ممکن ہے کہ” نافرمانی سببِ پریشانی اور باعثِ عذاب ہے“؟۔

دنیا دارالعمل ہے، مگر کبھی اللہ تعالیٰ اپنی حکمت سے اخروی عذاب کا ایک ادنیٰ سا نمونہ دنیا میں بھی دکھا دیتا ہے، تاکہ انسان نافرمانی سے باز آجائے، جیسا کہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:ترجمہ: ”اور ہم ضرور ان کو قریب کاچھوٹا عذاب چکھائیں گے بڑے عذاب سے پہلے، تاکہ وہ لوٹ آئیں ۔“(سورۃ السجدہ:۲۱)

پریشانی کی دوسری قسم وہ ہوتی ہےجو اللہ تعالیٰ کا عذاب نہیں ہوتی، بلکہ اس کی طرف سے آزمائش ہوتی ہے جو رفع درجات یا گناہوں کے مٹنے کا ذریعہ بنتی ہے اور یہ پریشانی اور تکلیف درحقیقت اللہ تعالیٰ کا فضل اور اس کی رحمت ہوتی ہے کہ اس چھوٹی سے تکلیف کے سبب اللہ تعالیٰ اپنے کمزور بندے کو آخرت کے بڑے عذاب سے بچالیتا ہے یا رفع درجات کی صورت میں اللہ سے رجوع کرنے کی صورت اللہ تعالیٰ سے دعا کرنا ہے، یہ مؤمن کا ہتھیار ہے، اور اس سے مصیبتیں دور ہوتی ہیں، رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا :صرف دعا ہی ایسی چیز ہے، جس سے تقدیر کا فیصلہ بدلتا ہے۔ (ترمذی ) حضرت جابر ؓ سے روایت ہے کہ بندہ جب بھی دعاء کرتا ہے تو یا تو جو مانگتا ہے، اللہ تعالیٰ اسے عطا فرما دیتا ہے، یا اسی کے مثل کوئی اور مفید چیز عنایت کرتا ہے، بشرطیکہ وہ گناہ یا قطع رحمی کی دعا نہ کرے ۔(مسند احمد) سب سے اہم بات یہ ہے کہ دعا سے انسان کو اللہ تعالیٰ کی معیت نصیب ہوتی ہے، اور بندے کو اللہ کا ساتھ مل جائے، اس سے اہم بات اور کیا ہو سکتی ہے۔ چنانچہ حضرت ابوہریرہؓسے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا: میرا بندہ مجھ سے جو گمان رکھتا ہے، میں اسی کے مطابق اس کے ساتھ عمل کرتا ہوں،اور جب وہ مجھ سے دعا کرتا ہے تو میں اس کے ساتھ ہوتا ہوں۔ (صحیح مسلم)

دعا کی ایک صورت استغفار ہے، یہ بھی مصیبتوں سے نجات پانے کا ایک غیبی نسخہ ہے، رسول اللہ ﷺنے ارشاد فرمایا: جو استغفار کا اہتمام کرے، اللہ تعالیٰ اس کے لئے مصیبت سے باہر نکلنے کا راستہ بنا دیتا ہے، ہر فکر سے نجات عطا فرماتا ہے۔(سنن ابو داؤد) اس لئے استغفار کا بھی خصوصی اہتمام کرنا چاہئے۔

اسی طرح درود شریف کی کثرت کرنی چاہئے، کیوں کہ ایک دفعہ آپ ﷺ پر درود پڑھا جائے تو اللہ کی طرف سے دس رحمتیں نازل ہوتی ہیں۔ رحمتوں کے نازل ہونے میں مصیبتوں کا دور ہونا بھی شامل ہے۔اس لئے دعا کے ساتھ ساتھ استغفار اور درور شریف کی کثرت کی جائے۔

حاصل یہ ہے کہ ہمیں اِن حالات سے گھبرانا نہیں چاہئے، اللہ پر بھروسا رکھنا چاہئے، اللہ تعالیٰ کے نظامِ غیب پر یقین کے ساتھ پوری توجہ دی جائے، اور دعاء والتجاء کا عمل بھی جاری رہے، تو جب انسانی کوشش اور تدبیر کے ساتھ رجوع الیٰ اللہ کا عمل جمع ہو جائے تو ان شاء اللہ ضروروبائی امراض سے نجات اور حفاظت حاصل ہوگی۔