شہباز شریف کی وطن واپسی

March 25, 2020

مسلم لیگ(ن) کے سربراہ اور قائدِ حزب اختلاف شہباز شریف کے اچانک واپس پاکستان آنے کے فیصلے نے حکومتی حلقوں میں ہلچل پیدا کردی ہے۔

شہباز شریف کی وطن واپسی کے اعلان کو ابتدا میں حکومت نے محض ایک بیان سمجھا اور اِسے سنجیدگی سے نہیں لیا تاہم جب وطن واپسی سے قبل شہباز شریف کی تصاویر سوشل میڈیا پر وائرل ہوئیں جن میں اُن کی والدہ اور بڑے بھائی نواز شریف اُنہیں چومتے ہوئے رخصت کررہے ہیں۔

حکومتی وزرا حواس باختہ ہوئے اور ایک وفاقی وزیر نے وزیراعظم سے درخواست کی کہ شہباز شریف کو وطن واپسی پر 14دن کیلئے قرنطینہ میں رکھا جائے تاکہ اُنہیں عوام سے دور رکھا جا سکے اور وطن واپس آکر وہ اپنی سیاسی سرگرمیاں جاری نہ رکھ سکیں۔

پاکستان پہنچنے پر شہباز شریف کا کہنا تھا کہ ایسے میں جب ملک کورونا وائرس کی لپیٹ میں ہے، عوام کو میری اشد ضرورت ہے جس کے پیش نظر میں نے وطن واپسی کا فیصلہ کیا۔ یاد رہے کہ 4ماہ قبل شہباز شریف اپنے بھائی نواز شریف کو علاج کی غرض سے لندن لے گئے تھے۔

ملک میں کورونا وائرس سے نمٹنے کیلئے تمام صوبائی حکومتیں اپنی بساط کے مطابق اقدامات کررہی ہیں۔ اس سلسلے میں وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ، شہباز شریف کے نقش قدم پر چلتے ہوئے دوسرے صوبوں کے مقابلے میں کورونا وائرس سے نمٹنے کیلئے انتہائی سرگرم نظر آئے جس پر اُنہیں عوام میں خاصی پذیرائی مل رہی ہے اور اُن کے کام کو شہباز شریف کے پیمانے پر جانچنے کی کوشش کی جارہی ہے اور انہیں ’’سندھ کا شہباز شریف‘‘ قرار دیا جارہا ہے مگر دوسرے صوبوں میں پی ٹی آئی حکومت کورونا وائرس کے خلاف خاطر خواہ اقدامات کرنے میں ناکام رہی اور اس دوران مسلم لیگ (ن) کی اعلیٰ قیادت ملک سے باہر ہونے کے باعث پنجاب کے عوام شہباز شریف کی کمی شدت سے محسوس کررہے تھے تاہم ان کی وطن واپسی سے پنجاب کے عوام کو ہمت اور ڈھارس ملی ہے۔

یہ بات عیاں ہے کہ ایسے میں جب پاکستان میں تمام سیاسی سرگرمیاں ماند ہیں، شہباز شریف کے اچانک وطن واپس پہنچنے کا مقصد سیاسی سرگرمیوں میں قطعاً حصہ لینا نہیں بلکہ موجودہ صورتحال میں اپنی صلاحیتوں اور تجربات کے پیش نظر پاکستان بالخصوص پنجاب کے عوام کو کورونا وائرس کے اثرات سے نکالنا ہے۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ شہباز شریف نے اپنے گزشتہ دور حکومت میں ڈینگی سے نبرد آزما ہونے میں خدمت کی جو مثال قائم کی، وہ لوگوں کے ذہنوں میں آج بھی تازہ ہے جس کا اعتراف اُن کے مخالفین بھی کرتے ہیں۔ شہباز شریف نے ڈینگی سے نمٹنے کیلئے 96دن تک مسلسل میٹنگز کیں جو صبح 6سے 8بجے تک جاری رہتی تھیں جس میں 38صوبائی سیکریٹریز سمیت لاہور کے تمام ایم پی ایز اور ایل ڈی اے کی مینجمنٹ شامل ہوتی تھی۔

یہ میٹنگ کبھی بھی معطل نہیں ہوئی۔ میٹنگ میں شریک لوگوں کو اہداف دیئے جاتے تھے جو اگلے روز اہداف پر پروگریس کے تصویری ثبوت لے کر میٹنگ میں آتے تھے۔ اُن کی درخواست پر سری لنکا کی حکومت نے ڈاکٹروں اور ڈینگی ماہرین کو پاکستان بھیجا اور سری لنکا آج بھی شہباز شریف کی خدمات کا معترف ہے۔

شہباز شریف نے اپنے دور حکومت میں ڈینگی ٹیسٹ کی قیمت 80روپے مقرر کررکھی تھی مگر آج کورونا وائرس کا ٹیسٹ 8سے 10ہزار روپے میں ہورہا ہے جو غریب اور متوسط طبقے کی استطاعت سے باہر ہے۔ ساتھ ہی مارکیٹ میں ماسک اور ہاتھ دھونے والے سینی ٹائزر فروخت کرنے والے من مانی قیمتیں وصول کررہے ہیں مگر حکومت تماشائی بنی بیٹھی ہے۔

شہباز شریف کےدور حکومت میں پی ٹی آئی کے سربراہ عمران خان اور اُن کے ساتھی، نواز شریف اور شہباز شریف کو ’’ڈینگی برادران‘‘ کہہ کر مذاق اڑایا کرتے تھے مگر ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہئے کہ انسان کو سرخرو کرنے کے اللہ کے اپنے طریقے ہیں۔

کہتے ہیں کہ انسان نہیں بلکہ اُس کے کام یاد رہتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ آج پورا ملک بالخصوص پنجاب کے عوام ڈینگی کو قابو پانے کیلئے شہباز شریف کی خدمات کو یاد کررہے ہیں اور ان کی طرف امید بھری نظروں سے دیکھ رہے ہیں۔

شہباز شریف وطن پہنچتے ہی ملک کو درپیش کرونا وائرس سے نمٹنے کیلئے سرگرم ہو گئے ہیں اور انہوں نے حکومت کو اتفاق اسپتال سمیت شریف گروپ کے تمام اسپتال قرنطینہ سینٹر کے طور پر استعمال کرنے کی پیشکش کی ہے جبکہ کورونا سے نمٹنے کیلئے پارٹی سطح پر دو کمیٹیاں بھی تشکیل دی ہیں جو کورونا کی مانیٹرنگ اور عوام کی مدد کیلئے سفارشات تیار کرے گی۔

یہ بات بھی خوش آئند ہے کہ پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو نے شہباز شریف کی وطن واپسی کو مثبت قدم قرار دیا ہے اور کورونا وائرس سے نمٹنے کیلئے حکومت کو اپنے مکمل تعاون کا یقین دلایا ہے۔

مسلم لیگ(ن) کے قائد میاں نواز شریف کا آئندہ ہفتے دل کا آپریشن متوقع ہے اور ایسے وقت میں شہباز شریف کا اپنے بھائی کو چھوڑ کر وطن واپس آنے کا فیصلہ یقیناً قابل تحسین اور ایک مثبت قدم ہے جس پر حکومت کو سیاست چمکانے کے بجائے اِس فیصلے کو فراخدلی سے سراہتے ہوئے شہباز شریف کی صلاحیتوں اور تجربات سے استفادہ حاصل کرنا چاہئے۔ ہمیں نہیں بھولنا چاہئے کہ کورونا وائرس کا مقابلہ ملی یکجہتی سے ہی ممکن ہے۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)