اور اولمپک ملتوی ہو گئے؟

March 25, 2020

چار سال کی انتھک محنت اور ساڑھے بارہ ارب ڈالر کے اخراجات، ٹوکیو میں ایک نئے شہر کی تعمیر کے باوجود کورونا وائرس کی دہشت نے ٹوکیو اولمپک کو ملتوی کرا ہی دیا ہے۔

جی ہاں یہ کوئی چھوٹی بات نہیں ہے، اولمپک کی میزبانی کسی بھی ملک کیلئے ایک خواب ہی نہیں بلکہ اعزاز بھی ہوتا ہے۔

جاپان میں بھی گزشتہ چار برسوں سے اولمپک مقابلوں کی تیاری زور و شور سے جاری تھی تاہم موجودہ سال کے پہلے مہینے میں جب کورونا وائرس نے انسانیت کو متاثر کرنا شروع کیا تھا اس وقت بھی کسی نے سوچا نہ تھا کہ یہ وائرس اتنی خطرناک وبا کی صورت اختیار کرلے گا کہ عالمی برادری اتنے بڑے فیصلے لینے پر مجبور ہو جائیگی۔

صرف چند دن قبل تک اولمپک کے حوالے سے یہ اطلاعات آرہی تھیں کہ جاپان میں اولمپک مقابلوں کو انتہائی سخت حفاظتی اقدامات کے ساتھ بغیر تماشائیوں کے منعقد کرا دینا چاہئے تاکہ لوگ اپنے گھروں میں بیٹھ کر لطف اندوز ہو سکیں۔

تاہم کورونا وائرس سے ہونے والے نقصانات کو دیکھتے ہوئے پہلی دفعہ جاپانی وزیراعظم شنزو آبے نے پارلیمنٹ میں اپنے خطاب میں اس بات کا امکان ظاہر کیا ہے کہ اگلے چند دنوں میں اس بات کا فیصلہ کیا جا سکتا ہے کہ اولمپک مقابلوں کو ایک سال کیلئے موخر کر دیا جائے تاہم یہ دیکھنا ہوگا کہ یہ مقابلے چھ ماہ، ایک سال یا دو سال کیلئے موخر کیے جاتے ہیں تاہم اس وقت جاپان اولمپک کمیٹی مقابلوں کو ملتوی کرتے وقت شدید مایوسی کا شکار ہوگی ۔

دن رات محنت کرکے جاپانی اولمپک کمیٹی اور اس کے ذیلی اداروں نے ساڑھے بارہ ارب ڈالر کے اخراجات سے اولمپک مقابلوں کیلئے ٹوکیو کو کھلاڑیوں اور شائقین کیلئے تیار کیا تھا۔

چند اہم ترین اقدامات سے قارئین کو آگاہ کرتے ہیں جو حکومتِ جاپان نے اولمپک مقابلوں کے انعقاد کیلئے ٹوکیو میں کر رکھے تھے تاکہ بیرون ملک سے آنے والے شائقین اور کھلاڑیوں کو جاپان میں کسی طرح کی مشکلات پیش نہ آسکیں۔

جاپان کیونکہ ایک ایسا ملک ہے جہاں انگریزی کم بولی اور سمجھی جاتی ہے لہٰذا جاپانی حکومت نے ٹوکیو میں غیرملکی سیاحوں کیلئے انگریزی سائن بورڈز، راستوں اور ٹرین اسٹیشنز پر انگریزی میں تحریر کردہ بورڈز آویزاں کردیئے تاکہ کوئی غیرملکی جاپانی زبان سے نابلد بھی ہو وہ باآسانی اپنی منزلِ مقصود پر پہنچ سکے۔

اس کے علاوہ جاپانی حکومت نے دو لاکھ کے لگ بھگ جاپانی اور غیرملکی شہریوں کی خدمات بھی حاصل کی تھیں جو اولمپک کے دنوں میں دنیا کی ہر زبان میں دنیا بھر سے آنے والے شائقین کی رہنمائی کر سکیں گے۔

ان دو لاکھ رضا کاروں میں أردو زبان سے واقفیت رکھنے والے رضا کار بھی شامل تھے جبکہ عربی، ہندی، بنگالی، سری لنکن، فرنچ، اٹالین، فارسی اور انگریزی زبان پر عبور کرنے والے رضا کار بھی تھے۔

جاپانی حکام کے مطابق اولمپک کے دنوں میں دس لاکھ سے زائد سیاحوں کی جاپان آمد متوقع تھی لہٰذا ان سیاحوں کی دلچسپی کیلئے جاپان کے کلچرل اور سیاحوں کے پسندیدہ مقامات کو مزید دلکش بنایا گیا تھا۔ اس کے ساتھ ہی جاپانی حکومت نے جاپان میں ریلوے سروس، بس سروس، ٹیکسی سروس، ہوائی جہاز کی سروس کو غیرملکی سیاحوں کیلئے انتہائی سادہ اور آسان کردیا جس کی بدولت جاپانی زبان سے نابلد سیاح بھی باآسانی جاپان بھر میں گھوم پھر سکیں گے۔

اولمپک مقابلوں میں عرب ممالک سمیت دنیا بھر سے مسلمان تماشائیوں کی بھی بہت بڑی تعداد متوقع تھی اس لئے جاپان میں گزشتہ تین برسوں سے حلال سرٹیفائیڈ ریستورانوں اور دیگر اشیا کی حلال سرٹیفیکیشن انتہائی زوروں پر ہے اور اب ٹوکیو میں بڑی تعداد میں حلال ریستوران موجود ہیں جبکہ مسلمانوں کیلئے خصوصی مصلے اور نماز پڑھنے کی جگہیں مختص کی گئیں جبکہ موبائل مساجد بھی تعمیر کی گئی ہیں۔ تمباکو نوشی کیلئے بھی ریستورانوں میں خصوصی مقامات مختص کیے گئے۔

اس کے علاوہ ٹوکیو میں اولمپک مقابلوں کیلئے انتہائی خوبصورت اسٹیڈیم تعمیر کیا گیا جس میں دنیا کی بہترین سہولتیں فراہم کی گئی ہیں۔ اس اسٹیڈیم میں اسی ہزار تماشائیوں کی گنجائش موجود ہے۔ اس اسٹیڈیم کی تعمیر پر ایک سو تین ارب ین یعنی پاکستانی ایک سو ساٹھ ارب روپے کے اخراجات آئے ہیں۔

کچھ ایسے اقدامات بھی کیے گئے ہیں جس میں دنیا کیلئے ایک سبق بھی ہے جیسا کہ اولمپک مقابلوں کیلئے کھلاڑیوں کیلئے یونیفارم ریسائیکل یعنی استعمال شدہ کپڑوں سے تیار کیے گئے ہیں۔ اولمپک میڈل بھی چندے کے طور پر لیے گئے میٹریل سے تیار کیے گئے جبکہ ٹوکیو کے تمام اسٹورز سے غیراخلاقی میگزین کی فروخت پر پابندی عائد کردی گئی ہے، ساتھ ہی اولمپک مقابلوں کیلئے ایک نئی بلٹ ٹرین بھی تیار کی گئی ہے جس کی رفتار تین سو تریپن کلومیٹر فی گھنٹہ ہوگی۔

غرض جاپان اولمپک کا التوا جاپانی حکومت اور عوام کیلئے باعث افسوس ضرور ہو سکتا ہے تاہم کورونا کی وبا کے دنوں میں انسانیت کی بقا کیلئے یہ انتہائی ضروری اقدام تھا۔ توقع اور امید ہے کہ اگلے سال جاپان ایک یادگار اولمپک کرانے میں کامیاب ہوگا جبکہ دنیا بھی کورونا جیسی مہلک وبا سے نجات پا چکی ہو گی۔