کورونا وائرس، تعلیم پر بھی اثر انداز

April 25, 2020

دنیا بھر میں کورونا وائرس کی تباہ کاریوں نےنا صرف دنیا بدل کر رکھ دی بلکہ کار ِدنیاہی لپیٹ دیا ہے،اس وبا ء کے وار سے پاکستان بھی محفوظ نہ رہ سکا اور دیگر کاروبار زندگی کے ساتھ تعلیمی اداروں میں بھی تالا لگ گیا،پبلک اور پرائیویٹ تعلیمی ادارے، گرمیوں کی چھٹیوں سے پہلے ہی بند کر دیئے گئے، اس سے تعلیم کا جو نقصان ہوا اس کا ازالہ کرنے کے لیےدنیا بھر کی طرح پاکستان میں بھی آن لائن تدریس کے حوالے سے کچھ اقدامات کیے گئے،تاہم خاطر خواہ پیش رفت دکھائی نہ دی ۔اس حوالے سے ہم نے ماہرین تعلیم سے گفت گو کی،نزر قارئین ہے:

مہتاب راشدی:

اس وقت پوری دنیا جس اُفتاد میں مبتلا ہے، پاکستان بھی باقی دنیا کے ساتھ اس وباء سے نمٹنے میں مصروف ہے۔ سندھ حکومت نے حالات کی سنگینی کا بڑی جلدی اندازہ لگالیا اور وسائل کا رخ اس مسئلے کے حل کی طرف موڑ دیا۔ میرے نزدیک سندھ حکومت کے اقدامات قابل تعریف ہیں۔اس خطرناک وائرس کےنمودار ہونے سے سب سے پہلے تو اپنے آپ کو اوراپنے بچوں کو محفوظ رکھنا ازحد ضروری ہے ۔ لہٰذا سکول فوری طور پر بند کرنا ہی صحیح فیصلہ تھا۔ ان دیکھی اور غیر یقینی صورتحال کا تقاضا یہی تھا کہ فوری طور پر گرمیوں کی چھٹیوں کا اعلان کر دیا گیا۔

تعلیم کا ایک طرح سے نقصان تو ہوا ہے کہ کورس مکمل کرنے کے لئے شاید درکار عرصہ کم پڑے گا ۔ اس سلسلے میں بہت سارے پرائیویٹ اسکولوں نے تو Online Virtualکلاسز بھی دیں ہیں اور جن اسکولوں کے پاس یہ سہولتیں نہیں تھیں وہ گھروں پر بچوں کو روزمرہ کا کام بھیج کر انہیں مصروف رکھتے رہے، لیکن یہ طریقہ کار بہت سے پرائیویٹ اسکولوں نے اختیار نہیں کیا ، لہٰذا حالات ٹھیک ہونے کے بعدانہیں تدریس کے اوقات (غالباً) بڑھانے پڑیں گے اور چھٹیاں کم کرنی پڑیں گی۔مضامین کو ترجیحات کے لحاظ سے وقت دینا ہو گا۔ چھوٹی کلاسز میں شاگرد کی پچھلی کارکردگی کی بناء پر انہیں اگلی کلاس میں بھیجا جاسکتا ہے۔ بڑی کلاسز میں بنیادی ضروری مضامین کا ٹیسٹ لے کر شاگردوں کی قابلیت پر انہیں پاس کیا جاسکتا ہے۔سرکاری اسکولوں کے حالات البتہ دگرگوں ہیںکیونکہ سندھ میں تعلیم کا شعبہ پچھلے کئی برسوں سے اپنی کارکردگی میں کافی پیچھے رہا ہے۔ سیاسی سفارشوں اور کاپی کلچر سے ڈگری حاصل کرنے والے اساتذہ نے ہماری نسل کی تعلیمی استعداد کو ایک سوالیہ نشان بنا دیاہے۔ کورونا وائرس کے نتیجے میں پوری دنیا کو اپنی بہت ساری پالیسیوں پر نظرثانی کرنا ہوگی ۔ اسی طرح سندھ حکومت کو بھی، سیاسی قیادت کو خوش کرنےکے بجائے اپنے بچوں کے مستقبل سنوارنے کے لئے بالکل اسی طرح کے مشکل فیصلے کرنے پڑیں گے جو انہوں نے ، اس وبا سے بچنے کے لئے کئے۔ ہماری بقا اور مستقبل کا تحفظ صحیح اور معیاری تعلیم کو یقینی بنانے میں ہے۔

حکومت کو تمام سیاسی وابستگیوں سے بالاتر رہ کر صلاحیت (merit) کو ترجیح دینی پڑے گی۔ اپنےپیشےسے محبت کرنے والے اور باصلاحیت اساتذہ کے ہاتھوں میں اپنا مستقبل (ہمارے بچے) دینا پڑے گا۔ مستعد اور غیر جانبدار منتظم رکھنے پڑیں گے۔ اساتذہ کی صلاحیتوں کو اجاگر کرنے اور نئے تعلیمی طریقہ کار اپنانے کے لئے ٹریننگ کورسز کروانے پڑیں گے۔ ان کی Capacity Buildingکو یقینی بنانا پڑے گا۔ تعلیمی بورڈز میں سے بدعنوانی کو جڑ سے اُکھاڑنا ہوگا۔اس ایک شعبے سے (کم از کم )سفارش کا دروازہ بند کرناپڑے گا۔ نصاب کو باقی دنیا سے ہم آہنگ کرنا ہوگا۔ شہر اور دیہات کی اسکولوں میں بنیادی ضروریات کی فراہمی کو یقینی بنانا پڑے گا اگر ہم یہی کچھ کرلیں تو اس کو آپ کامیابی کی طرف پہلا قدم سمجھیں۔

رفیعہ ملاح

میں سمجھتی ہوں کہ سندھ حکومت نے کورونا وائرس کے حوالے سے انتہائی اہم اقدامات اٹھائے ہیں اور سندھ حکومت کی لیڈرشپ بالخصوص سید مراد علی شاہ ان کی ٹیم نے نہایت سنجیدگی کے ساتھ عوام کی زندگی بچانے کی بھرپور کوشش کی ہے۔ سب سے پہلے سندھ نے ایک بولڈ اسٹیپ اٹھایا اور تمام تعلیمی ادارے بند کیے جہاں ہمارے بچے ہجوم کی صورت جمع ہوتے ہیں تاکہ ہمارے بچے جوکہ نازک ہوتے ہیں ان کی زندگی بچاسکیں۔ اس کے بعد تعلیم اور سیشن کی تکمیل کے لیےجون جولائی سے نئے تعلیمی سال کے آغاز کا فیصلہ کیا اور اپریل مئی کو موسم گرما کی تعطیلات قرار دیا، تاکہ حصول علم کا موقع مل سکے۔

سندھ صوبے کے تمام اسپتال میں قرنطینہ کے لیے کٹس پہنچانا، انتظامات کو دیکھنا یہ سب سندھ کے چیف منسٹر بہت سنجیدگی اور خوش اسلوبی سے سرانجام دے رہے ہیں۔ سندھ حکومت کی کارکردگی کی جتنی بھی تعریف کی جائے کم ہے کیونکہ اس وبا نے پوری دُنیا کو لپیٹ میں لیا ہوا ہے اور پوری دُنیا نے بھی یہی اقدامات اٹھائے ہیں تاکہ زیادہ سے زیادہ انسانی جانیں بچائی جاسکیں۔

یہ ایک حقیقت ہے پبلک اور پرائیویٹ اسکول اس وبا کی وجہ سے بند ہوئے اور کلاس کا تسلسل ٹوٹ گیا مگر اس تسلسل کو ہمارے پرائیویٹ سیکٹر /اسکولز نے بخوبی جوڑا اور نبھایاہے۔ جس دن اسکول بند ہونے کا اعلان ہوا جہاں اسکول انتظامیہ ذہنی اور نفسیاتی ڈپریشن کا شکار ہوئی وہیں بروقت انہوں نے گورنمنٹ کا ساتھ دیا اور فی الفور بچوں کو واٹس ایپ گروپ کے ذریعےہوم ورک دینا ، کوریئر سروس کے ذریعے گھروں پر ماہانہ ہوم ورک بھیجنا اور ساتھ ساتھ بڑے بچوں جن میں میٹرک اور اولیول کلاس شامل ہیں انہیں آن لائن کلاسز کا انعقاد کیا جوکہ بہت اچھا اور بر وقت اقدام تھا،یوں ہم کہہ سکتے ہیں سب نے مل کر اپنے اپنے حصے کی شمع روشن کی ہے تاکہ اس مشکل وقت سے نمٹ سکیں۔ہمیں پلاننگ کی بہت ضرورت ہے اور حکومت کو چاہئے وہ نصاب میںایسے مضامین شامل کرے جن سے ایک قومی یکجہتی اور شہری شعور بیدار ہو اور ہر شہری اپنی اپنی ذمہ داری نبھانا جانتا ہو۔ یہ سب اساتذہ کلاس روم کے اندر تب اچھے نمونے سمجھا پائیں گے جب یہ مضامین نصاب میں موجود ہوں گے تاکہ بچوں کے ذہن میں یہ بات اچھی طرح بیٹھ جائے کہ ایمرجنسی کی حالت میں ایک قوم ایک ملت بن کے ہر وباء ہر دشمن کو ہرانا ہے اس کے ساتھ ساتھ ہمیں اپنے اداروں کوبھی انفارمیشن ٹیکنالوجی سےلیس کرنا پڑے گا اور وہ تمام سلیبس جو باقاعدہ کلاس روم میں کروایا جانا چاہئے اس کی پاور پوائنٹ پریزنٹیشن بھی بنائی جائے۔

شاہ پورجمال

جب ہمارا سامنا ایک اتنی تیزی سےپھیلنے والی بیماری سے ہوا تو اس سے نپٹنے کا واحد طریقہ یہی تھاکہ ہم اس وائرس کے ابتدائی پھیلائو کو کم کرنےکے لئے فوری اور فیصلہ کن اقدامات اٹھائیں اگرہم ان اقدامات میں سست روی کا مظاہرہ کرتے تو ہماری صورتحال اٹلی کی مانند ہوسکتی تھی بہت ممکن ہے کہ سندھ حکومت کے فیصلہ کن اقدامات سے بہت ساری زندگیاں بچ گئی ہوں۔ پہلا قدم اسکولوں کو فوری طور پر دو دن کے لئے بند کر دینا تھا جس کی مدت بڑھا دی گئی۔ اسکول، جہاں 25سے 30بچے ایک کمرے میں 6گھنٹے گزارتے ہیں، اس طرح کی پھیلنے والی بیماریوں کے لئے ایک انکیوبیٹر کا کردار ادا کرتے ہیں لہٰذا اسکولوں کو بند کرنا ضروری تھا۔ اگلا انتہائی سمجھدار قدم مرحلوں میں لاک ڈائون نافذ کرنا تھا تاکہ لوگوں کو انتباہ ہوا اور وہ اس کےلئے خود کو تیار کرسکیں۔ پہلے شادی ہال، سنیما ، پارک بازار، مال اور ریستورنٹ بندکر دیئے گئے پھر دفاتر بند کر دیئے گئے اور عام طور پر لاک ڈائون نافذ کردیا گیا تاکہ خوف و ہراس نہ پھیلے۔

شروع میں جب اسکول بند ہوئے تو بہت سے اداروں نے طلباء کو اسکول کا کام گھر پر مکمل کرنے کے لئے بھیجا۔ زیادہ تر اداروں نے آن لائن ذرائع کا استعمال کیا تاہم اسکول اس قسم کی روداد کے لئے تیار نہیں تھے اس لئے مختلف نقطہ نظر اور ذرائع کا استعمال کیا گیا۔ کچھ ادا روں نے ویڈیوز بناکر یوٹیوب پر ڈالیں، کچھ نے زوم کا استعمال کیا اور کچھ اسکولوں نے اپنی اسکول پر مبنی ایپلی کیشنز کے ذریعے اسائنمنٹ، ورک شیٹ اور ویڈیولنک اشتراک سے طلبہ کورہنمائی دی،جس کی وجہ سے طلباء کا کافی کام مکمل ہوسکا باوجود اس کے ،کہ اسکول اس طرح اچانک بند ہونے کی توقع نہیں کررہے تھے۔ آگے بڑھتے ہوئے، جب اسکول کھلیں گے تو انہیں نصاب کے ضروری حصوں یعنی ریاضی، بلند خوانی اور تحریری مہارت پر زیادہ توجہ دینا ہوگی کیونکہ یہ دوسرے تمام مضامین سیکھنے کی بنیاد انہیں پر ہے۔ اس طرح ہم اس بات کو یقینی بنائیں گے کہ جتنا وقت ہمیں میسر ہو، ہم اسی میں اپنے نصاب کا زیادہ سے زیادہ حصہ مکمل کرلیں تاکہ طلباء اگلی کلاس کے لیےتیار ہوں۔

اسکولوں کے اچانک بند ہوجانے سے یہ ہوا ہے کہ اسکولوں کے منتظمین اور اساتذہ پر یہ بات واضح ہوگئی ہے کہ انہیں فاصلاتی تعلیم کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنے کی ضرورت ہے۔ بہت سے اسکولوں نے ’’گوگل‘‘ پر مبنی آن لائن تعلیمی ذرائع کا استعمال شروع کردیا ہے جیسے گوگل کلاس روم،’’ سی سو اور کینوس ‘‘وغیرہ ۔ ایسے بہت سے ذرائع دستیاب ہیں جن میں سے کچھ کا ذکر یہاں کیا گیا ہے۔اگر فاصلاتی تعلیم کو صحیح طریقے سے عمل کیا جائے تو یہ کافی حد تک طلباء کا اساتذہ کے ساتھ کلاس روم میں آمنے سامنے کے تعلق کو برقرار رکھنے کا کردار ادا کرسکتی ہے اور اسکول طویل عرصے تک بند رہنے کی صورت میں تعلیم فراہم کرنے کا واحد ذریعہ ہے۔

حکومت کو بھی تمام طلباء کے لیے انٹرنیٹ کو قابل رسائی بناکر اور سستے سامان، جیسے ٹیبلٹ وغیرہ پر سبسڈی دے کر اپنا کردار ادا کرنا ہوگا تاکہ تمام طلباء کو فاصلاتی تعلیم کے ذرائع دستیاب ہوسکیں۔مزید براں ’’ای۔ لرننگ ‘‘ سے اساتذہ کو اپنی روزمرہ تعلیمی سرگرمیوں میں زیادہ وسیع پیمانے پر ٹیکنالوجی کا استعمال کرنے کا موقع ملے گا ،جس کی وجہ سے وہ اپنے طلباء کو تعلیم کا ایک مختلف اور دلچسپ تجربہ دے سکیں گے۔ لہٰذا پالیسی کے طور پر ’’ای، لرننگ‘‘ کو قومی نصاب کا ایک باقاعدہ حصہ بنایا جانا چاہئے اور اس کے بارے میں اساتذہ کی معلومات میں اضافہ کرنا چاہئے۔ اس کے ساتھ ساتھ فاصلاتی تعلیم کی پروٹوکول کو ہر اسکول کے تعلیمی نصاب کا حصہ ہونا چاہئے۔