کورونا سے بچاؤ کیلئے پاکستانی نوجوانوں کی کوشش

May 04, 2020

چین کے شہر ووہان سے شروع ہونے والا کورونا وائرس دیکھتے ہی دیکھتے پوری دنیا میں پھیل گیا اور اس نے ہر ملک میں اپنا ایسا جال بچھایا کہ اس کا پھیلا ئو روکنادنیا کے لیے خاصا مشکل ہوگیا ۔ پاکستان میں بھی کچھ ایسی ہی صورت حال ہے۔ چناں چہ اس وائرس سے بچاؤ کے لیے کراچی میں قائم ایجو کیشنل روبوٹ بنانے والی ایک نجی کمپنی کی ٹیم نے چند ایسی اشیا تیار کی ہیں جن کے استعمال سے اس وائرس سے محفوظ رہا جاسکتاہے ۔ ان میں فیس پروٹیکٹیو شیلڈ،یووی اسٹرلائزرماسک ، فل باڈی ری یوز ایبل سوٹ اورواک تھروگیٹ شامل ہیں۔یہ پاکستانی نوجوانوں کا اہم کارنامہ ہے ۔

یہ اشیاتیارکرنے والی ٹیم کے سربراہ نبیل نے بتا یا کہ کورونا وائرس کا پھیلاو روکنے کے لیے ہمارے پاس کچھ بھی نہیں تھا تو میں نے اور میری ٹیم نے سوچاکہ کیوں نہ کچھ ایسا بنایا جا ئے جس کے استعمال سے اس وائرس سے محفوظ رہنے کی شر ح بڑھائی جاسکے ۔اس سلسلے میں ہم نے پی پی ای (Personal protective equipment) تیارکرنے کے بارے میںسوچا،کیوں کہ ہمارے سرکاری اسپتالوں میں ان کی کافی کمی بتائی جاتی ہے۔اس ضمن میں میںنے اور میری ٹیم نے رضا کارانہ طور پر ڈاکٹرز کے لیے یہ چار اشیا تیارکی ہیں ۔ فیس شیلڈ کو پہن کر ہم کافی حد تک اس وائرس سے بچ سکتے ہیں ۔اسے ہم نے پی وی سی مٹیریل سے بنایا ہے جو 0.25mmمیں ہوتا ہے ۔

اس کی خاص بات یہ ہے کہ اسےاستعمال کرنے کے بعدگرم پانی سے دھو کردوبارہ استعمال کیا جاسکتا ہے۔ایساکرنے سے اس پر موجود تمام جراثیم مر جاتے ہیں ۔الٹرا وائلٹ یووی اسٹرلائز ر بنانے کا مقصد یہ ہےکہ ڈاکٹرز ایک مرتبہ ماسک استعمال کرنے کے بعد پھینک دیتے ہیں،کیوں کہ اس پر کورونا وائرس لگ جاتا ہے،لیکن اس ماسک کو استعمال کرنے کے بعدیووی اسٹرلائزر میں رکھنے سے اس پر موجود تمام وائرس مر جائیں گے اور اسےبغیر کسی خوف کے دوبارہ استعمال کیا جاسکتا ہے ۔اسےبنانے میں الٹروائلٹ ریز استعمال کی گئی ہیں ۔یہ اسٹرلائز ر عالمی معیار کو مد نظر رکھ کربنایا گیاہے ۔

نبیل کے مطابق عام طورپر طبی عملہ جو فل گون استعمال کرتا ہے وہ ایک مرتبہ استعمال کرنے کے بعد پھینک دیا جاتا ہے،لیکن ان کا تیارکردہ فل باڈی ری یوز ایبل سوٹ ایک مرتبہ استعمال کرنے کے بعد دھوکر دوبارہ استعمال کیا جاسکتا ہے ۔انہوں نے جو واک تھرو گیٹ بنائے ہیں وہ پاکستان کونسل آف سائنٹفک اینڈ انڈسٹریل ریسرچ PCSIRکے بتائے ہوئے فارمولے کے مطابق تیار کیے گئے ہیں، لیکن اسےڈیزائن ان لوگوں نے خودکیا ہے ۔اس کے استعمال سے یہ فائدہ ہوگا کہ جہاں بھی یہ گیٹ لگائے جائیں گے وہاں سے جو بھی گزرے گا وہ ڈس انفیکٹ ہوجائے گا ۔فی الحال اس کے لیے انہیں مساجد سے آرڈرزمل گئے ہیں ۔

نبیل کا کہنا ہے کہ ان کی ٹیم نے ہر چیز کسی نہ کسی اسٹینڈرڈکےمطابق تیار کی ہے اور ان سب کے لیے مختلف ٹیکنالوجیز استعمال کی گئی ہیں۔ انہوں نے متعدد سرکاری اسپتالوںکو یہ اشیا مفت میں فراہم کی ہیں۔تاہم ا ب انہیں بلوچستان اور کے پی سے بھی ان اشیا کی تیاری کے لیےآرڈرزملے ہیں ۔ان کے بہ قول یہ تمام اشیا بنانے میں انہیں ایک ہفتہ لگا تھا اور انہیں تیار کرنے والی ٹیم 25 افراد پر مشتمل ہے ۔

اب تک انہوں نے ان اشیا کی تیاری پر تقریباً25 لاکھ روپے خرچ کیے ہیں۔ یہ رقم انہوں نے اور ان کی ٹیم نے مل کر لگائی تھی،اس کے لیے انہیں کوئی امداد نہیں ملی تھی ۔وہ کہتے ہیں کہ یہ اشیا تیارکرنے کامقصدصرف یہ ہےکہ وہ انہیں سرکاری اسپتالوں میں زیادہ سے زیادہ تعداد میں فراہم کر سکیں۔کیوں کہ جتنا زیادہ ڈاکٹرزخود کورونا وائرس سے محفوظ ہوں گے اتنا ہی زیادہ وہ لوگوں کو محفوظ کرسکیں گے۔نبیل کا کہناہےکہ بہت سے نجی اسپتالوں نے ان سے یہ اشیا خریدی ہیں ۔

یہ اشیا بنانے کا خیال کیسے آیا؟اس بارے میںنبیل نے بتایا کہ ان کے ایک ڈاکٹر دوست نے انہیںبتا یا تھا کہ ان کے پاس حفاظتی ساز وسامان نہیں ہیں ،تو اس حوالے سے ان سے کافی بات چیت ہوئی کہ وہ کیسے ہوتے ہیں اوران کے استعمال کا کیا مقصد ہوتا ہے۔اس گفتگو سے انہیں یہ سب کچھ بنانے کا آئیڈیا ملا۔انہیں بنانے کے بعد انہوں نے سب سے پہلے اپنے ڈاکٹر دوست کو دکھا یا ،پھر اس کی ٹیسٹنگ کی ،جس میں دو ہفتے لگے ۔اس کے بعد اسپتالوں اورلوگوںکوان کی فراہمی کاآغاز کیا گیا۔جب یہ اشیا تیار ہوگئیں تو ضرورت کے مطابق ان میں تھوڑی بہت تبدیلیاں کی گئیںاور اب بھی ان میں ضرورت کے مطابق تبدیلیاں کی جارہی ہیں ۔جیسے جیسے انہیں نئی نئ چیزوں کے بارے میں پتا چل رہا ہے ویسے ویسے وہ تبدیلیاں کرتے جارہے ہیں ۔

ان کے مطابق اگر ہم یہ سازوسامان صحیح طرح سے استعمال کرنے لگیں تو کورونا وائرس کاپھیلائو بہت جلد روک سکتے ہیں ،خاص طور پر واک تھرو گیٹ سے۔ اگر انہیںزیادہ سے زیادہ عوامی مقامات پر لگا دیا جائے توان کےذریعے ہم بڑی تعداد میں لوگوں کو ڈس انفیکٹ کرسکتے ہیں ۔قابلِ تعریف بات یہ ہے کہ نبیل اور ان کی ٹیم یہ کام بغیرکسی منافعے کےکررہی ہے۔اس لیے وہ چاہتے ہیںکہ اس کام میںزیادہ سے زیادہ لوگ ان کا ساتھ دیںتا کہ وہ اسے بڑے پیمانے پر کر سکیں۔