• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

  السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ

سازش لگ رہی ہے

شمارےکاشدّت سےانتظارتھا،تمام سلسلے زبردست ہیں، مگر عبداللہ ناول کی تو بات ہی الگ ہے۔ ’’سلسلہ غزوات وسرایا‘‘ کا بھی کوئی مول نہیں۔ نیا شمارہ دیکھا، تو دل جیسے مُٹھی میں آگیا۔ یہ ناول کے ساتھ کیا بیتی۔ ہاشم ندیم کو اچانک کیا ہوگیا، بقیہ اقساط کیوں نہیں لکھ رہے۔ ہمیں تو یہ کوئی سازش لگ رہی ہے۔ ’’حالات و واقعات‘‘ کا موضوع زبردست تھا۔ انٹرویو، جہانِ دیگر کا سلسلہ بہترین ہے۔  (جنید علی چشتی، سینٹرل جیل ملتان)

ج: ناول نگار کچھ ذاتی وجوہ کی بنا پر بقیہ اقساط نہیں لکھ پا رہے، سازش وازش کوئی نہیں ہے۔ جب وہ اقساط بھیجیں گے، ہم شایع کردیں گے۔

خیال آور ذرائع

تازہ شمارہ موصول ہوا۔ سرِورق پر ماڈل لانبے ناخنوں کے ساتھ، پاس حیا لیے جلوہ گر تھی۔ ’’حالات و واقعات‘‘ میں منور مرزا نے امریکا، طالبان امن معاہدے کا تجزیہ پیش کیا۔ ’’انٹرویو‘‘ میں منور راجپوت، ڈاکٹر سیّد سیف الرحمٰن سے بات چیت کررہے تھے، جو کراچی کی حالتِ زار بہتر بنانے کی بات کررہے تھے۔ عرفان جاوید نے ’’خیال کہاں سے آتا ہے؟‘‘ کی پہلی قسط میں خیال آور ذرائع سے متعلق بتایا۔ ’’سینٹر اسپریڈ‘‘ میں عالیہ کاشف دلہنوں کے ملبوسات سے متعارف کروا رہی تھیں، ایک جھلک دیکھ کے آگے بڑھ گئے۔ ہیلتھ اینڈ فٹنس میں ڈاکٹر شکیل نے ذیابطیس سے متعلق عمدہ جان کاری دی۔ ’’جہانِ دیگر‘‘ میں ڈاکٹر امتیاز اطہر نے انڈونیشیا کے تفریحی جزیرے بالی کی سیر بڑے اچھے انداز میں کروائی۔ ڈاکٹر میمونہ حمزہ کے ’’نقدی شاور‘‘ سے بھی خُوب محظوظ ہوئے۔ ہمارا گلشن، مطلب آپ کا صفحہ کی سیج پر ہم بھی محوِاستراحت تھے۔ خادم ملک کی بے سروپا باتوں اور ضیاء اللہ قائم خانی کی فضول تمثیلات کےسواتمام لکھاری اچھی کاوشیں لائے۔ (شہزادہ بشیر احمد نقش بندی، میرپورخاص)

ج: ویسے آپ کب محوِ استراحت نہیں ہوتے، خط لکھنے سے لے کر پرنٹ ہونے تک آرام ہی آرام ہے۔

ایک دنیا مدّاح

’’سنڈے اسپیشل‘‘ میں شفق رفیع کا تحریر کردہ مضمون ’’یہ ہے پاکستانی عورت‘‘ ہمیشہ کی طرح بہترین انداز سے لکھا گیا، بہت اچھا لگا پڑھ کر۔ اشاعتِ خصوصی میں شگفتہ عُمر نے بھی خواتین کے حقِ وراثت پر بہت اچھی تحریر عنایت کی۔ ’’اسٹائل‘‘ پر آپ کی تحریر ہو، تو ماڈل کو بھی چار چاند لگ جاتے ہیں۔ ہمارے منور مرزا کے تجزیات کی تو ایک دنیا مدّاح ہے۔ پیارا گھر میں ’’شام کی چائے‘‘ کا جواب نہیں تھا۔ ڈائجسٹ میں کنول بہزاد اور فرحی نعیم دونوں کی کہانیاں اچھی لگیں۔ اور ناول کی بقیہ اقساط کا شدّت سے انتظار ہے۔ (رونق افروز برقی، دستگیر کالونی، کراچی)

خلوصِ دل سے کام کرنے والے

منور مرزا کا قلم انسانیت کو سچّے، پُرخلوص جذبوں سے خوب منور کرتا ہے۔ نجم الحسن عطا کا کہنا بجا کہ کرپشن بجائے کم ہونے کے مزید بڑھ گئی ہے۔ منور راجپوت کی میٹرو پولیٹن کمشنر، ڈاکٹر سیّدسیف الرحمٰن سے خصوصی بات چیت زبردست رہی۔ بلاشبہ ڈاکٹر سیف الرحمٰن جیسے محبِ وطن اور خلوصِ دل سے کام کرنے والے لوگ ہی ہمارا اعزاز ہیں۔ اے وطن کے چاہنے والو! وطن کے ذرّے ذرّے کی رونق تمہارے ہی دم قدم سے ہے۔ عرفان جاوید دنیائے اردو کے بہترین لکھاری ہیں۔ اُن کے زرخیز ذہن سے کیا کیا خیالات، آئیڈیاز بیدار ہوتے ہیں۔ ڈاکٹر شکیل اور ڈاکٹر عمران کے مضامین معلوماتی تھے۔ ڈاکٹر امتیاز اطہر نے بالی کی ایسی عمدہ سیرکروائی کہ ہم بھی اُن کے ساتھ ساتھ گھومتے پھرتے رہے۔ عورت کا حُسن، حجاب و حیا ہی میں ہے۔ آپ نے اپنی تحریروں سےحق ادا کردیا۔ ڈائجسٹ میں ’’بندگی‘‘ اچھا انتخاب ثابت ہوا۔ اور آپ کا صفحہ اردو کےقدردانوں کےلیےایک نعمتِ غیرمترقبہ سے کم نہیں۔ (ضیاء الحق قائم خانی، جھڈو، میرپورخاص)

ٹس سے مس نہ ہونے والے

اس بار بھی دو ہی شماروں پر تبصرہ کروں گا۔ دونوں میں سرچشمۂ ہدایت موجود تھا۔ منور مرزا کا تجزیہ اور منور راجپوت کا ’’آپ کا موبائل، کسی اور کی نظروں میں‘‘ لاجواب، معلوماتی مضمون تھا۔ بہت ہی زبردست معلومات حاصل ہوئیں، بہت بہت شکریہ۔ پاکستانی نژاد ترک اسکالر پروفیسر ڈاکٹر اے۔بی اشرف اور محسن شیخانی کے انٹرویوز اچھے رہے۔ کورونا وائرس نے ڈیڑھ سو سے زیادہ ممالک میں پنجےگاڑ دیےہیں۔ اللہ تعالیٰ اس وائرس کو ختم کرے تاکہ پاکستان اور دیگر متاثرہ ممالک سُکھ کا سانس لے سکیں۔ ’’اسٹائل‘‘ میں اس بار ماڈلز کے نام اچھے تھے۔ آیت اور نور، مگر خادم ملک کی نظر پڑگئی تو انہوں نے اس پر بھی اعتراض کردینا ہے۔ ’’خمارِ گندم‘’‘ کی چوتھی اور پانچویں اقساط زبردست تھیں اورہاں، آپ شہزادہ بشیر محمّد، خادم ملک اور پروفیسر مجیب ظفر کو جو مرضی کہہ لیں، یہ اپنی ڈگر سے نہیں ہٹیں گے۔ آپ جتنی مرضی بین بجالیں، یہ ٹس سے مس نہیں ہونے والے۔ (پرنس افضل شاہین، نادر شاہ بازار، بہاول نگر)

ج: کیوں، آپ اتنے وثوق سے کیسے کہہ رہے ہیں۔ آپ کے ساتھ کوئی خفیہ معاہدہ کررکھا ہے، ان تینوں نے۔

لکھنے لکھانے کا مؤثر ذریعہ

تازہ شمارہ نیم گرم صبح میں اپنے تروتازہ سرِورق اور پُر بہار تحریروں کے ساتھ منصہ شہود پر آیا۔ میگزین کی آب و تاب کا یہ عالم ہے کہ بقول شخصے ’’ہر فکر و نظر کہے سبحان اللہ‘‘۔ ویسے اے مشفق لڑکی! مَیں تم سے ناراض ہوں، یہ تیسرا ہفتہ ہے، میرا کوئی خط شاملِ اشاعت نہیں، تمہیں پتا نہیں کہ ہم خوابوں میں بھی ’’سنڈے میگزین‘‘ پڑھا کرتے ہیں۔ منور مرزا نے کورونا وائرس کی وجہ سے دنیا بھر کی بدلتی معاشرتی، معاشی اور اقتصادی صورتِ حال پر بہت عُمدہ لکھا۔ یومِ پاکستان کے حوالے سے بھی دونوں تحریریں دل چسپ اور معلوماتی تھیں۔ منصور آفاق کا پنجاب یونی ورسٹی سےمتعلق فیچر بہترین رہا۔ اور رئوف ظفر نے پاکستانی عُمر رسیدہ موٹر سائیکلسٹ کبریٰ بی بی کی رُوداد پڑھوا کر حیران کردیا۔ عرفان جاوید ’’خیال کہاں سے آتا ہے؟‘‘ کی دوسری قسط لائے، لیکن وہ مولوی مدن (خمارِ گندم) کی سی بات کہاں؟ ’’پیارا گھر‘‘ کی مجموعی پُراثر تحریروں کے درمیان باربی کیو پارٹی کا اہتمام لُطف بڑھا گیا۔ ’’ڈائجسٹ‘‘ میں عبدالحکیم ناصف کی نظم کا جواب نہ تھا۔ اور ’’آپ کا صفحہ‘‘ اپنی دائمی دل چسپی، مقبولیت سمیٹے، روشن منظرنامہ لیے طلوع ہوا۔ صفحے سے دونوں بابے پروفیسرز تین ہفتوں سے غیرحاضر ہیں۔ ’’فیملی‘‘ کچھ ادھوری، پھیکی پھیکی محسوس ہوئی۔ اگلے شمارے کا سرِورق دو عدد واضح پیغامات کا عکّاس ہے۔ نصف حصّے میں ضعیف دنیا، چہرے پر ماحولیاتی احتیاطی ماسک لپیٹے ’’انٹرنیشنل ہیلتھ ایمرجینسی کا اعلان‘‘ ہے، تو دوسری طرف زرش خان کا زندہ وجود نظر آیا۔ ’’سرچشمہ ہدایت‘‘ کے دونوں مضامین کورونا سمیت دیگر عالمی، زمینی و سماوی آفات و بلیات کا اظہاریہ رہے۔ شفق رفیع کا مضمون بھی ’’انٹرنیشنل ہیلتھ ایمرجینسی‘‘ کے بینر تلے لکھا گیا، شفق بیٹا! بابوں کو مزید تو نہ ڈرائو۔ رئوف ظفر نفسیاتی عوارض بیان کرگئے، تو میاں افتخار حسین کا حقائق پر مبنی انٹرویو بھی زبردست تھا۔ عالیہ کاشف نے ’’سینٹر اسپریڈ‘‘ کرب ناک ملکی حالات کے پس منظر کے ساتھ تحریر کیا، تو عرفان جاوید، نسرین جبیں اور روحی معروف کی تحریریں محنت و ریاضت کی عکّاس تھیں۔ ’’ناقابلِ اشاعت‘‘ کی فہرست دیکھ کر اکثر سوچتے ہیں کہ جب لکھنے لکھانے کا مؤثر ذریعہ سوشل میڈیا موجود ہے، تو نت نئے موضوعات سے مزیّن تحریروں کو وہاں کھپا دیا جائے۔ لیجیے، آگئے اور چھا گئے میاں بنڑے، یعنی ’’آپ کا صفحہ‘‘۔ جس سے غالباً ہمارے ساتھ ساتھ خادم ملک کی بھی چُھٹی کردی گئی ہے۔ (پروفیسر مجیب ظفر انور حمیدی، گلبرگ ٹائون، کراچی)

ج: چشمِ بددُور، ناراضی پر یہ عالم ہے کہ پوری دنیا کے لاک ڈائون میں بھی اگر کوئی چیز تھوک کے بھائو سے آرہی ہے، تو وہ آپ کے اور شہزادہ بشیر نقش بندی کے خطوط ہیں۔ ہفتے میں دوروز کے لیے آفس جانا ہوتا ہے، تو میز پر یہی دو خطوط آرام فرماتے ملتے ہیں۔ دوسروں کو سوشل میڈیا کے مؤثر ہونے کا درس کس کھاتے میں دے رہے ہیں، جب کہ ہمیں تو آپ قرنطینہ میں بھی بخشنے کو تیار نہیں۔

ہر سلسلہ متاثر کُن

آپ کے ہر شمارے کی طرح رواں ہفتے کا شمارہ بھی اپنی مثال آپ تھا۔ ہرہر سلسلہ متاثر کن، پہلے صفحے سے آخری تک معلومات سے بھرپور۔ (شری مرلی چند، گوپی چند گھو کلیہ، شکارپور)

انٹرٹینمنٹ کی کمی

زیرِ نظر شمارہ پورا پڑھ چُکا ہوں، اس لیے تبصرہ حاضر ہے۔ سرِورق کے متعلق کیا عرض کروں کہ کچھ کہتے ڈر لگتا ہے۔ ویسے ماڈل عیشا خان ذرا پتھریلے چہرے کی مالک لگی، اگر تھوڑا سا مُسکرا لیتی، تو تصویر اچھی آتی۔ منور مرزا کے تجزیات کا جواب نہیں ہوتا۔ پچھلی دفعہ مَیں نے جریدے میں انٹرٹینمنٹ کی کمی کی طرف توجّہ دلائی تھی، آپ نے فوری توجّہ کی اور جزیرہ بالی کے متعلق ایک شان دار سفرنامہ شامل کردیا۔ ویل ڈن ڈاکٹر امتیاز۔ یقین کریں یہ سفر نامہ پڑھنے کا بہت ہی لُطف آیا۔ اور ’’نقدی شاور‘‘ میں غالباً طنز و مزاح فرمانے کی کوشش کی گئی تھی۔ (ظہیر الدین غوری، سرگودھا)

ج: جی بالکل، صرف کوشش نہیں کی گئی تھی بلکہ باقاعدہ فرمایا گیا تھا۔ آپ کے سر سے گزر گیا، وہ الگ بات ہے۔ اور ہاں، بندے کو اتنا ہی خوش فہم ہونا چاہیے کہ بس ساری دنیا ہاتھ باندھے ہماری فرمائشوں ہی کی تکمیل میں تو لگی ہے، جب کہ حقیقت یہ ہے کہ ایک جریدہ مارکیٹ میں آنے سے جانے کتنا پہلے دوسرا پرنٹنگ میں جا بھی چُکا ہوتا ہے۔

                                                                              فی امان اللہ

اس ہفتے کی چٹھی

بزم میں بہت عرصے بعد شرکت کر رہی ہوں، مگر میگزین کا مطالعہ مستقلاً جاری رہا اور ان شاء اللہ جب تک سانس کی ڈور بندھی ہے، جاری رہے گا۔ آپ کے لیے ہمیشہ دعاگو رہتی ہوں کہ درحقیقت آپ ہی نے میرا قلم سے رشتہ جوڑا۔ میگزین کی طرف آتی ہوں۔ اس بار تو سرِورق دیکھ کر دل خوش ہوگیا۔ ماڈل نے تمام تر تصاویر میں ساتر لباس کے ساتھ دوپٹا بھی اوڑھ رکھا تھا۔ دوپٹا ہمارے مشرقی لباس کا حصّہ ہی نہیں، ہماری شناخت، پہچان بھی ہے، مگر پتا نہیں کیوں اور کب اِسے اچانک ہی ملبوسات سے جدا کر دیا گیا، حالاں کہ دیکھا جائے، تو مشرقی خواتین مہذّب لباس اور دوپٹوں کے ساتھ جس قدر پیاری لگتی ہیں، مغربی ملبوسات میں ہرگز نہیں۔ آپ کسی بھی اداکارہ کی تصویریں دیکھ لیں، مشرقی پہناووں کا حُسن الگ ہی نظر آتا ہے۔ ’’سرچشمۂ ہدایت‘‘ ہمارا پسندیدہ ترین صفحہ ہے۔ عموماً قرآنی حوالوں کے ساتھ اثر انگیز مضامین پڑھنے کو ملتے ہیں، مگر اس ہفتے صفحہ موجود نہیں تھا۔ ایک عجیب محرومی کا سا احساس ہوا۔ ’’حالات واقعات‘‘ میں منور مرزا نے بالکل صحیح کہا کہ پاکستان کو دھڑے بندیوں میں الجھنے کی بجائے قومی مفادات کو پیشِ نظر رکھنا چاہیے۔ بلاشبہ، ہمارے معاشی حالات وسط ایشیا میں موجود مواقع کھونے کے متحمّل نہیں ہو سکتے۔ نجم الحسن عطا نے کرپشن اور سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف زبردست لکھا۔ ’’انٹرویو‘‘ میں کمشنر، کراچی میٹرو پولیٹن، ڈاکٹر سیّد سیف الرحمن کی باتیں سیدھی دل میں اُتریں۔ اے کاش! وہ اپنے عزائم میں کام یاب بھی ہو جائیں۔ اگر وہ صرف کراچی کا کچرا ہی صاف کروا دیں، تو لوگ انہیں جھولیاں بھر بھر دعائیں دیں گے۔ ’’عجائب خانہ‘‘ اپنی نوعیت کا بہت ہی منفرد سلسلہ ہے۔ ایسی تحریریں اب کہاں پڑھنے کو ملتی ہیں۔ ایسی تحقیق و جستجو ہر کسی کے بس کا روگ نہیں۔ لوگ ناحق ناول کو رو رہے ہیں۔ عجائب خانہ نے سب کسریں پوری تو کردی ہیں۔ ڈاکٹر شکیل احمد نے ذیابطیس کی سب سے عام پیچیدگی سے آگاہی فراہم کرکے ہم مریضوں سے خُوب دعائیں سمیٹیں۔ ڈاکٹر محمّد عمران یوسف کی بات بھی سو فی صد درست ہے کہ مثبت سرگرمیوں سے گھر، اسکول اور آس پاس کا ماحول ساز گار بنایا جا سکتا ہے۔ ’’جہانِ دیگر‘‘ کے ذریعے ڈاکٹر امتیاز اطہر صدیقی کے ساتھ ہم نے بھی جزیرہ بالی کی خُوب سیر کی۔ ڈاکٹر مریم چغتائی کی ’’تقسیمِ ہند کی اَن کہی داستانیں‘‘ پڑھ کر دل میں وطنِ عزیز کی قدر و منزلت کچھ اور بھی بڑھ گئی۔ اب آتے ہیں اپنے پیارے سے صفحے ’’پیارا گھر‘‘ کی طرف، جس میں عروسہ شہوار رفیع کی خُوب صُورت تحریر پڑھ کر دل باغ باغ ہوگیا۔ مغلیہ پکوان سے سجا شاہی دستر خوان بھی لاجواب تھا اور ’’ڈائجسٹ‘‘ میں ڈاکٹر میمونہ حمزہ کا ’’نقدی شاور‘‘ پڑھ کے تو بہت ہی لُطف آیا۔ رہا، ہمارا اپنا صفحہ، تو بھئی، وہ تو ہماری جان ہے۔ سب سے زیادہ تو آپ کے دل چسپ جوابات محظوظ کرتے ہیں۔ خطوط کا معیار بھی خاصا بلند ہوگیا ہے۔ میری طرف سے آپ سمیت پوری ٹیم کی خدمت میں سلام پیش ہے کہ یہ ہر ہفتے ایک سے بڑھ کر ایک جریدے کا آنا آپ لوگوں کی مخلصانہ کاوشوں ہی کے مرہونِ منّت ہے۔ (خالدہ سمیع، گلستانِ جوہر، کراچی)

ج: بہت شُکریہ خالدہ جی!! آپ کی ذرّہ نوازی ہے۔ آپ جیسےپُرخلوص قارئین ہی درحقیقت ہمارے لیے مہمیز کا کام دیتے ہیں۔ 

گوشہ برقی خُطوط

  • عجائب خانہ‘‘ آپ کا ایک معرکتہ الآرا سلسلہ ہے۔ بخدا ’’خمارِ گندم‘‘ پڑھ کر میں تو بہت ہی لُطف اندوز ہوا۔ ایسی منفرد تحریریں بس، ’’جنگ، سنڈے میگزین‘‘ ہی کا خاصّہ ہیں۔ (ایومنڈس)

ج: اور ایسے عجیب و غریب ناموں والے قارئین بھی بس ہمیں ہی میسّر ہیں۔

  • یہ ’’جنگ پزل‘‘ نمبر 165کے نتائج کب شایع ہوں  گے؟ (حمزہ شیخ)

ج: اس کے لیے آپ کو جنگ، لاہور کے دفتر فون کرکے معلومات حاصل کرنی ہوں گی کہ جنگ پزل ادارتی صفحات کا حصّہ نہیں ہے۔

  • ماہ ِاپریل کے پورے دو شمارے کورونا کے نام کر دیئے آپ لوگوں نے۔ قسم سے ہر طرف کورونا، کورونا کارونا سُن سُن کر دماغ پک گیا ہے۔ ایک تو اس قدر سخت لاک ڈائون، اُس پر صرف کورونا، کورونا۔ ناول کی نئی اقساط شائع ہو رہی ہیں، نہ ناقابل ِ فراموش ہی مستقل شیڈول ہو رہا ہے۔ بہت بوریت ہونے لگی ہے بخدا۔ ویسے سچ تو یہ ہے کہ آپ لوگوں کا بھی کوئی قصور نہیں ۔ پوری دنیا اِسی عفریت کے چنگل میں ہے۔ ہاں، میگزین کا جو سلسلہ آج کل سب سے زیادہ دل چسپی سے پڑھا جارہا ہے، وہ ’’عجائب خانہ‘‘ ہے۔ عرفان جاوید ایک سے بڑھ کر ایک منفرد موضوع لے کر آرہے ہیں۔ ایک بات اور، عموماً لوگ صرف ایک سوال پوچھنے کے لیے ای میل کرتے ہیں کہ کیا ہماری تحریر، شاعری شایع ہو سکتی ہے، تو اُنہیں اگر براہِ راست جواب دے کر ہی فارغ کر دیا جائے تو اچھا نہیں، بجائے اس کے کہ میگزین کی دو سطریں ضائع ہوں۔ (قرأت نقوی، ٹیکساس، یو ایس اے)

ج: بات تو تمہاری ٹھیک ہے، لیکن مسئلہ یہ ہے روزانہ کی بنیاد پر خطوط یا ای میلز کو محفوظ تو کرلیا جاتا ہے، لیکن اُنہیں باقاعدہ پڑھا تب ہی جاتا ہے، جب اُن کی باری آتی ہے اور وہ ایڈیٹنگ کے مرحلے سے گزرتے ہیں اور پھر یہ کہ اگر ایک بار براہِ راست جوابات کا سلسلہ شروع ہوگیا تو پھر یہ طول ہی پکڑتا جائے گا۔

  • عبداللہ ناول کی بقیہ اقساط شایع بھی کی جائیں گی یا نہیں ؟ (عُمر شفیق)

ج: ہم کچھ نہیں کہہ سکتے۔ پہلے تو معاملہ ناول نگار کی نجی مصروفیات کا تھا، مگر اب کورونا وائرس کی وبا کے بعد تو تمام تر معاملات ِ زندگی ہی الٹ پلٹ کر رہ گئے ہیں، تو اب کسی بھی حوالے سے کوئی بات وثوق سے نہیں کہی جاسکتی۔

  • ناول عبداللہ کی عدم اشاعت کی وجوہ جان سکتی ہوں؟ (فاطمہ شیخ)

ج: بالکل جان سکتی ہو، ہمارے پچھلے چند شمارے نکال کر دوبارہ پڑھو۔ ہم بارہا وجوہ بیان کرچُکے۔

  • مَیں نے صرف ایک بات پوچھنے کے لیے یہ ای میل کی ہے کہ ناول عبداللہ کی بقیہ اقساط کب شایع ہوں گی ۔ (ثمینہ پروین)

ج: اور ’’جنگ‘ سنڈے میگزین‘‘ سے متعلق یہی ایک بات ہمیں معلوم نہیں۔

قارئین کرام!

ہمارے ہر صفحے ، ہر سلسلے پر کھل کر اپنی رائے کا اظہار کیجیے۔ اس صفحے کو، جو آپ ہی کے خطوط سے مرصّع ہے، ’’ہائیڈ پارک‘‘ سمجھیے۔ جو دل میں آئے، جو کہنا چاہیں، جو سمجھ میں آئے۔ کسی جھجک، لاگ لپیٹ کے بغیر، ہمیں لکھ بھیجیے۔ ہم آپ کے تمام خیالات، تجاویز اور آراء کو بہت مقدّم ، بے حد اہم، جانتے ہوئے، ان کا بھرپور احترام کریں گے اور اُن ہی کی روشنی میں ’’سنڈے میگزین‘‘ کے بہتر سے بہتر معیار کے لیے مسلسل کوشاں رہیں گے۔ہمارا پتا یہ ہے۔

نرجس ملک

ایڈیٹر ’’ سنڈے میگزین‘‘

روزنامہ جنگ ، آئی آئی چندریگر روڈ، کراچی

sundaymagazine@janggroup.com.pk

تازہ ترین