سفید کوے (قسط نمبر 2)

May 17, 2020

جدید دنیا میں جہاں لوگ کئی ملازمتیں، کاروبار اور گھر بدلتے ہیں، ایساممکن نہیں۔ سو انسان کی اپنی چَھٹی حِس کے علاوہ ذہنی تربیت کی ضرورت بڑھ گئی ہے۔ وہ سمجھتا ہے کہ جدیددَور میں معلومات کی بھرمار بھی انسان کو درست فیصلے تک پہنچنے سے روکتی ہے۔ ضرورت سے زیادہ معلومات انسان کو الجھن میں ڈال دیتی ہے۔ اس لیے درست اور متعلقہ معلومات بہتر ہوتی ہیں۔ معلومات یا انتخاب کی زیادہ مقدار کے حوالے سے ایک دل چسپ تجربہ کیا گیا، جس نے اس خیال کوغلط ثابت کردیا کہ صارف یا گاہک کے سامنے جتنی زیادہ انواع واقسام کی اشیا رکھی جائیں گی، اُس کے اندر خریداری کا جذبہ اتنا ہی بڑھے گا۔ سن دوہزار میں دو محقّقین نے ایک دل چسپ تجربہ کیا۔ انھوں نے ایک مارکیٹ میں ایک اسٹال لگایا اور وہاں صرف چھے قسم کے پھلوں کے جیم رکھے۔ پہلے ہفتے کے دوران وہاں سے گزرنے والے 40 فی صد خریدار اسٹال پر رکے۔ اُن 40فی صد میں سے 30 فی صد (یعنی کُل کے 13فی صد) نے وہاں سے جیم خریدے۔ اگلے ہفتے انھوں نے اسٹال پرچھے کی بجائے چوبیس اقسام کے جیم رکھ دیے۔

اس کا ایک فائدہ یہ ہوا کہ وہاں سے گزرنے والے لوگوں میں سے 60 فی صد اسٹال کے سامنے رُکے۔ یہ تعداد پہلے سے بڑھ کر تھی۔ مگر صرف تین فی صد لوگوں نے وہاں سے خریداری کی۔ یہ ایک چونکا دینے والا تجربہ تھا۔ اسے "Over choice" یعنی ’’کثرت ِ انتخاب‘‘ کہتے ہیں۔ اس میں اشیا کی کثرت دیکھ کر خریدار تذبذب اور الجھن میں مبتلا ہوجاتا ہے کہ کہیں وہ غلط انتخاب نہ کر بیٹھے۔ یہی وجہ ہے کہ بہت سی خواتین جن کے گھروں کی الماریاں کپڑوں سے بَھری رہتی ہیں، کسی تقریب پر جانے سے پہلے شکوہ کرتی نظر آتی ہیں کہ اُن کے پاس پہننے کو کوئی خاص لباس نہیں۔ درحقیقت وہ Over choice کاشکار ہو جاتی ہیں۔

یہ ترکیب ہرشے اور ہرجگہ کے لیے موزوں نہیں۔ کئی مرتبہ کثرت ِ انتخاب فروخت میں اضافے کا باعث بھی بنتی ہے، مگر یہ بات موضوع سے ہٹ کر ہے کہ اس میں ایک شے کی بجائے مختلف اشیا اور ان کی اقسام میں تنّوع پیدا کیا جاتا ہے۔ اسی طرح یہ تصوّر بھی عام ہے کہ ایک باصلاحیت اور ذہین شخص معاشرے میں اپنا مقام خود بنالیتا ہے۔ یہ تصوّر پوری طرح درست نہیں۔ اس میں کرسٹوفر لینگن کی زندگی کی کہانی مختصرترین الفاظ میں مثال کے طور پر پیش کی جاسکتی ہے۔ کرسٹوفرلینگن کو دنیا کا ذہین ترین شخص تسلیم کیا جاتا ہے۔ اس کا آئی کیو (ذہانت پیما)195 ہے۔ جب کہ آئن اسٹائن جیسے نامی گرامی سائنس دان کا آئی کیو 150 تھا۔ لینگن مونٹانا، امریکا میں پیدا ہوا۔ اُس کا باپ اس کی پیدایش سے پہلے ہی اس کی ماں کو چھوڑ کر غائب ہوگیا۔ نتیجتاً اس کی ماں نے اپنےچار بچّوں کی انتہائی غربت اور بدحالی میں پرورش کی۔ اس کا سوتیلا باپ ایک ظالم شخص تھا۔ جب لینگن اسکول میں پڑھتا تھا تو اس کا سوتیلا باپ اس سے مشکل ترین سوالات پوچھا کرتا، جن کے وہ درست جواب دے دیا کرتا تھا۔ اس پر اسے اپنے باپ کے تشدّد کا سامنا کرنا پڑتا،جو اپنے آپ کو زیادہ ذہین کہلوانا پسند کرتا تھا۔ بعد ازاں، زندگی کی مشکلات نے اُسے اس درجہ دق کردیاکہ اُس نےتعلیم ادھوری چھوڑ کر محنت مزدوری شروع کردی۔

اس نے طبیعات، فلسفے، لاطینی اور یونانی زبانوں پرکتابیں پڑھنا جاری رکھیں۔ ایک مرتبہ اس نے فقط شوقیہ طور پرSAT کا امتحان دیا، تو ناقابلِ یقین سو فی صد نمبر حاصل کیے۔ باوجود اس کے کہ امتحان کے دوران اسے اونگھ آگئی تھی۔ قصّہ کوتاہ، وہ میسوری کے مضافات میں منتقل ہوگیا اور وہاں گھوڑوں کا ایک اصطبل چلانے لگا۔ یعنی اس کی بے پناہ ذہانت اس کی سماجی اورمعاشی ترقی کا باعث نہ بن پائی۔ کام یاب لوگوں کی زندگیوں کے مطالعے سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ اُنھیں زندگی کے فیصلہ کن مراحل میں کوئی ہم درد، راہ نما، شفیق استاد، مہربان ہم سایہ یا زندگی میں تحفتاً مُٹھی بھر ملنے والے خوش نصیب لمحات میں سے کوئی ایک ایسا لمحہ نہ صرف میسر آجاتا ہے بلکہ وہ اسے پہچاننے کی صلاحیت بھی رکھتے ہیں، جو انھیں مادی یا روحانی و ذہنی کام یابی و کام رانی تک لے جاتا ہے۔ خود نموئی و خود تکاملی (Self development)کے ماہرین کا تجزیہ بتاتا ہے، گلیڈویل کے الفاظ میں ’’کوئی بھی نہیں، نہ کوئی راک اسٹار، نہ پیشہ ور کھلاڑی، نہ سافٹ وئیر کا ارب پتی اور نہ ہی جینئس۔ کبھی بھی اکیلا کام یابی تک نہیں پہنچتا۔‘‘

(کتاب ''Outliers'' بنیادی جز سے جدا یعنی پٹی ہوئی راہ سے ہٹ کر چلنے والے لوگ)۔ ایک اوربات کو پیش نظر رکھنا لازم ہے کہ کام یابی صرف دولت اکٹھی کرلینا یا اعلیٰ دنیاوی مقام حاصل کرلینا ہی نہیں، جیسا کہ جدید مارکیٹ اکانوی کی دنیا میں خودنموئی کے ماہرین بتاتے ہیں کہ حقیقی کام یابی ایسی زندگی جی لینا بھی ہے جس کی خواہش انسان کرے۔ بسترِمرگ پر پڑے مریضوں کی اکثریت نے اس افسوس کا اظہارکیاہے کہ کاش وہ اپنی زندگی اپنی مرضی کے مطابق گزارتے، نہ کہ دوسروں کو متاثر کرنے یا ان کی خواہشات کے مطابق۔ یاد رہے کہ ان مریضوں میں لاکھوں ڈالر کی جائداد رکھنے والے بظاہر کام یاب اورمثالی لوگ بھی شامل ہیں۔ کام یابی ایک ایسا جادوئی دریا ہے، جو چکا چوند اصطلاحات کے کوزے میں نہیں سما سکتا۔ حصولِ علم بھی، جس سے انسان کو اپنی اِردگردکی دنیاکو روشن نگاہی سے دیکھنے کا موقع ملتا ہے، مسرت اورکام یابی کا اہم ذریعہ ہے۔

مارک ٹوئن جیسے جیّد امریکی ادیب و دانش وَر نے کہا تھا ’’تعلیم کا مقصد نہ صرف صحیح علم حاصل کرنا ہے بلکہ غلط معلومات کو ذہن سے جھٹک کر رَدکرنا بھی ہے۔‘‘ اسی طرح رچرڈفے مین نے سائنسی علم کی انوکھی تعریف کی ’’سائنس، ماہرین کی لاعلمی پر یقین کا نام ہے۔‘‘یعنی کسی بھی بات کو یقین اور اعتماد سے تسلیم کرلینا سائنسی اور تجزیاتی ذہن کے خلاف ہے چوں کہ نئے سائنسی دلائل، پرانے دلائل کو رعد کرتے چلے جاتے ہیں اور انسانی تہذیب اپنا سفر جاری رکھتی ہے۔ پوری دنیا میں عمومی نوعیت کے مظالطےنہ صرف پائےجاتےہیں اور ذرائع ابلاغ اُنھیں شدومد سے دہراتے رہتے ہیں بلکہ اُن پر زبانوں کے محاورے بھی زبان زدِ عام ہیں۔ حقائق سے فرار کی مناسبت سے شترمرغ کے ریت میں سردینے کی مثال دی جاتی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ شترمرغ دشمنوں سے بچنے کے لیے کبھی بھی اپنا سرریت میں نہیں چُھپاتے۔ اس بات کا پہلی مرتبہ تذکرہ قریباً دو ہزار برس پہلے رومی فلسفی، مفکّر اور جنگجو کمانڈر، پلینی (23تا79عیسوی)نے کیا تھا۔ تب سے یہ بات بلا تحقیق اتنے تواتر سے دہرائی گئی ہے کہ اسے حقیقت سمجھ لیا گیا ہے۔ بزرگوں سے ایک روایت چلی آرہی ہے کہ ایک مقام جہاں ایک مرتبہ آسمانی بجلی گرے، وہاں دوبارہ نہیں گرتی۔ عین ممکن ہے کہ بیش ترجگہوں پر ایسا ہی ہوتا ہو مگر دنیا میں بےشمار مقامات اس وجہ سے بھی معروف ہیں کہ وہاں تواتر سے بجلی گرتی رہی ہے۔

نیویارک کی ایمپائراسٹیٹ بلڈنگ پر سالانہ اوسطاً ایک سو مرتبہ بجلی گرتی ہے۔ پچھلے وقتوں کے قبائلی یقینا تصوّر کرتے کہ آسمانوں کے دیوتا اس عمارت اوراس کے مکینوں سے ناراض ہیں۔ یہ تو ایک تسلیم شدہ حقیقت بن چُکی ہے کہ نارڈِک لوگ پہلی مرتبہ امریکا پہنچے اور انھوں نے امریکا دریافت کیا مگر آج بھی اکثریت اس حقیقت سے ناواقف ہے کہ کرسٹوفرکولمبس نے، جس کےسر امریکا کی دریافت کا سہرا رکھا جاتا ہے، کبھی بھی سرزمین امریکا پر پیرنہ دھرے تھے۔ وہ جزائر غرب الہند(کریبئین جزائر) کے ساحلوں پر اُتراتھا اور وہیں سے لوٹ گیا تھا۔ یہ بھی ایک مغالطہ ہے کہ جدید دَور کی دریافت سے پہلے زمین کو چپٹا سمجھا جاتا تھا۔ درحقیقت افلاطون اور ارسطو کے دَور کے فلاسفہ سے لے کر بعد کے ادوار تک کے مفّکرین زمین کو مدور یا بیضوی سمجھتے آئے تھے۔ اس کا ادراک ان کو تب ہی ہو جاتا تھا، جب وہ بلندی پر کھڑے ہو کرسمندروں کو دیکھا کرتے تھے اور انھیں بحری جہازوں کے مستول پہلے نظر آتے تھے اور جہاز بعد میں، علاوہ ازیں سمندر و آسماں کا باہمی اتصال انھیں قاشِ ماہ تاب کی مانند کمان کی طرح نیم گولائی میں نظر آتا تھا۔ مُسکراتے بُدھا(مہاتما بدھ)کی شبیہ میں ایک فربہ ہنستے ہوئے شفیق آدمی کو دکھایا جاتا ہے۔ بہت سے لوگ اسے ہی مہاتما بدھ سمجھ بیٹھے ہیں۔ درحقیقت یہ دسویں صدی عیسوی کے ایک داستانوی کردار ’’بدائی‘‘ کی شبیہ ہے، جو ایک موٹاتازہ، گول مٹول، خوش مزاج شخص تھا اور بچّوں اور بڑوں میں یک ساں مقبول تھا۔ اِسی طرح یہ بھی ایک معروف مغالطہ ہے کہ حضرت عیسیٰ پچیس دسمبر کو پیدا ہوئے۔

درحقیقت قدیم رومی موسمِ سرما کے اِن دنوں میں، جب سورج خط ِ استوا سے زیادہ سے زیادہ دُور ہوتا ہے، یعنی سترہ سے پچیس دسمبر تک، جشن منایا کرتے تھے۔ جب رومی شہنشاہ کانسٹنٹائن نے چوتھی صدی عیسوی میں مسیحیت قبول کی تو مسیحی کلیسا نے رومی جشن کے ان ہی دنوں کو علامتی طور پرحضرت عیسیٰ کی پیدائش کے جشن کے طور پر مناناشروع کردیا۔ انجیل کے مفسّر سمجھتے ہیں کہ حضرت عیسیٰ کی پیدائش موسمِ بہار میں ہوئی تھی، جب ’’چرواہے اپنے مویشیوں کو چراگاہوں میں چرتے دیکھ رہے تھے۔‘‘ اس کا موسمِ بہار میں تو امکان ہے، مگر سرما میں نہیں۔ علاوہ ازیں، اس دور کے ستاروں کا جو احوال بیان ہوا ہے، ان کا حساب کر کے ستارہ شناس جاڑوں یعنی سردیوں میں مسیح ؑکی پیدائش کے امکان کو رَد کرتے ہیں۔ ایک تاریخی واقعے کو محاورے کا درجہ حاصل ہو چکا ہے کہ ’’جب روم جل رہا تھا تو نیروچَین کی بنسری بجارہا تھا۔‘‘ یہ محاورہ کسی شخص کی سفاکی اور سنگ دلی کی علامت کے طور پر استعمال ہوتا ہے۔ یہ واقعہ 64 عیسوی کا ہے، جب کہ بانسری گیارہویں صدی عیسوی میں، قریباً ایک ہزار برس بعدایجاد ہوئی۔ اس روایت کے ڈانڈے رومی تاریخ دان، ٹیسی ٹس کے غیر مصدّقہ بیان میں ملتے ہیں، جس کے مطابق جب روم جل رہا تھا، تو اس کا حکم ران نیروگا رہا تھا۔

محقّقین کے مطابق جب نیرو کو روم میں آگ لگنے کی اطلاع ملی تو اس نے آگ بجھانے اور لوگوں کو بچانے کی کوشش کی تھی۔ نیرو کے ناقدین کے شک کو کہ آگ نیرو ہی نے لگوائی تھی، ایک بات تقویت پہنچاتی ہے کہ آگ کے بعد وہ زمین جہاں عمارات جل کر راکھ ہوگئی تھیں، نیرو نے اپنی مرضی کی تعمیرات کیں۔ نیرو اس آگ کا الزام اُس دَور میں یہودیوں کے ایک چھوٹے مگر طاقت پکڑتے فرقے کے سر رکھتا تھا۔ اس فرقے کا نام مسیحی یعنی ’’کرسچئن‘‘ تھا،جو بعدازاں ایک زیادہ وسیع اور طاقت ور مذہب بن گیا۔ کئی صدیوں کے بعد دیگر بہت سے سائنس دانوں اور دانش وَروں کی طرح ایک شخص اور پیدا ہوا جس نے فکری روایات سے بغاوت کی۔ وہ شخص چارلس ڈارون تھا۔ ڈارون کا نظریہ تھا کہ انسان بن مانس کی ارتقائی شکل ہے۔ جدید طبّی و بشریاتی تحقیق نے ثابت کردیا ہے کہ انسان اور بن مانس بالکل مختلف مخلوقات ہیں۔ البتہ ان کے آباؤاجداد ابتدائی شکل میں مشترک ہوسکتے ہیں مگر یہ جینیاتی اور حیاتیاتی طورپر ایک دوسرے سے جدا ہیں۔ حیاتیاتی طور پر ایک اور مفروضہ باطل ثابت ہوچکا ہے۔

جدید فِکشن اور فلموں میں انسانوں اور ڈائنوسارز کو ایک ہی دَور میں دکھایا جاتا ہے۔ انسان اور ڈائنوسار کے قدیم ترین دریافت شدہ ڈھانچوں اور دیگرمتعلق اشیاسے ثابت ہوچکا ہے کہ آخری ڈائنوسار اور پہلے انسان کے درمیان قریباً چھے کروڑ تیس لاکھ برس کا فاصلہ موجود ہے۔ روایتی ڈائنوسار تو لاکھوں برس پہلے ختم ہوگئے تھے، مگر اُن کی ایک نسل آج بھی انسانوں کے بیچ موجود ہے، پرندوں کی شکل میں۔ پرندے مختصر وجود اور پَروں والے ڈائنوسار ہیں۔ قدامت سے بات کا رُخ قدیم ترین اورقیمتی پتھروں یعنی ہیروں کی جانب ہوجاتا ہے۔ ہیرے پادشاہوں کے تاجوں سے لے کر بیگمات کے زیورات کا حصّہ رہے ہیں اور آج بھی انسان کا دل لبھاتے ہیں۔ یہ تصوّر عام ہے کہ جب کوئلہ لاکھوں برس دباؤ اور حرارت کے زیرِاثر رہتا ہے، تو وہ ہیرے کی شکل اختیار کرلیتا ہے۔ دنیا میں ننانوے فی صدہیرے زمین کی انتہائی گہرائی میں شدید گرمی اور دباؤ میں پائے جاتے ہیں جب کہ کوئلہ زمانۂ قدیم سے زمین کی سطح کے قریب دفن ہوجانے والے پودوں سے بنتا ہے۔

یوں دونوں کی گہرائی میں بہت فاصلہ و فرق موجود ہے۔ علاوہ ازیں قدیم ترین ہیرے قدیم ترین پودوں سے بھی پرانے ہیں۔ یوں ان کے کوئلے سے تخلیق ہونے کی بات درست نہیں۔ محاورے کی زبان میں یہ کہنا کہ کوئی شخص مشکلات سے گزر کر یوں قیمتی بن جائے گا، جیسے کوئلہ حدّت و دباؤ سے گزر کر ہیرا بنتا ہے، ادب و فن میں علامتی طور پر (غلط سہی) تو جچتا ہے، پر حقیقی سائنسی دنیا میں نہیں۔ فنون سے بات فن پہلوانی و زور آزمائی کی طرف نکل جاتی ہے۔ اساتذئہ پہلوانی اپنے پٹھوں،شاگردوں اوردیگرعشاقِ کسرت کو نصیحت کرتے آئے ہیں کہ وہ لذتِ جسمانی سے دور رہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہ انھیں صنف ِ مخالف سے کسی قسم کےروابط سے بھی سختی سے منع کرتے تھے۔ اس میں شادی بیاہ کرنا بھی شامل تھا، مگرجدید تحقیق سےثابت ہوا ہے کہ نجی نوعیت کی جسمانی سرگرمی سےٹیسٹو سٹیرون کی سطح بڑھ جاتی ہے اور یہ کھلاڑی کی کارکردگی کے لیے بہتر ثابت ہوتی ہے۔ بدن کے تذکرے سے بات انسانی جسم کے اُن اعضا کی جانب چلی جاتی ہے، جو تکلیف محسوس نہیں کرتے یعنی بال اورناخن۔ یہ خیال کیا جاتا ہے کہ ایک انسان کی موت کے بعد بھی کچھ عرصہ اُس کے ناخن اور بال بڑھتے رہتے ہیں۔ یہ تصوّر غلط ہے۔ اصل میں موت کے بعد انسانی جِلد خشک ہونا شروع ہوجاتی ہے۔

نتیجتاً یہ سکڑ جاتی ہے۔ اس کے سکڑنے کی وجہ سے بال اور ناخن تو اپنی جگہ پر رہتے ہیں، مگران کی جڑوں سے جِلد پیچھے کھنچ جاتی ہے۔ یوں دکھائی دیتا ہے کہ یہ بڑھ رہے ہیں، جب کہ جلد پیچھے ہٹ کر ان کی جڑوں والے حصّے کو نمایاں کر کے ان کے بڑھنے کا غلط تاثر دیتی ہے۔ تاثر تو ذائقے کا بھی زبان پر آتا ہے۔ اس سے ایک غلط تصوّر وابستہ چلا آرہا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ بنیادی ذائقوں کی تعداد چار ہے، جو میٹھا، نمکین، کھٹا اور کڑوا ہے۔ درحقیقت ایک اور بنیادی ذائقہ بھی وجود رکھتا ہے، جسے ’’اُمامی‘‘ کہا جاتا ہے اور یہ منہ میں پانی لانے والا اور گوشت کے ذائقے سے ملتا جلتا ہے۔ یہ شیل مچھلی، مش روم، پکے ہوئے مخصوص ٹماٹروں اورگوشت سے بننے والی خوراکوں میں پایا جاتا ہے۔ شادی کے حوالے سے بھی ایک غلط فہمی عام ہے۔ گو اس کا تعلق مغربی دنیا سے ہے، پھر بھی قابلِ توجّہ ہے۔

عالمِ عمرانیات، مرے سٹراس نے 1970میں ایک تحقیق شائع کی تھی، جس کے مطابق امریکا میں رہنے والے جوڑوں میں مرد جتنی تعداد میں عورتوں پر تشدد کرتے تھے، اُتنی ہی تعداد میں عورتیں بھی مَردوں پر ہاتھ اٹھاتی تھیں۔ اس جسمانی ایذا کی نوعیت اور شدّت میں اختلاف دیکھنے میں آیا، مگر تعداد قریباً برابر تھی۔ حیران کُن طور پر اس تحقیق پر زیادہ اعتراض عورتوں کو اس وجہ سے ہوا کہ یہ اُن کو مجبور اور مظلوم ظاہر کرنے کی روایت کے خلاف جاتی تھی۔ البتہ اس سے عورتوں کی آزادی کا بھی اظہار ہوتا تھا۔ سن 2000 تک یہ معاملہ اس حد تک چلا گیا کہ نکول جونسن جیسی تحریک ِ نسواں کی روحِ رواں ’’جرنل آف فیملی وائلینس‘‘ میں یہ تسلیم کرنے پرمجبور ہوگئی کہ تعداد میں عورتیں، مردوں کی نسبت 0.05 فی صد زیادہ متشدّد ہوتی ہیں۔ البتہ مردوں کے تشدّد کی نوعیت سنگین ہوتی ہے اور عورتوں کی زیادہ تر کارروائی جوابی ہوتی ہے۔ پاک و ہند میں معاملات قطعی طور پرمختلف ہیں اور بڑی تعداد میں عورتیں کئی درجہ زیادہ مظلوم ہیں۔

اس میں معاشرتی اور ثقافتی تربیت کے علاوہ ایک اہم پہلو خانگی زندگی میں عورت کا مرد پرمعاشی انحصار بھی ہے، جس کے باعث اس کے ہاتھ بندھے رہتے ہیں۔ دنیا بھر میں تشدّد سمیت دیگر سنگین جرائم میں مرد، عورتوں کی نسبت کہیں زیادہ ملوث ہوتے ہیں۔ جرائم کے حوالے سے بھی ایک مغالطے کی تصحیح ضروری ہے۔ نگران کیمروں کے جرائم کی روک تھام میں کردار پر مختلف پہلوؤں سے کی گئی تحقیق کے دوران یہ حقیقت سامنے آئی کہ یہ جرائم کو روکنے میں زیادہ معاون ثابت نہیں ہوتے۔ بلکہ یہ جرم ہوجانے کے بعد مجرم کی تلاش اور اُسے سزا دلانے میں مددگار ثابت ہوتے ہیں۔

کیمرا بیسویں صدی کی جدید ایجاد ہے۔ جدید دَور کے غلط العام خیالات پر بات کی جائے، تو بہت سے دل چسپ حقائق سامنے آتے ہیں۔ جدید جرمنی کا ذکر آتے ہی وہاں کی عمدہ مصنوعات، جنگ ِ عظیم، ہٹلر اور آٹوباہن (موٹروے) ذہن میں آتے ہیں۔ یہ بات معروف ہے کہ موٹروے ہٹلر نے بنائے تھے تاکہ جرمن فوجوں کی آمدورفت اور اشیا کی ترسیل کے علاوہ اسے جہازوں کے متبادل رن وے کے طور پر استعمال کیا جاسکے۔ یاد رہے کہ جرمن موٹرویز (آٹوباہن) پر رفتار کی کوئی حد نہیں ہوتی۔ حقیقت یہ ہے کہ آٹوباہن ہٹلر کے جرمنی کا حکم ران بننے سے دو برس قبل وجود میں آچکے تھے۔ (جاری ہے)