یہ بھی تو عورتیں تھیں؟

May 16, 2020

جو گیلی لکڑیوں کو پھونک کر چولہا جلاتی تھیں جو سل پر سرخ مرچیں پیس کر سالن پکاتی تھیں صبح سے شام تک مصروف، لیکن مسکراتی تھیں، بھری دوپہر میں سر اپنا ڈھک کر ملنے آتی تھیں جو پنکھے ہاتھ کےجھلتی تھیں اور پھر بھی تھک نہ پاتی تھیں جو دروازے پہ رک کر دیر تک رسمیں نبھاتی تھیں ۔پلنگوں پر نفاست سے دری چادر بچھاتی تھیں۔ بصد اصرار مہمانوں کو سرہانے بٹھاتی تھیں۔

اگر گرمی زیادہ ہو تو شربت پلاتی تھیں جو اپنی بیٹیوں کو سوئیٹر بننا سکھاتی تھیں، سلائی کی مشینوں پر کڑے روزے گزارتی تھیں بڑی پلیٹوں میں جو افطار کے حصّے بناتی تھیں جو کلمےکاڑھ کر لکڑی کے فریموں میں سجاتی تھیں، دعائیں پھونک کر بچوں کو بستر پر سلاتی تھیں اور اپنی جائے نمازیں موڑ کر تکیہ لگاتی تھیں کوئی سائل جو دستک دے اسے کھانا کھلاتی تھیں۔

پڑوسن مانگ لے کچھ، باخوشی دیتی دلاتی تھیں جو رشتوں کو برتنے کے کئی نسخے بتاتی تھیں محلے میں کوئی مر جائے تو آنسو بہاتی تھیں کوئی بیمار پڑ جائے تو اس کے پاس جاتی تھیں کوئی تہوار ہو تو خوب مل جل کر مناتی تھیں وہ کیسی عورتیں تھیں؟ میں جب گھر اپنے جاتا ہوں تو فرصت کے زمانوں میں انہیں ہی ڈھونڈتا پھرتا ہوں گلیوں اور مکانوں میں کسی میلاد میں، جزدان میں، تسبیح کے دانوں میں کسی برآمدے کے طاق پر، باورچی خانوں میں مگر اپنا زمانہ ساتھ لیکر کھو گئی ہیں وہ کسی اک قبر میں ساری کی ساری سو گئی ہیں وہ..! (منقول)