خالق کا پیغام اور بنی نوح انسان

May 24, 2020

شہلا خضر

کبھی سوچا بھی نہ تھا کہ کورونا وائرس کی شکل میں کرئہ ارض پر ایک ایسی خطرناک وبا پھیلے گی، جو دیکھتے ہی دیکھتے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لے گی۔چین سے پھوٹنے والی یہ وبا بتدریج پوری دنیا میں پھیل گئی اوراب صورتِ حال یہ ہے کہ کیا ترقی پذیر اور کیا ترقی یافتہ ممالک، سب ہی ایک ننّھے سے خردبینی وائرس کے سامنے بے بس و لاچار اور غیبی طاقت کے شکنجے میں کسے نظر آرہے ہیں۔

وہی مخلوقِ خدا، جو اپنے خالق و رازق کو فراموش کرکے لادینیت اورالحاد کا شکار ہوچکی تھی اور تسخیرِ کائنات کے بلند بانگ دعوے کررہی تھی، اپنی تمام تر ٹیکنالوجی اور ترقی کی شکست کے بعد ربِ کائنات سے گڑگڑا گڑگڑا کر رحم اور مدد کی بھیک مانگ رہی ہے اور یہ پہلی بار نہیں، ایسے کئی ادوار انسانی تہذیبوں پر پہلے بھی گزرچکے ہیں، جن کی واضح تفصیلات ہمیں قرآن پاک میں بھی ملتی ہیں، لیکن اللہ تعالیٰ کی جانب سے اتنی شدید سرزنش اور پکڑ کے باوجود حق کی پہچان اور حق پر ایمان لانے والے چند ہی گروہ تھے۔ ایسا نہیں ہوا کہ طوفانِ نوح ؑ کے بعد کی آنے والی تمام نسلیں حق پر آگئیں اوریہی حال فرعونِ مصر کے غرق ہونے اور عاد، ثمود اور مدین کی بربادی کی صورت تاریخ کا حصّہ ہیں۔

دراصل آج کا انسان نفسانفسی، مادہ پرستی سمیت جھوٹ، فریب، ریاکاری، مکاری اور دیگر برائیوں میں اس قدر مبتلا ہوچکا ہے کہ کسی طور بھی ان سے دست بردار ہونے کو تیار نہیں۔ اسلام کے زرّیں اصولوں، تعلیمات کو فراموش کرنے کے نتیجے میں آخرت کا تصوّر تک دھندلا گیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج جب اس خطرناک وبا نے ایک عفریب کی صورت عالم انسانیت پر حملہ کیا ہے، تو زندگی کھو دینے کا خوف اعصاب پر بری طرح سوار ہے۔

بلاشبہ، اللہ تعالیٰ نے انسان کی تخلیق کے بعد اسے اشرف المخلوقات کا درجہ دیا، لیکن اسے تیز دھوپ برداشت نہیں ہوتی، نرم بستر کے بغیر نیند نہیں آتی، کچّا کھانا ہضم نہیں ہوتا، پانی کے بغیر جینا محال ہے اور ناشکری اور خود پرستی کا یہ عالم ہے کہ کائنات کی بیش بہا نعمتوں سے فیض یاب ہونے کے باوجود اپنے رب ہی کو فراموش کرکے خود ساختہ سائنسی توجیہات اور تحقیقات کے بل بوتے پر نظامِ کائنات کی تخلیق اور بقا کے بھونڈے جواز بنا ڈالے۔حالاں کہ تجربات ہی کے ذریعے سائنس یہ ثابت کرچکی کہ انسانی ذہن اور نظر کی حد محدود ہے، اس کی آسان سی مثال یہ ہے کہ اگر کوئی کمرے میں موجود کسی ایک چیز کو بغور دیکھ رہا ہو، تو وہ گردو پیش سے کسی حد تک غافل ہوجاتا ہے۔

اکثر وبیش تر ہم عام زندگی میں بھی اس کا مشاہدہ کرتے ہیں کہ اگر ٹیلی وژن پر کسی دل چسپ پروگرام میں منہمک ہوں تو اردگرد سے غافل ہوجاتے ہیں۔ ہمیں تو آسمان کی وسعتیں ناپنے کے لیے بھی دیو ہیکل دوربین ”ہبل“ (Hubble)کا سہارا لینا پڑتا ہے، تو اتنی محدودسمعی و بصری قوت کے ساتھ ہم کیسے خود کو اس کائنات کی ناقابلِ تسخیر اور خود مختار مخلوق سمجھ سکتے ہیں؟ جدید سائنسی تحقیق سے یہ بات ثابت ہوچکی ہے کہ کوئی قوت ہے، جو کائنات کے تمام اجسام بشمول سورج، چاند، ستاروں اور اربوں کہکشائوں کو تھامے ہوئے ہے اور انہیں حرکت دینے کے لیے مقناطیسی کشش فراہم کرتی ہے۔

اس مادّے کا نام سائنس دانوں نے Dark matter رکھا ہے، یعنی نظر نہ آنے والا۔ تاہم، سالہا سال کی تحقیق اور کھربوں روپے خرچ کرنے کے باوجود دنیا کا کوئی بھی سائنس دان اس مادّے کے ایک ذرّے کا بھی کھوج نہیں لگاپایا۔قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ نے چاند، سورج، ستاروں اور رات اور دن کے آنے جانے کو عقل والوں کے لیے اپنی بڑی نشانیاں بتاتے ہوئے ان پر غور کرنے کو کہا، لہٰذا قرآن و حدیث کے مطابق ہمیں اپنی اس ذمّے داری کو سمجھتے ہوئے جدید رصدگاہیں اور تجربہ گاہیں بنا کر دنیا کو کائنات کی اصل تصویر دکھانے کی ضرورت ہے۔

آج کورونا وبا کے سبب، 500 سال بعد اسپین کی سرزمین پربلند ہوتی اذان کی ایمان افروز صدائیں، چین کی مساجد میں دعائیۂ تقریبات کا انعقاد، فرانس جیسے ملک میں گھروں کی بالکنیز میں مسلم کمیونٹی کا ببانگ دہل اذانیں اور دعائیہ محافل، یہ سب کچھ ایک زبردست قدرت اور اختیار کے مالک اللہ رب العزت کی حقانیت ہی کا منہ بولتا ثبوت ہے، جو بھٹکے ہوئے انسانوں کو بتارہا ہے کہ کائنات میں حکم اور مرضی صرف اور صرف اسی کی چلے گی۔

کل تک گلوبل ویلیج کی تکرار کرنے والے آج سوشل ڈسٹینسنگ پر اصرار کررہے ہیں۔ آج سب کھیل تماشے، کلب، جم، بازار، ناچ گانے کی پارٹیاں، بے حیائی کے اڈے بند ہیں، ہر گھر میں اللہ کا ذکر، نماز، قرآن کی تلاوت ہورہی ہے۔ چین، جاپان، فرانس، اٹلی اور امریکا سمیت دنیا بھر کے تمام ممالک کے تھنک ٹینکس، جنہوں نے اگلی کئی دہائیوں تک کی پیشگی پلاننگ کر رکھی تھی، اگلے لمحے کے بارے میں کچھ کہنے سے قاصرہیں۔

آج لاک ڈائون اور گھروں میں ’’ریسٹرین سینٹرز“میں بیٹھ کر شاید یہ بے حس اور بے ضمیر انسان اس خوف، دُکھ اور قیدِ تنہائی کو محسوس کرپائیں، جس میں ایک طویل عرصے سے کشمیر کے نہتّے، بے بس، لاچار مسلمان، فلسطینی، یمنی، شامی باشندے، روہنگیا کیمپس اور بنگلادیش میں محصور پاکستانی زندگیاں گزارنے پر مجبور ہیں۔

یقیناً جذبۂ ایمانی رکھنے والے تو اس تمام صورتِ حال میں خود احتسابی ضرور کریں گے، تاہم کفر میں جکڑے ہوئے کبھی بھی مشیتِ الٰہی کی حکمتوں کا ادراک نہیں کرسکتے۔ حدیثِ پاک ہے، “اللہ خاص لوگوں کے عمل پر عام لوگوں کو عذاب نہیں دیتا، مگر جب وہ اپنے سامنے بدی کو دیکھیں اور اس کو روکنے کی قدرت رکھنے کے باوجود اسے نہ روکیں، تو اللہ خاص وعام سب کو مبتلائے عذاب کردیتا ہے۔“ لہٰذا اس حدیث کے تناظر میں ہمیں اپنا جائزہ لینا ہوگا کہ برائی کو نہ روک کر ہم خود بھی کہیں خدا نخواستہ عذابِ الٰہی کے مستحق نہ ٹھہرائے جائیں۔