کورونا دور میں عید

May 24, 2020

اس بار عید بے حد اداس، بے قرار رہے گی۔ بیش تر مُمالک میں نمازِ عید کے اجتماعات نہیں ہوں گے۔ اور ہم ہمارے جیسے مُمالک میں نمازِ عید پڑھی بھی گئی، تو سخت پابندیوں اور احتیاطی تدابیر کے تحت ہی ہوگی۔ اِس بار تو گلے ملنا اور ہاتھ مِلانا بھی گویا اِک رسمِ ممنوع ٹھہری۔ خانۂ کعبہ اور مسجدِ نبویؐ مسلمانوں کے مقدّس ترین مقامات ہیں، مگر وہاں بھی تقریباً پورا رمضان کرفیو کے سائے میں گزر گیا۔ بہت محدود پیمانے پر نمازِ تروایح کی اجازت دی گئی۔ چوں کہ انسانی جان بچانا دینِ اسلام کا حکمِ اولین ہے، لہٰذا سعودی حکومت نے دینی احکامات پر انتہائی سختی سے عمل درآمد کروا کے شہریوں کی جان بچانے کی کوشش کی۔ سعودی عرب میں 29 رمضان سے 4 شوال تک کرفیو کا اعلان کیا گیا، یعنی اس بار ایامِ عید گھر بیٹھ کر گزارنے ہوں گے۔ اور عید پر اپنوں سے دُوری ہی رہے گی۔

لوگ ایک شہر میں رہ کر بھی ایک دوسرے سے نہیں مِل پائیں گے کہ اِس نہ ملنے ہی میں سب کی بھلائی ہے۔ شاید پہلی بار قربتوں میں فاصلوں کی حمایت کی جائے گی اور شہری اس نئی رسم پر عمل پیرا بھی ہوں گے۔ اگر دیکھا جائے، تو ہم پہلے بھی بہت سی عید غموں کے سائے تلے منا چُکے ہیں۔ بچپن سے پچپن تک جانے کتنی ہی ایسی عیدیں گزری ہیں، جن میں حکم رانوں کی جانب سے عید سادگی سے منانے کا اعلان کیا گیا۔ تاہم ، اِس بار تو کسی کے کہے بغیر ہی عید بے حد سادگی سے منائی جائے گی۔ بھلا یہ کیسے ممکن ہے کہ ایک طرف تو پوری دنیا انتہائی مہلک وائرس کی لپیٹ میں ہو، اسپتال مریضوں سے بَھرے ہوں اور دوسری طرف ہلّا گلّا مچا ہو۔ ایک ایسے ماحول میں کوئی کیسے خوشیاں منا سکتا ہے، جب کہ خود اُسے یہ بھی معلوم نہ ہوکہ یہ خوشی منانا اُس کے لیے کسی ذاتی دُکھ یا صدمے کا پیش خیمہ ثابت نہ ہوجائے۔

ایسا کون ہوگا، جس کا عید پر اپنے پیاروں سے گلے مِلنے کو دل نہ کرتا ہو، عزیز واقارب کے ہاں آنے جانے کو دِل مچلتا نہ ہو، مگر اِس مِلنے ملانے اور خوشی کی قیمت کتنی بھاری اور اذیّت ناک ہوسکتی ہے، اس کے تصوّر ہی سے دِل بیٹھ سا جاتا ہے۔ ہم میں سے کوئی یہ سوچ بھی نہیں سکتا کہ وہ اپنے ہاتھوں سے اپنے پیاروں کو ایک ایسی بیماری میں مبتلا کردے اور وہ بھی عید کے دن کہ جس کا ابھی تک علاج بھی دریافت نہیں ہوسکا۔

اِس بار قوم نے23 مارچ کو کورونا وائرس سے بچائو کے لیے’’ یومِ پاکستان‘‘ بھی انتہائی سادگی سے منایا۔ روایتی فوجی پریڈ ہوسکی اور نہ ہی دیگر تقاریب۔ ایسا کرنا بالکل ٹھیک تھا کہ جب مُلک و قوم کسی آزمائش سے گزر رہے ہوں، تو پھر اِسی طرح کے فیصلے مناسب ہوتے ہیں۔ ریاست کا سب سے بڑا فرض اور ذمّے داری اپنے شہریوں کی حفاظت کرنا ہے۔ جب شہری پریشان ہوں، اُنہیں جان کے لالے پڑے ہوں اور ایسے میں اُن کی حفاظت کا واحد طریقہ گھروں تک محدود رہنا ہو، تو پھر ریاست کو اُنہیں میلوں ٹھیلوں یا میدانوں میں جمع کرنے کی بجائے گھروں ہی میں بِٹھانا چاہیے۔ ہماری سِول اور فوجی قیادت نے ایسا ہی کیا، جس کی وجہ سے لوگ گھروں پر رہے۔ اس ہوش مندانہ فیصلے کی ہر طرف سے ستائش کی گئی۔ بہرحال، ہمیں ایک نظر باقی دنیا پر بھی ڈال لینی چاہیے کہ وہاں کورونا دَور میں مذہبی تہوار اور قومی دن کیسے منائے گئے، کیوں کہ ہم دنیا سے الگ تھلگ یا کٹ کر نہیں رہ سکتے۔

کچھ لوگ اب بھی سازشی تھیوریز پر دماغ کھپا رہے ہیں، وہ کورونا وائرس کی تباہ کاری کو ایک سازش اور کسی عالمی جنگ کا حصّہ قرار دینے پر مُصر ہیں، حالاں کہ اُنہیں اِتنی سی بات بھی سمجھ نہیں آرہی کہ آخر یہ کیسی جنگ ہے، جس میں دوست، دشمن سب ہی نشانہ بن رہے ہیں۔55 لاکھ متاثرین اور تین لاکھ اموات کو دیکھنے کے بعد بھی اگر کوئی اسے سازش قرار دینے پر اَڑا ہوا ہے، تو اُس کی دماغی حالت پر سوائے ترس کھانے کے اور کیا کیا جاسکتا ہے؟ اپریل کے شروع میں ایسٹر آیا۔ یہ عیسائیوں کا سال میں دوسرا بڑا محترم اور خوشی کا دن ہوتا ہے۔

یورپ میں یہ موسمِ بہار کے ساتھ آیا، تو لوگوں کی بے چینی اور بے قراری دیدنی تھی۔ برطانیہ، فرانس، جرمنی، اٹلی، اسپین، امریکا، کینیڈا، آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ سمیت تمام ممالک سے ایسٹر کی سُونی سُونی تقریبات ٹی وی اسکرینز پر نظر آرہی تھیں، جنھیں دیکھ کر لگتا ہی نہیں تھا کہ واقعی ایسٹر ہی منایا جا رہا ہے، کیوں کہ عمومی طور پر ایسٹر کی روایتی تقاریب بہت دھوم دھام سے منائی جاتی ہیں۔ یہ وہ وقت تھا، جب ان ممالک میں کورونا اپنے جوبن پر تھا۔ وہاں کے لوگوں نے تہوار منانے کی بجائے جان بچانے کو ترجیح دی کہ جان ہوگی تو تہوار بھی منائے جاتے رہیں گے۔ تمام عیسائی فرقوں نے کسی حیل وحجّت کے بغیر لاک ڈائون کی پابندی کی۔ کوئی شاپنگ کے لیے باہر نکلا اور نہ کسی کو نئے کپڑوں، جوتوں کی فکر تھی۔ بس ایک دوسرے کی زندگی اور خیریت ہی مطلوب رہی۔

یقیناً عیسائی برادری کے لیے یہ ایک کرب ناک منظر ہوگا، جب پاپائے روم، ویٹی کن سٹی کے وسیع و عریض کیتھڈرل ہال میں تنہا کھڑے ہو کر اپنے پیروکاروں سے مخاطب ہوئے۔ اُن کا پیغام لوگوں نے اپنے گھروں میں بیٹھ کر سُنا۔ اُس موقعے پر کسی طرح کے اجتماعات نہیں ہوئے، یہاں تک کہ دُعائیہ تقاریب بھی گرجا گھروں کی بجائے آن لائن ہوئیں۔ اسی کورونا کے دَوران ہندوئوں کی ہولی اور دیوالی کے تہوار بھی آئے، جس کے دوران بھارت کے سوا ارب شہری لاک ڈائون میں تھے۔ اِس لیے یہ تہوار زیادہ تر گھروں ہی میں منائے گئے۔ جگہ جگہ پولیس کا سخت پہرہ رہا تاکہ کسی کو اجتماعات کا موقع نہ مل پائے۔ چین میں لنڈر کے تہوار کے موقعے پر اپنے بزرگوں کو یاد کرنے کے لیے قبرستانوں میں صفائی کی جاتی ہے، تاہم اس بار چینیوں نے اپنے بزرگوں کو آن لائن ہی یاد کیا۔

کیا کسی نے سوچا تھا کہ اِس سال کا ایسٹر، عید، ہولی، دیوالی، سَمرفیسٹیول اور دنیائے کھیل کا سب سے بڑا ایونٹ، اولمپکس (جو ہر چار سال بعد سجتا ہے اور آخری بار اس پر 50 ارب ڈالرز خرچ ہوئے تھے) ایک ایسے زمانے میں آئیں گے، جب دنیا بھر کے انسان ایک اَن دیکھے دشمن سے لڑ رہے ہوں گے۔ اس بے چہرہ دشمن کی طاقت ایسی ہے کہ ایٹمی ہتھیاروں سے لیس ریاستیں بھی اس کے سامنے بے بس ہیں۔ جدید ترین ہتھیار اس کا کچھ بگاڑ پا رہے ہیں اور نہ ہی ترقّی کے دعوے اس کی راہ میں حائل ہیں۔ مکۃ المکرّمۃ اور مدینۃ المنوّرہ میں ماہِ رمضان کے دوران ایک الگ ہی سماں ہوتا ہے۔ دنیا بھر کے مسلمان اس موقعے پر دیوانہ وار وہاں کا رُخ کرتے ہیں۔ ہزاروں افراد مسجد الحرام اور مسجدِ نبویؐ میں ماہِ رمضان کے آخری عشرے میں اعتکاف کرتے ہیں۔ نیز، نمازِ تراویح اور سحر و افطار کے رُوح پرور مناظر دِلوں کو نہال کر دیتے ہیں، مگر اِس بار مسلمانوں کے دِل اداس ہی رہے کہ وہ پابندیوں کے سبب اپنے ان مقدّس مقامات کی زیارت سے محروم رہے اور جو وہاں تھے، اُنہیں بھی محدود پیمانے پر اجتماعی عبادات کی اجازت دی گئی۔

نمازِ تراویح کے چھوٹے چھوٹے اجتماعات ہوئے۔ پوری عرب دنیا سمیت بیش تر مسلم ممالک میں کورونا کے سبب مساجد بند رہیں اور اب بھی طرح طرح کی پابندیاں عاید ہیں۔ تُرکی کے 31 شہر کرفیو کی لپیٹ میں ہیں۔ کربلا اور ایران کی زیارت گاہیں بھی بند ہیں، تاہم اب اُنہیں پابندیوں کے ساتھ کھولنے پر غور کیا جارہا ہے۔ پورے عالمِ اسلام میں روزہ داروں نے گھروں ہی میں رہنے کو ترجیح دی اور کہیں بھی روایتی افطار پارٹیز نہ ہو سکیں۔ اگر اِس پس منظر میں دیکھا جائے، تو اِس بار ہم عید کیوں کر منا سکتے ہیں، جب کہ لاکھوں افراد کی ہلاکتوں کی خبریں روزانہ ہمارے سامنے آ رہی ہیں، جن میں ہمارے بزرگ، جوان، خواتین اور بچّے بھی شامل ہیں۔ اس جنگ میں پولیس، رینجرز، فوج اور دیگر اداروں کے شیر دِل جوانوں نے قربانیاں دی ہیں۔ وہ جو ہماری حفاظت کے لیے دن رات دفاتر میں بیٹھے ہیں اور سڑکوں پر موجود ہیں، اُنہیں کیسے بھلا سکتے ہیں؟

پھر وہ ڈاکٹرز اور دیگر طبّی عملہ، جو کورونا کے خلاف عید کے دنوں میں بھی جنگ لڑ رہا ہے، اُنہیں بھول جانا تو احسان فراموشی ہوگی۔ بلاشبہ یہ وہ بہادر سپاہی ہیں، جو اپنی جانوں کو خطرات میں ڈال کر اپنے جیسے انسانوں کو بچانے کی ایک مقدّس جنگ لڑ رہے ہیں۔ اگر کوئی ان سب کو فراموش کرکے عید مناتا ہے، تو واقعی یہ بڑے دِل گردے کا کام ہے کہ اِس کے لیے ہر طرح کے احساسات سے عاری ہونا پڑے گا۔ ہم عید اور خوشی اس دن مناسکتے ہیں، جب کورونا وائرس کو مکمل شکست ہوجائے گی، اس کی ویکیسن ایجاد ہوگی اور زندگی اپنے معمول کی طرف لَوٹ آئے گی۔ خوشی کا دن تو وہ ہوگا، جب ملکوں، شہروں بلکہ محلّوں کے درمیان فاصلے پہلے کی طرح سمٹ جائیں گے۔ ہمیں اُس دن کے انتظار کے لیے صبر اور حوصلے سے کام لینا ہوگا کہ وہ خوشیوں بھرا دن جلد طلوع ہوگا۔ علاوہ ازیں، ہمیں بیرونِ مُلک مقیم اپنے پاکستانی بھائیوں کے احساسات و جذبات کا بھی ادراک ہونا چاہیے۔ وہ موجودہ حالات میں سخت پابندیاں توڑ کر خوشیوں میں ہمارے ساتھ شریک نہیں ہو سکتے۔ ہمیں اُن کے ساتھ اظہارِ یک جہتی کے لیے بھی سادگی سے عید منانی چاہیے۔

کورونا کی نظر میں امیر، غریب کا کوئی فرق نہیں۔ یہ سب کو یک ساں طور پر نشانہ بناتا ہے۔ یہ موت کی آواز ہے۔ گورنینس اور سائنس کے بہتر استعمال کا چیلنج ہے۔ حکم ران خواہ کوئی بھی بیان دیں، سیاسی کھیل کھیلیں یا عقل سے کام لیں، مگر یہ ایک اٹل حقیقت ہے کہ کورونا وبا سے نِمٹنے میں ذرا سی کوتاہی اور غفلت سب کے لیے تباہی ہے۔ یہ کوتاہی مُلکی معیشت ہی نہیں، قومی عزم کو بھی کم زور کر دے گی۔ عوام کو خوش کرنے کے لیے بیان دینا کہ ’’زبردستی نہیں کی جاسکتی، ڈنڈا استعمال نہیں کیا جاسکتا‘‘ کسی طور درست نہیں۔ کیا حکومتوں نے پہلے کبھی کسی معاملے پر ڈنڈا استعمال نہیں کیا؟ ہماری تاریخ تو’’ ڈنڈا گردی‘‘ کے واقعات سے بَھری پڑی ہے۔

پھر یہ سوال بھی اہم ہے کہ جب کچھ کرنا ہی نہیں، تو پھر قوانین کیوں بنائے جاتے ہیں؟ ہر کام عوام کی صوابدید پر چھوڑ دینا چاہیے۔ اُن کی مرضی، جو چاہے کریں۔ کیا کسی ذمّے دار ریاست میں ایسا ہو سکتا ہے کہ عوام کو مَن مانی کی چُھوٹ دے دی جائے اور حکم ران جمہوریت اور عوام کی آڑ میں سمندر کنارے بیٹھ کر بانسری بجاتے رہیں؟ کیا ہمارے ہاں مغرب سے بھی زیادہ جمہوریت ہے؟ وہاں تو عوام کو لاک ڈائون کی پابندیوں میں سختی سے جکڑا گیا، جس کی ہر جانب سے حمایت بھی کی گئی۔ دراصل، دنیا کے ہر سمجھ دار حاکم نے عوام کی جان کی حفاظت کو اوّلیت دی اور معاش سمیت باقی معاملات کو پیچھے رکھا۔ افسوس تو یہ ہے کہ جب پاکستان میں معیشت پر زور دینے کا وقت تھا، اُس وقت ہم دنیا بھر کے غم میں ہلکان ہو رہے تھے۔

اب جب جان پر بنی ہوئی ہے، تو حکم رانوں پر معیشت بہتر کرنے کا بھوت سوار ہے۔اللہ کرے، اب تو حکم رانوں کو احساس ہوجائے کہ دنیا بھر کے بکھیڑوں میں پڑنے کی بجائے اپنی معیشت مضبوط کرنا کس قدر اہم اور ضروری ہے۔ وگرنہ ہر مشکل وقت میں کشکول لیے ہی پِھرنا پڑتا ہے۔ درحقیقت کسی قوم کی اصل عید تو اُس کی وہ معاشی طاقت ہے، جس سے اُس کا سَر بلند رہتا ہے۔ کیا ایک عید منا کر ہم چین، جاپان اور جرمنی سے زیادہ خوش حال ہوجائیں گے؟ یہ سوال آج ہر پاکستانی کو خود سے ضرور پوچھنا چاہیے۔ خاص طور پر ایک ایسی عید، جو کورونا وائرس جیسے عالمی وبا کے دَور میں قرضوں اور امداد کے پیسوں سے منائی جارہی ہو۔ بلاشبہ عید پر اپنوں سے دُوری ایک تکلیف دہ امر ہے، لیکن انٹرنیٹ نے یہ دُوری بڑی حد تک مِٹا دی ہے۔ جنہیں دیکھنا ہو، اُنہیں اپنے ہاتھ کی ہتھیلی پر رکھے ایک چھوٹے سے وجود(موبائل فون) کی اسکرین پر دیکھا جاسکتا ہے۔

الف لیلیٰ کے جادوگر کا شیشہ تو صرف دُور کے مناظر دِکھاتا تھا، لیکن اس’’ سائنسی جادو‘‘ کے ذریعے دنیا کے کسی بھی کونے میں بیٹھے شخص کو نہ صرف یہ کہ دیکھا جا سکتا ہے، بلکہ گھنٹوں بات بھی کی جا سکتی ہے۔اِس بار ہم نے خود اپنے گھر میں اِس طرح کے مناظر دیکھے۔بچّوں کی روزہ کشائی ہوئی، تو کوئی لندن میں تھا،تو کوئی دبئی میں اور ہم پاکستان میں، لیکن انٹرنیٹ کے ذریعے سب خوشیوں میں شریک رہے۔ اب عید کے دن بھی ایسے ہی مناظر گھر گھر دیکھے جائیں گے۔ مِلنے ملانے کے چکر میں ایسا نہ ہو کہ خوشیاں تو دو پل کی ہوں اور آنسو عُمر بھر کے۔

یہ خیال بھی کتنا خوش کُن ہے کہ ساری دنیا بہت سی خوشیاں اور غم ایک ساتھ منانے لگی ہے، جو شاید اِس سے پہلے کسی نے سوچا بھی نہ تھا۔ کیا کبھی تصوّر بھی کیا تھا کہ ایک وائرس یوں سب کو یک جان کردے گا۔ ہمیں کورونا کے ساتھ کب تک جینا ہے؟اِس حوالے سے ابھی کچھ نہیں کہا جاسکتا۔یہ بھی درست ہے کہ غیر معیّنہ مدّت تک لاک ڈائون میں بھی نہیں رہا جا سکتا۔بڑے بڑے معاشی دیو ہل کر رہ گئے ہیں۔عالمی معیشتوں کے پہّیے جام ہوئے ہیں۔دوسری جنگِ عظیم میں یورپ، افریقا،جنوبی ایشیا اور مِڈل ایسٹ تباہ ہوا، لیکن امریکا ایک ایسی طاقت رہ گیا تھا، جس کے پاس دولت بھی تھی اور وسائل بھی۔

اُس نے’’ مارشل پلان‘‘ جیسے منصوبوں سے یورپ اور ایشیا کو دوبارہ اپنے پیروں پر کھڑا کر دیا۔خود جاپان، جو ایٹم بم سے خاکستر ہوا، صرف دس سال کی مدّت میں یوں اُٹھ کھڑا ہوا کہ جیسے جنگ کی تباہی دیکھی ہی نہ ہو۔ان اقوام کو بحالی میں اُس سے زیادہ عزم کی ضرورت پڑی، جتنی جنگ لڑنے کے لیے بھی درکار نہ تھی۔اب بھی ایسے ہی حوصلے اور عزم کی ضرورت ہے۔اِس میں کوئی شک نہیں کہ کورونا وائرس نے سب کو حواس باختہ کردیا ہے۔ہر فرد ایک ہی سوال پوچھ رہا ہے کہ آگے کیا ہوگا؟ جس کا سادہ سا جواب ہے، جو ہم خود چاہیں گے۔