عید کا تاریخی پس منظر عظمت و اہمیت اور فلسفہ

May 24, 2020

روح کی لطافت، قلب کے تزکیہ، بدن و لباس کی طہارت اور مجموعی شخصیت کی نفاست کے ساتھ انتہائی عجز و انکسار اور خشوع و خضوع کے ساتھ تمام مسلمانوں کا اسلامی اتحاد و اخوت کے جذبے سے سرشار ہوکر اللہ رب العزت کی بارگاہ میں سجدئہ بندگی اور نذرانہ شکر بجالانے کا نام عید ہے۔

٭لفظ عید کے معنی اور وجہ تسمیہ:۔عید کا لفظ عود سے ماخوذ ہے جس کے معنی’’ لوٹنا‘‘ ہے۔ چوںکہ یہ دن مسلمانوں پر بار بار لوٹ کر آتا ہے،اس لیے اس کو عید کہتے ہیں۔ (بحوالہ لسان العرب مصنف علامہ ابن منظورافریقی) ابن العربی نے کہا کہ عید کو ’’عید‘‘ اس لیے کہتے ہیں کہ یہ دن ہر سال مسرت کے ایک نئے تصور کے ساتھ لوٹ کر آتا ہے۔

٭عید، انسانی فطرت کا تقاضا:۔سال میں چند ایام جشن، تہوار اور عید کے طور پر دنیا کی تمام اقوام و ملل اور مذاہب میں منائے جاتے ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ ہر قوم، مذہب و ملت کے لوگ اپنے ایامِ عید کو اپنے اپنے عقائد، تصورات، روایات اور ثقافتی اَقدار کے مطابق مناتے ہیں،لیکن اس سے یہ حقیقت ضرور واضح ہوتی ہے کہ تصور ِعید انسانی فطرت کا تقاضا اور انسانیت کی ایک قدر مشترک ہے۔مسلمان چوںکہ اپنی فطرت، عقائد و نظریات اور ملی اقدار کے لحاظ سے دنیا کی تمام اقوام سے منفرد و ممتاز ہے۔ اس لئے اس کا عید منانے کا انداز بھی سب سے نرالا ہے، بقول علامہ اقبال ؒ ؎

اپنی ملت پر قیاس اقوام مغرب سے نہ کر

خاص ہے ترکیب میں قومِ رسولِ ہاشمی

دیگر اقوام کی عید محافل نائو نوش و رقص و سرود بپا کرنے، دنیا کی رنگینیوں اور رعنائیوں میں کھوجانے، مادرپدر آزاد ہوکر بدمستیوں میں ڈوب جانے، تمام اخلاقی اَقدار کو تج دینے، نفسانی خواہشات اور سفلی جذبات کو فروغ دینے اور ’’آج یا پھر کبھی نہیں‘‘ کے مصداق ہَوَسِ نفس کا اسیر بن جانے کا نام ہے۔اس کے برعکس اسلام میں روح کی لطافت، قلب کے تزکیے‘ بدن و لباس کی طہارت اور مجموعی شخصیت کی نفاست کے ساتھ انتہائی عجز و انکسارا ور خشوع و خضوع کے ساتھ تمام مسلمانوں کے اسلامی اتحاد و اخوت کے جذبے سے سرشار ہوکر اللہ رب العزت کی بارگاہ میں سجدئہ بندگی اور نذرانہء شکر بجالانے کا نام عید ہے۔

٭قرآن مجید میں ذکرِ عید:۔قرآن مجید میں سورئہ مائدہ میں حضرت عیسٰی علیہ السلام کی ایک دعا کے حوالے سے عید کا ذکر موجود ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:’’عیسٰی ابن مریم (علیہ السلام) نے عرض کیا کہ اے اللہ! ہمارے پروردگار! ہم پر آسمان سے کھانے کا ایک خوان اتاردے (اور اس طرح ان کے اترنے کا دن) ہمارے لیے اور ہمارے اگلوں، پچھلوں کے لیے (بطور) عید(یادگار) قرار پائے اور تیری طرف سے ایک نشانی ہو اور ہمیں رزق عطا فرما اور تو بہترین رزق عطا فرمانے والا ہے ۔اس سے اگلی آیت میں ارشاد خداوندی ہے:’’اللہ نے فرمایا کہ میں یہ( خوان) تم پر اتار تو دیتا ہوں مگر اس کے بعد تم میں سے جو کفر کرے، تو میں اسے ایسا عذاب دوں گا جو سارے جہانوں میں اور کسی کو نہ دیا ہو۔‘‘

رہا یہ سوال کہ دعائے عیسٰی علیہ السلام کے نتیجے میں ان کی قوم پر یہ خوان اتر ایا نہیں، قرآن نے اس سلسلے میں سکوت اختیار فرمایا ہے، البتہ تفاسیر میں دونوں طرح کی روایات موجود ہیں۔ ہمارے زیرِ بحث موضوع سے جو بات متعلق ہے وہ یہ ہے کسی قوم کے مسرت کے دن کا قرآن نے عید کے عنوان سے ذکر کیا ہے اور جو دن کسی قوم کے لئے اللہ کی کسی خصوصی نعمت کے نزول کا دن ہو، وہ اس دن کو اپنا یوم ِعید کہہ سکتی ہے۔

٭اسلام میں عید کا آغاز:۔خالص اسلامی فکر اور دینی مزاج کے مطابق اسلامی تمدن،معاشرت اور اجتماعی زندگی کا آغاز ہجرت کے بعد مدینۂ منوّرہ میں ہوا۔ چناںچہ رسول اللہ ﷺ کی مَدَنی زندگی کے ابتدائی دور میں عیدین کا مبارک سلسلہ شروع ہوگیا تھا۔حضرت انس ؓ سے روایت ہے کہ اہل ِمدینہ دو دن بطور ِتہوار منایا کرتے تھے جن میں وہ کھیل تماشے کیا کرتے تھے۔ رسول اللہ ﷺ نے ان سے پوچھا ’’یہ دو دن جو تم مناتے ہو، ان کی حقیقت اور حیثیت کیا ہے؟‘‘ (یعنی ان تہواروں کی اصلیت اور تاریخی پس منظر کیا ہے؟) انہوں نے عرض کیا کہ ہم عہد ِجاہلیت میں (یعنی اسلام سے پہلے) یہ تہوار اسی طرح منایا کرتے تھے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ’’اللہ تعالیٰ نے تمہارے ان دونوں تہواروں کے بدلے تمہارے لیے ان سے بہتر دو دن مقرر فرمادیئے ہیں، یوم (عید) الاضحی اور یوم (عید) الفطر۔‘‘(سنن ابو داؤد)۔

چوںکہ اسلام دین ِفطرت ہے اس لیے اس نے جہاں اپنے ماننے والوں کو لادینی نظریات سے محفوظ رکھا وہاں ان کے صحیح جِبِلِّی اور فطری تقاضوں کی آبیاری بھی کی، عید منانا انسانی فطرت کا تقاضا تھا لہٰذا مسلمانوں کو ایک عیدکے بجا ئے د و عیدوں( عید الفطراورعیدالاضحی) کی نعمت عطا فرمائی۔

٭عیدین کا پس منظر:۔جس طرح ہر قوم وملت کی عید اور تہوار اپنا ایک مخصوص مزاج اور پس منظر رکھتے ہیں،بالکل اسی طرح اسلامی عیدین کا بھی ایک حسین ودلکش اور ایمان افروز پس منظر ہے ۔رمضان المبارک ایک انتہائی بابرکت مہینہ ہے ۔یہ ماہ مقدس اللہ تعالیٰ کی خصوصی رحمتوں ، مغفرتوں اور عنایات وبرکات کا خزینہ ہے ، اسے ماہ نزول قرآن ہونے کا شرف بھی حاصل ہے ۔فتح مکہ اور اسلامی تاریخ میں حق وباطل کا پہلا فیصلہ کن معرکہ یعنی غزوۂ بدر اسی مبارک مہینے میں وقوع پذیر ہوئے ۔ روزے کی عظیم المرتبت عبادت کی فرضیت کا شرف بھی اسی مہینے کو عطا کیا گیا ۔تراویح کی صورت میں ایک مسنون نماز بھی اس مہینے کی روحانی بہاروں میں ایک اور اضافہ ہے ۔ اور پھر سب سے بڑھ کر ہزار مہینوں کی عبادت پر فوقیت رکھنے والی ایک رات، جسے قرآن نے ’’لیلۃ القدر ‘‘کہا ، اسی رمضان میں یہ نعمت بھی پوشیدہ ہے ، یہی وہ مبارک مہینہ ہے جس میں بندۂ مومن ایک عشرے کے لیے سب سے کٹ کر اپنے رب سے لَو لگانے کے لیے اعتکاف میں بیٹھ جاتا ہے ،جب بندۂ مومن اتنی بے پایاں نعمتوں میں ڈوب کر اور اپنے رب کی رحمتوں سے سرشار ہوکر اپنی نفسانی خواہشات ، سفلی جذبات ، جسمانی لذّات ، محدود ذاتی مفادات اور گروہی تعصبات کو اپنے رب کی بندگی پر قربان کر کے سرفراز وسربلند ہوتا ہے، تو وہ رشکِ ملائک بن جاتا ہے ، اللہ کی رحمت جوش میں آتی ہے ، ازراہِ کرم عنایتِ باری تعالیٰ کا یہ تقاضا بن جاتا ہے کہ وہ پورا مہینہ اپنی بندگی میں سرشار ، سراپا تسلیم واطاعت اور پیکر صبر ورضا بندے کے لیے اِنعام واِکرام کا ایک دن مقرر فرمادے ۔ چناںچہ یہ ماہ ِ مقدس ختم ہوتے ہی یکم شوال کو وہ دن عید الفطر کی صورت میں طلوع ہوجاتا ہے ۔

رمضان کی آخری رات فرمانِ رسول ﷺ کے مطابق ’’یومِ الجزا ء‘‘قرار پائی ہے اور اللہ کے اس اِنعام واِکرام سے فیض یاب ہونے کے بعد اللہ کا عاجز بندہ سراپا سپاس بن کر شوال کی پہلی صبح کو یومِ تشکُّر کے طور پر مناتا ہے ۔ بس یہی حقیقت ِ عید اور روحِ عید ہے ۔اسی طرح سے عید الاضحیٰ کا بھی ، جو 10ذوالحجہ کو منائی جاتی ہے، ایک مخصوص پس منظر ہے ، جس کی تفصیل بیان کرنے کا یہ موقع نہیں ہے۔

٭نمازِ عید:۔نمازِ عید کا ثبوت صحیح احادیث سے ملتا ہے ۔احناف کے نزدیک عید کی نماز ہر اس شخص پر واجب ہے جس پر جمعہ فرض ہے،دیگر ائمہ میں سے بعض کے نزدیک فرضِ کفایہ ہے اور بعض کے نزدیک سنتِ مؤکَّدہ ۔ نمازِ عید بغیر اذان واقامت کے پڑھنا حدیث سے ثابت ہے ۔نمازِ عید کا وقت چاشت سے نصفُ النّہار شرعی تک ہے ۔عید الفطر ذرا تاخیر سے پڑھنا اور عید الاضحیٰ جلدی پڑھنا مستحب ہے ۔ نمازِ عید کے بعد امام کا دو خطبے پڑھنا سنت ہے ۔ احناف کے نزدیک نمازِ عید میں چھ زائد تکبیر یں ہیں جو پہلی رکعت میں سورۂ فاتحہ سے پہلے تین اور دوسری رکعت میں رکوع سے پہلے تین زائد تکبیریں امام کے ساتھ پڑھنی چاہییں ۔ دیگر ائمہ کے نزدیک ان زائد تکبیرات کی تعداد چھ سے زائد ہے۔ عید کی نماز آبادی سے باہر کھلے میدان میں پڑھنا سنت ہے ۔ عیدالفطر میں نماز سے پہلے کچھ کھا پی لینا سنت ہے ۔