عفو درگزر کی فضیلت

June 07, 2020

علامہ محمد ابراہیم خلیل

اسلامی تعلیمات میں مسلمان اور مومن کے جو اوصاف بیان کیے گئے ہیں،ان کے مطابق وہ آپس میں بھائی بھائی ہیں اور ہر بھائی دوسرے بھائی کا خیرخواہ ہوتا ہے، کوئی کسی کےلیے کسی قسم کی پریشانی کا باعث نہیں بنتا۔ ہر بھائی، دوسرے بھائی کےلیے امن و سلامتی کا باعث ہوتا ہے، جس کی بدولت ان بھائیوں میں کوئی پریشان کن مسئلہ پیدا نہیں ہوتا ہے۔ یوں مومن انسان بلا خوف وخطر اس دنیا میں بھی جنّتی زندگی کالطف اٹھاتے ہیں۔ قرآنِ کریم میں اس حقیقت کو اس طرح بیان کیا گیاہے۔ ترجمہ’’جنہوں نے میرے احکامات کی پیروی کی، انہیں نہ توکسی قسم کا خوف ہوگا اور نہ حزن۔‘‘ ہماری اجتماعی حالت یہ ہے کہ ہم، بے شمار پریشان کن مسائل و مشکلات میں گِھرے ہوئے ہیں۔

ہماری آپس کی دشمنیاں عروج پر، بھائی بھائی میں نااتفاقی، باپ بیٹے میں لڑائی، میاں بیوی میں ناچاقی، مساجد اور درس گاہوں کی الگ الگ شناخت، علمائے دین کا وجود اتحاد بین المسلمین کا سبب بننے کے بجائے تفرقے اور انتشار بین المسلمین کا باعث بنا ہوا ہے۔ سیاست دانوں کے آپس کے تعلقات بھی اسلامی تعلیمات کے آئینہ دار ہر گز نہیں۔ راہِ حق سے لوگوں کی دُوری کا اندازہ اس امر سے لگایا جاسکتا ہے کہ لوگ ایک ہی محلّے اور ایک ہی شہر میں رہنے کے باوجود ایک دوسرے کی شکل تک دیکھنے کے روادار نہیں ہوتے۔ ان حقائق کی روشنی میں ہمیں حقیقی مومن اور حقیقی مسلمان بننے کےلیے اپنی اجتماعی سوچ میں انقلابی تبدیلی لانے کی اشد ضرورت ہے۔ نماز، روزہ، زکوٰۃ اورعمرہ و حج کے علاوہ ایسے اعمال کی طرف توجّہ دینے کی بھی ضرورت ہے، جو باہم دست وگریباں پاکستانیوں کو ایک اور نیک کردیں۔ بلاشبہ، مسلمانوں کو ایک کردینے والا عمل یقیناً ایک ایسا عمل ہوگا، جو اللہ کے نزدیک دیگر تمام اعمال کے مقابلے میں سب سے وزنی ہوگا۔درحقیقت ہمارا آپس کا اتحاد ہی ہماری تمام مشکلات ومسائل کا واحد یقینی حل ہے اور اس اتحاد کا راستہ ہم وار کرنے کے لیے ہمیں ایک دوسرے کو معاف کردینے اور ایک دوسرے سے معافی مانگنے کا راستہ اپنانا ہوگا۔

ایک دوسرے کو معاف کردینے کا عمل ہی دراصل تمام افرادِ معاشرہ کو درپیش انفرادی و اجتماعی مسائل و مشکلات کے حل کا واحد راستہ ہے اور آخرت میں اللہ ربّ العالمین کی رضا حاصل کرکے جنّت میں داخلے کے پروانے کا ذریعہ بھی۔ معاشرے میں اتحاد اسی صورت قائم ہوسکتا ہے، جب ہم ایک دوسرے کو معاف کرکے آپس کے تمام اختلافات ختم کردیں۔ اس ضمن میں معروف صوفی دانش وَر واصف علی واصف مرحوم نے فرمایا: ’’ظلم کا پہیہ اُس وقت تک جام نہیں ہوتا، جب تک معاف کرنے اور معافی مانگنے کا حوصلہ اور شعور پیدا نہ ہو۔ بدلہ لینے کی تمنّا‘ ظلم کی اساس ہے۔ معاف کردینے کی آرزو، ظلم کے خاتمے کےلیے ضروری ہے۔ ظالم کے ساتھ کیا سلوک کرنا چاہیے، پیغمبروں کی زندگی سے معلوم ہوتا ہے۔ بھائیوں نے حضرت یوسف علیہ السلام کے ساتھ جو سلوک کیا تھا، اس کا بدلہ یہی تھا کہ ’’جائو آج کے دن تمہارے لیے کوئی سزا نہیں ہے۔‘‘ فتح مکّہ کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنے مخالفین کے لیے یہی ارشاد تھا کہ ’’جائو تم سب کے لیے آج کوئی سزا نہیں۔‘‘ (انتم الطلقاء، لاتثریب علیکم الیوم)، اگر معاشرے میں معافی مانگنے اور معاف کرنے کا عمل شروع ہوجائے‘ تو ظلم کی روک تھام ممکن ہے۔ یوں بھی خودپسندی ترک ہوجائے‘ تو ظلم رک جاتا ہے۔ انا کا سفر رکے‘ تو ظلم کا سفر بھی رک جاتا ہے۔ ہر وہ شخص جو اللہ سے اپنے گناہوں کی معافی کا خواست گار ہے، اُسے چاہیے کہ پہلے سب کو خود معاف کردے۔ کہ جس نے معاف کیا، وہ معاف کردیا جائے گا۔ دوسروں پر احسان کرنے سے ظلم کی یاد بھی ختم ہوجاتی ہے۔ حق والے کا حق ادا کردیں، بلکہ اُسے حق سے بھی سِوا دیں، تو بس اس عمل سے ظلم ختم ہوجائے گا۔ جس معاشرے میں مظلوم اور محروم نہ ہوں، وہی معاشرہ فلاحی معاشرہ ہے، ہم ایک عظیم قوم بن سکتے ہیں اگر ہم معاف کرنا اور معافی مانگنا شروع کردیں۔‘‘

افراد اور اقوام کی زندگی میں معافی اور درگزر کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ عفو و درگزر اللہ تعالیٰ کی بہت بڑی صفت ہے۔ اگر یہ نہ ہو، تو دنیا ایک لمحے کے لیے بھی آباد نہ رہے اور گناہوں سے بھری یہ دنیا آنِ واحد میں سونی ہوجائے۔ اللہ تعالیٰ کے خاص ناموں میں عفو (درگزر کرنے والا) غافر‘ غفور اور غفار (بہت زیادہ مغفرت کرنے والا) شامل ہیں۔ اللہ کی تو شان ہے ’’وھوالذی یقبل التوبۃ عن عبادہ ویعفو عن السیآت۔‘‘(ترجمہ: اور اللہ وہی ہے، جو بندوں کی توبہ قبول کرتا ہے اوراس کی بہت برائیوں کو معاف کرتا ہے)۔ اللہ پاک گناہوں پر شرم سار بندوں کو اپنی غفّاری کا یقین یوں دلاتا ہے۔ ترجمہ: ’’اور اس میں کوئی شبہ نہیں کہ مَیں البتہ اس بندے کی بڑی بخشش کرتا ہوں، جو توبہ کرے اور یقین لائے اور نیک کام کرے، پھر راہِ حق پر قائم رہے۔‘‘

یہ بات ذہن نشین کرلیں کہ کسی کو معاف کرنے سے معاف کرنے والے کی عزت و وقار میں کوئی کمی نہیں آتی، بلکہ اضافہ ہی ہوتا ہے۔ بنی نوع انسان کے لیے مجسمۂ رحمت بن کردنیا میں تشریف لانے والے ہمارے نبی حضرت محمدﷺ کا ارشاد ہے۔ ترجمہ: ’’اللہ تبارک وتعالیٰ اس شخص کی عزت و شرف میں اضافہ ہی فرماتا ہے، جو دوسروں کے ساتھ عفوودرگزر سے پیش آتا ہے۔‘‘آنحضرت ﷺ نے اپنی امّت کو بارگاہِ الٰہی میں کثرت سے معافی مانگنے کا طریقہ اس طرح بتایا، ترجمہ: ’’اے اللہ! تُو معاف کرنے والا ہے اور معافی کو پسند کرتا ہے، لہٰذا اے اللہ! تُو مجھے معاف فرمادے۔‘‘ اس دُعا کے ذریعے آپ صلی اللہ علیہ وسلم درحقیقت اپنی امّت کو یہ تعلیم دینا چاہتے ہیں کہ دعا کی یقینی قبولیت کےقیمتی لمحات میں بندوں کو اللہ سے وہ چیز مانگنی چاہیے، جس کی بندوں کوسب سے زیادہ ضرورت ہو، اور وہ ’’اللہ سے معافی‘‘ ہی ہے۔ اس لیے کہ اللہ تعالیٰ سے معافی ہی وہ راستہ ہے، جو اس کی رضامندی کے حصول کا یقینی ذریعہ بھی ہے۔ اللہ سے معافی کے طلب گاروں کو اس حقیقت کواچھی طرح یاد رکھنا چاہیے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ اُسی بندے کو معاف کرتا ہے، جو دوسروں کے ساتھ معافی اور درگزر سے کام لیتا ہے۔ حدیث میں ہے، ترجمہ: ’’ایک دوسرے پررحم کرنے والوں ہی پر خدائے رحمٰن رحم فرماتا ہے۔‘‘ ایک دوسری حدیثِ مبارکہ ’’اِرْحَمْ مَن فی الارض یَرْحَمُکم مَن فی السَّمَائِ‘‘ میں بھی یہی بات کہی گئی ہے۔ اس حدیثِ مبارکہ کا برمحل ترجمہ مولانا الطاف حسین حالی نے اپنے اس شعر میں کس خُوب صورتی کے ساتھ کیا ہے کہ؎کرو مہربانی تم اہلِ زمیں پر.....خدا مہرباں ہوگا عرشِ بریں پر۔ان ارشاداتِ رسول ﷺ سے یہ حقیقت واضح ہوکر سامنے آجاتی ہے کہ جس بندے کی یہ آرزو ہو کہ اُس کا خالق اُس سے راضی ہوجائے اور اُس پر رحمت کی بارش برسے، تو اُسے چاہیے کہ وہ پہلے اپنے خالق کی مخلوق کو راضی کرے۔کیوں کہ یہ ممکن ہی نہیںہے کہ مخلوقِ خدا تو آپ سے ناراض ہو اور خالق راضی رہے۔