جرائم کی وارداتوں میں موٹر سائیکل کا استعمال

May 31, 2020

اس مشینی دور میں جب ہر انسان وقت کی بچت چاہتا اور اپنی منزل پر بروقت پہنچنے کی فکر کرتا ہے تو ایسے میں اسے سواری بھی ایسی ہی درکار ہوتی ہے جو کہ وقت مقررہ پر اپنی منزل پر پہنچا دے۔ ایسے میں انسان نے دو پہیے والی سائیکل ایجاد کی اورجب وہ بھی اسی کی ضرورت کے لئے ناکافی ثابت ہوئی تو اس میں انجن لگا کر موٹر سائیکل بنا ڈالی۔ اس طرح اس نے اپنی منزل مقصود تک پہنچنے کے لئے سستی اور اچھی سواری حاصل کرلی لیکن جس طرح انسان کی فطرت میں میں شر اور خیر کا مادہ رکھا گیا ہے، اسی طرح اس نے اپنی زیر استغمال اشیاء کو’’ نظریہ ضرورت ‘‘کے کلیہ کے تحت کام میں لانا شروع کیا۔

موٹر سائیکل جو کہ اس کی ضرورت اور منزل تک جلد رسائی کا ذریعہ تھی ہے، اسے بھی جرائم کی وارداتوں میں استعمال کرنا شروع کردیا۔ ایک سروے کے مطابق پاکستان بالخصوص سندھ میں اسٹریٹ کرائم کے علاوہ لوٹ مار، اغواء برائے تاوان، قتل کی وارداتوں میں موٹر سائیکل کا استعمال اب عام بات ہے۔ کیونکہ اس کے ذریعے ریکی کرنا،کچے پکے راستوں حتی کی پگڈنڈیوں میں اسے چلانا آسان تر اور واردات کرکےگلیوں میں مڑ نے کے بعد اس کا پیچھا کرنا ناممکن ہوجاتا ہے ۔ مقتول کے ورثاء یا پھر عینی شاہد ین کی مضبوط گواہی ہو توملزم قانون کے شکنجے میں آسکتا ہے ورنہ دوسری صورت میں متاثرہ افراد یا مقتول کے ورثاء موٹرسائیکل سوار ملزمان کی گرفتاری کی آس لگائے دنیا سے رخصت ہوجاتے ہیں ۔

جنگ کے سروے کے مطابق ضلع شہید بینظیر آباد کے علاوہ کراچی اور دیگر سندھ کے اضلاع میں ٹارگٹ کلنگ، بم دھماکے،اغواء اور اسٹریٹ کرائمز جیسی ہائی پروفائل وارداتوںمیں اسی سہل سواری کا انتخاب کیا جاتا ہے۔ گزشتہ ماہ قاضی احمد میں پسند کی شادی کرنے والی خاتون حوا اور اس کی معصوم بچی کے سامنے اس کےشوہر کو چار مسلح افراد نے بھرے بازار میں گولیاں مار کر قتل کیا اور پھرموٹرسائکلوں پر باآسانی فرار ہوگئے۔ اسی طرح مسجد روڈ اور موہنی بازار میں موجود بنکوں سے رقم لے کر نکلنے والے افراد کا موٹر سائیکل سواروں نے پیچھا کیا اوران سے تمام رقم چھین لی۔ تاہم اب شہر میں سی سی ٹی وی کیمروں کی تنصیب کے بعدان وارداتوں میں کمی واقع ہوئی ہے۔

پولیس رپورٹ کے مطابق ضلع میں ڈیڑھ سال میں 72 ایسی موٹر سائیکلیں پولیس نے پکڑنے کا دعوی کیا ہے جو کہ جرائم پیشہ افرد سے برآمد کی گئیں۔ محکمہ ایکسائز کے اعدادوشمار کے مطابق ضلع شہید بینظیر آباد میں اس وقت کم و پیش ڈیڑھ لاکھ کے لگ بھگ موٹر سائیکلیں لوگوں کے زیر استعمال ہیں لیکن حیرت کی بات یہ ہے کہ ان میں سے صرف بیس ہزار کے قریب ہی موٹر سائیکلیں رجسٹرڈ ہیں جبکہ دیگر غیر رجسٹرڈ موٹر سائیکلیں بغیر اندراج سڑکوں پر دوڑ رہی ہیں۔ایک اندازے کے مطابق ان غیر رجسٹرڈ موٹر سائیکلوں میں دس فیصد سے زائد موٹر سائیکلیں یا تو چوری کی یا پھر چوری شدہ موٹر سائیکلوں کے پرزے نکال کر بنائی گئی ہیں جن کے ذریعے کی جانے والی واردات کا سراغ لگانا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے ۔

اس سلسلے میں ایس ایس پی شہید بینظیر آباد تنویر حسین تنیو نے جنگ کو بتایا کہ پولیس کو سب سےزیادہ مشکلات ان وارداتوں کا کھوج لگانے میں ہوتی ہیں جو کہ موٹر سائیکل استعمال کرکے کی جاتی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ موٹر سائیکل سوار ہوکر ملزمان واردات کرنے کے بعد اس اہم ثبوت کو ٹھکانے لگانے کا پہلے سے انتظام کر کے رکھتے ہیںاور وہ اس اہم ثبوت کو جب غائب کردیتے ہیں تو دیگر چیزوں کو تلاش کرنا خاصا دشوار کام بن جاتا ہے اکثر یہ دیکھا گیا ہے کہ قتل، اغواء اور ڈکیتی جیسے سنگین جرائم کرنے والے ملزمان جعلی نمبر پلیٹ لگا کر بھی پولیس کی آنکھوں میں دھول جھونکنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں اور پولیس کا کافی وقت اس غلط نمبر پلیٹ کی تصدیق میں گزرتا ہے جبکہ اس دوران ملزمان بھی پولیس کی دسترس سے دور ہونے میں کامیاب ہوجاتے ہیں ۔

ایس ایس پی نے بتایا کہ نواب شاہ میں استعمال شدہ موٹر سائیکلوں کی بڑی مارکیٹ ہے جہاں سے موٹر سائیکل خرید کر تاجرکراچی تک فروخت کرتے ہیں ۔پولیس اس سلسلے میں بھی کام کررہی ہے کہ استعمال شدہ موٹر سائیکلوں کی اتنی بڑی تعدا دجو آئے روز کراچی لے جائی جاتی ہے جہاں خود لاکھوں موٹر سائیکلیں دوڑ رہی ہیں کس مقصد کے لئے لے جائی جارہی ہیں۔انہوں نے بتایا کہ سندھ کے دیگر سینئر پولیس افسران سے اس بارے میں ان کے تجربات کی روشنی میں تجزیہ کیا ہے کہ کراچی سمیت پورے سندھ میں جرائم کا راستہ روک اور سندھ کو جرائم سے پاک کرنے کے لئےایکسائز قوانین میں انقلابی تبدیلیاں اب ناگزیر ہوچکی ہیں اور سندھ کرائمز ایکٹ میں یہ بات بھی شامل کی جائے اور سندھ اسمبلی اس پر قانون سازی کرے کہ موٹر سائیکل چاہے وہ نئی ہو یا استعمال شدہ اس کی خریداری کی قیمت میں رجسٹریشن فیس بھی شامل ہو اس طرح چوری کی موٹر سائیکل خود سے الگ ہوجائیںگی اور یہ موٹر سائیکلیں یا تو رجسٹرڈ ہوجائیں گی یان پھر ان سے جان چھوٹ جائے گی۔دوسرے بات یہ کہ رجسٹرڈ شدہ موٹر سائیکل کی نمبر پلیٹ پرائیویٹ کے بجائے سرکاری طور پر موٹر سائیکل کی باڈی کے مطابق ایک ہی قسم کی بنائی جائے اور جعلی نمبر پلیٹ لگانے کو جرم اور پکڑی گئی موٹر سائیکل کو بحق سرکار ضبط کرنے کا قانون بنایا جائے ۔

ایس ایس پی تنویر حسین تنیو نے کہا کہ اس طرح صوبے سندھ میں موجود لاکھوں موٹر سائیکلوں کا ریونیو محکمہ ایکسائز کو ملے گا اور اس آمدنی سے صوبے کے عام کو علاج معالجہ کی بہترین سہولتیں فراہم ہوسکیں گی جبکہ ستر فیصد جرائم کا خاتمہ بھی ممکن ہوسکے گا جس کے بعد پولیس فورس کو دیگر اہم کاموں مثلا ًمنشیات کی بیخ کنی اور کچے کے ہزاروں ایکٹڑزمینوں پر قبضے اور قیمتی درختوں کے کٹاو کو روکنے پر استعمال کیا جاسکے گا۔انہوںنے کہا کہ گٹکا اور مین پوری کے خلاف قانون سازی کے جو مثبت نتائج سامنے آئےہیں ایسے ہی خوشگوار نتائج موٹر سائیکلوں کی رجسٹریشن کے قانون میں تبدیلی کرکے حاصل کئے جاسکتے ہیں۔