اک جسم تو ہوتا ہے گرفتارِ حوالات

June 20, 2020

میر شکیل الرحمٰن کو بلاوجہ حراست میں رکھنے کی تلافی کس طرح ہوسکتی ہے؟

جنگ جیو گروپ کے ایڈیٹر انچیف میرشکیل الرحمٰن کو 3؍مارچ 2020کو نیب کی طرف سے جوہر ٹائون لاہور میں 54 کینال زمین کے متعلق ایک شکایت کی تصدیق کے سلسلے میں پیش ہونے کا نوٹس ملا۔ یہ دو پرائیویٹ فریقوںکے درمیان 34 سال پرانا جائیدادکی خریداری کا معاملہ تھا۔قلیل وقت ہونے کے باوجود قانون کی پاسداری کرنے والے شہری کے طور پر میر شکیل الرحمٰن نیب کے دفتر میں پیش ہوئے ۔

مختصر وقت میں اُنہیں جو بھی مواد ملا وہ اور محض یادداشت کے لیے کچھ ٹائپ شدہ مواداپنے ساتھ لے لیا ۔ اُنھوںنے نیب افسران سے کہا وہ اُنہیں سوالنامہ دیں تاکہ وہ اُن کا جواب دے سکیںلیکن نیب افسران نے ایسا کرنے سے انکار کردیا۔ کئی مرتبہ درخواست کرنے کے بعد اُنھوں نے میر شکیل الرحمٰن کو سوالات نوٹ کرنے کی اجازت دے دی۔

10؍مارچ کو میر شکیل الرحمٰن کو پیش ہونے کا ایک اور نوٹس ملا۔ نوٹس کے ساتھ اسی موضوع ، شکایت کی تصدیق ،پر ایک سوالنامہ بھی تھا۔ میر شکیل الرحمٰن نے متعلقہ دستاویزات ہمراہ نہ ہونے کی وجہ سے ان سوالوں کے عارضی جوابات دیے ، تاہم وہ اپنے ساتھ کچھ دستاویزات لے گئے تھے جو دو دونوں کے مختصر وقت میںحاصل کرسکے تھے ۔ بارہ مارچ کو جب اُن کی نیب کے افسران کے ساتھ ملاقات جاری تھی کہ اُنہیں اُسی احاطے میں نیب کے پولیس اسٹیشن میں لے جاکر بتایا گیاکہ اب وہ زیرحراست ہیں۔

نیب افسران نے میر شکیل الرحمٰن سے تمام کاغذات لے لیے ۔ اُنھوںنے میر شکیل الرحمٰن کی گاڑی سے موبائل فونز، ہینڈبیگ اور تمام کاغذات اپنی تحویل میں لے لیے ۔ یہ بات ظاہر تھی کہ چیئر مین نیب نے میر شکیل الرحمٰن سے لیے گئے کاغذات کا مطالعہ تک نہیں کیا تھااور نہ ہی اُنھوں نے نیب کے سوالنامے پر میر شکیل الرحمٰن کے دیے گئے جوابات پڑھنے کی زحمت کی تھی حالانکہ نیب قانون اور ایس اوپیز کے تحت ایسا کرنا ضروری تھا ۔ اس کے باوجود اُن کے وارنٹ گرفتاری جاری کردیے گئے۔ میر شکیل الرحمٰن کے خلاف تحقیقات اور گرفتاری کی منظوری کے لیے ایگزیکٹو یا ریجنل بورڈ کاکوئی اجلاس نہ بلایا گیا۔ اُن کی گرفتاری بہت جلدبازی میں غیرقانونی طور پر عمل میں لائی گئی ۔

جائیداد کا معاملہ خالصتاً سول تھا،جو پنجاب لینڈ ایکوزیشن (ہائوسنگ ) ایکٹ 1973 ء اور لاہو ر ڈولپمنٹ اتھارٹی ایکٹ 1975 ء کے تحت آتا ہے ۔ ایل ڈی اے کے قانون اور پالیسیوں کے مطابق تمام ادائیگیاں کی گئی تھیں۔ زمین کے اصل مالکان اور اُن کے جی پی اے، میرشکیل الرحمٰن نے 180 کنال زمین کی انٹیریم ڈولپمنٹ کی اجازت حاصل کرنے کے لیے درخواست دی تھی جو ایل ڈی اے نے مسترد کردی۔ اس کی بجائے 54 پلاٹوں کی صورت میں 30 فیصد زمین کی پیش کش کی ۔ یہ زمین ایل ڈی اے کی پالیسی، شرائط اور ضوابط کے مطابق ایک ایک کنال کے پلاٹ کی صورت تھی ۔

زمین کے مالکان اور اُن کے جی پی اے میرشکیل الرحمٰن نے یہ پیش کش قبول کرلی اور اُس وقت کی پالیسی کے مطابق جو بھی قیمت بنتی تھی، اداکر دی۔ زمین کے اصل مالکان اور ایل ڈی اے نے کبھی اس سول لین دین پر کوئی تنازع کھڑا نہیں کیا۔ نیب نے غیر قانونی طور پر ایک سول معاملے کو اپنے ہاتھ میں لیتے ہوئے اسے ایک مجرمانہ سرگرمی میں تبدیل کردیا ہے ۔ بالفرض اس میںکوئی متنازع بات ہے تو اس کے لیے ایل ڈی اے ایکٹ موجود ہے۔ زمین کا یہ معاملہ اسی ایکٹ کے تحت آتا ہے ۔

میر شکیل الرحمٰن کی گرفتاری ایک اور بنیاد پر بھی غیر قانونی تھی۔ 8؍اکتوبر2019ءکو نیب نے کاروباری افراد کو طلب کرنے کے لیے درج ذیل پالیسی گائیڈلائن جاری کی تھی:

(الف) الزام کی زد میں آنے والے شخص کو تحریری جواب کے لیے تفصیلی نوٹس اور وجوہات فراہم کی جائیں گی۔

(ب) جواب غیر تسلی بخش ہوایا کسی اور چیز کی وضاحت درکار ہوئی تو ایک اور سوالنامہ جاری کیا جائے گا۔

(ج) ڈی جی ریجنل نیب ہر سوال کے جواب کی جانچ کرکے دیکھے گا۔ غیر تسلی بخش ہونے کی صورت میں بزنس مین کو قانون اور ایس اوپیز کے تحت ذاتی حیثیت میں پیش ہونے کا کہا جائے گا۔

لیکن میر شکیل الرحمٰن کے کیس میں اس گائیڈ لائن کی کسی بھی شق پر عمل نہیں کیا گیا ۔ اپنے ہی طے شدہ طریق ِکار کی کھلی خلاف وزری کرتے ہوئے نیب نے میر شکیل الرحمٰن کو دھوکے سے بلاکر گرفتار کرلیاحالانکہ وہ نیب افسران کے ساتھ پورا تعاون کررہے تھے ۔ ایک حالیہ حکم نامے میںاسلام آباد ہائی کورٹ کا کہنا تھا کہ نیب کے ساتھ تعاون کرنے والے شخص کو گرفتار نہیں کیا جانا چاہیے کیونکہ کسی بھی شہری کے لیے نقل و حرکت کی آزادی اُس کا اہم ترین بنیادی حق ہے ۔

نیب نے میرشکیل الرحمٰن کو جسمانی ریمانڈ کے لیے 48 دنوں تک تحویل میں رکھا، اس کے بعدسے اُنہیں 28 اپریل سے جوڈیشل ریمانڈ پر دے دیا گیا کیونکہ نیب کا کہنا تھا کہ اب مزید تحقیقات کے لیے جسمانی ریمانڈ کی ضرورت نہیں ۔ یہ دستاویزی ثبوت کا معاملہ تھا اور نیب نے پہلے ہی ایل ڈی اے ، لاہور سے تمام فائل حاصل کرلی ہے ۔ اب میر شکیل الرحمٰن سے کچھ بھی برآمد کرانا مقصود نہیں اور نہ ہی وہ زمین کا ٹکڑا کہیں جارہا ہے ۔ اگر نیب کے پاس ثبوت ہے کہ میر شکیل الرحمٰن نے کسی طور قومی خزانے کو نقصان پہنچایا تھاتو وہ اُن کے خلاف ریفرنس تیار کرکے عدالت میں مقدمہ چلائے ۔

درحقیقت میرشکیل الرحمٰن کی گرفتاری حکومت کا نیب کو ایک آلے کے طور پر استعمال کرتے ہوئے آزاد میڈیا پر ایک منظم حملہ ہے ۔ نیب کی کارروائی میں دشمنی کی واضح بوآتی ہے ۔ وزیر اعظم نے دعویٰ کیا تھا کہ بہت جلد میر شکیل الرحمٰن کو نیب کا سامنا کرنے پڑے گا۔ وہ گزشتہ چار برسوںسے میر شکیل الرحمٰن کو سبق سکھانے کے اپنے عزم کا اعادہ کرتے رہے ہیں۔ اس کی وجہ اس میڈیا گروپ کے ٹی وی چینل اور اخبارات کی حقیقت پر مبنی معروضی رپورٹنگ اور پروگرامز ہیں۔

گزشتہ چند ماہ کے دوران جنگ اینڈ جیوگروپ کے خلاف نیب او ر پیمرا کا دبائو بڑھتا جارہا تھا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ جیو نیوز نیب کے غیر پیشہ ورانہ طرزعمل اور غلط برتائو پر پاکستان کی اعلیٰ عدلیہ کی طرف سے کی جانے والی سرزنش نشر کرتا رہا تھا۔ پانچ ماہ پہلے نیب نے پیمرا کو استعمال کرتے ہوئے جنگ اور جیو پر نیب کے خلاف تنقید بندکرانے کے لیے اتنا دبائو ڈالا کہ جنگ اینڈ جیو گروپ کو لاہور ہائی کورٹ میں درخواست دائر کرنی پڑی۔ اس میڈیا گروپ کی تنقیدی صحافت کی وجہ سے حکومت اس کے خلاف سخت دشمنی رکھتی ہے ۔

اس کی وجہ سے وفاقی حکومت کے انفارمیشن محکموں اور خیبرپختونخواہ اور پنجاب حکومتوں نے جنگ اور جیو گروپ کے اخبارات اور ٹی وی چینل پر غیر قانونی طور پر مکمل پابندی لگارکھی تھی۔ اُنھوںنے اس کے اشتہارات بند کردیے تھے۔ اس پر ہمیں لاہور ہائی کورٹ میں درخواست دائر کرنی پڑی ۔ حکومت نے حال ہی میں بہت محدود پیمانے پر گروپ کے اخبارات اور ٹی وی چینل کے لیے اشتہارات بحال کیے ہیں۔

نیب نے میاں نواز شریف، سابق وزیر ِاعلیٰ پنجاب، اُس وقت کے ڈی جی ایل ڈی اے ہمایوں رسول اور ڈائریکٹر لینڈ ایل ڈی اے ، بشیر کو شریک ملزمان بنایا ہے۔ تاہم اس وقت میاں نواز شریف پاکستان سے باہر ہیں۔ دیگر دونوں افراد کو بھی گرفتار نہیں کیا گیا ہے ، لیکن میر شکیل الرحمٰن مسلسل جیل میں بند ہیں، حالانکہ نہ تو وہ کوئی عوامی عہدیدار ہیں اور نہ ہی اُنھوںنے کسی قانون کی خلاف ورزی کی ہے۔

جوڈیشل ریمانڈ کے بعد میر شکیل الرحمٰن نے ضمانت کی درخواست دائر کی۔ سماعت کی تین تاریخیں مقرر ہونے کے باوجود مختلف وجوہ کی بناء پر اب تک سماعت نہ ہوسکی۔اگرچہ میر شکیل الرحمٰن کے کیس میں ضمانت کے واضح امکانات موجود ہیں کیونکہ وہ نہ تو عوامی عہدیدار رہے ہیں اور نہ ہی اُن کے خلاف بدعنوانی کا کوئی ثبوت ہے ،اس کے باوجود اُنہیں ضمانت کے حق سے محروم رکھا جارہا ہے ۔ اعلیٰ عدلیہ نے رولنگ دی ہے کہ ایک مجرم کو ملنے والی حتمی سزا سے غلطی سے ملنے والی ضمانت کی رعایت کی تلافی کرسکتی ہے ، لیکن ایک بے گناہ شخص، جو بعد میں چاہے رہاہوجائے، کو بلاوجہ حراست میں رکھنے کی تلافی کس طرح ہوسکتی ہے ؟

شکایت کی تصدیق کے مرحلے میں طلب نہیں کیا جاسکتا

نیب کے معیاری آپریٹنگ طریقہ کار کے مطابق ملزم کو شکایت کی تصدیق کے مرحلے میں طلب تک نہیں کیا جاسکتا لیکن جنگ /جیو کے ایڈیٹر ان چیف کے معاملے میں انہیں نہ صرف طلب بلکہ گرفتار بھی کرلیا گیا۔ شکایت کی تصدیق کے مرحلے میں بتایا جاتا ہے کہ عام طور پر مدعی سے رابطہ کرکے شکایت سے متعلق حقائق دریافت کئے جاتے ہیں اگر شکایت کی تصدیق کا عمل اطمینان بخش ہو تو نیب کا علاقائی ایگزیکٹو بورڈ شکایت کوانکوائری میں تبدیل کرنے پر غور کرتاہے۔

انکوائری کے مرحلے میں نیب اس شخص سے رابطہ کرتا ہے جس کے خلاف انکوائری کا حکم دیا گیا ہو۔ میر شکیل الرحمٰن ایک نجی کاروباری شخصیت کے زمرے میں آتے ہیں نیب حیران کن طور پر ایک مشکوک شخص کی شکایت کو خاطر میں لایا لیکن اس حقیقت کے باوجودکہ سودا دو نجی شخصیات کے درمیان ہوا، عجلت میں میر شکیل الرحمٰن کو گرفتار کرلیا۔

نیب قانون میں حالیہ ترمیم بیورو کو ایسے معاملات میں مداخلت سے روکتی ہے لیکن نیب نے اس کے باوجود میر شکیل الرحمٰن کوطلب اور گرفتار کیا۔حتی کہ ان ترامیم کو متعارف کرائے جانے سے قبل نیب کے پاس کاروباری شخصیات سے متعلق رہنما خطوط موجود ہیں لیکن نیب لاہور نے ان کی بھی کوئی پروا نہیں کی گئی۔ قانون اور طریقہ کار کی اس معاملے میں تمام تر خلاف ورزیوں کے باوجود معمول کی مشق یہ ہے کہ نیب زیر تفتیش شخص کو ایک مخصوص وقت میں تحریری سوالنامہ بھیجتا ہے ان سے کہا جاتا ہے کہ وہ ایک متعینہ وقت میں اس کا جواب دیں۔

میر شکیل الرحمٰن کے معاملے میں گزشتہ 4؍ مارچ کو اپنی پہلی پیشی پر اصرار کے باوجود ایسا کوئی سوال نامہ فراہم نہیں کیا گیا۔ نیب میں پیشی کے موقع پر جب انہوں نے دو صفحات پر مشتمل وضاحتی بیان داخل کرانا چاہا تو نیب حکام نے بارہا استدعا کے باوجود وصول کرنے سے انکار کیا۔ میر شکیل الرحمٰن نے تحریری سوال نامہ فراہم کرنے کے لئے بھی کہا، اس سے بھی انکار کیاگیا۔ بالآخر میر شکیل الرحمٰن نے کم از کم سوالات کہہ کر لکھوانے کا کہا تاکہ 34؍ سالہ ریکارڈ کا جائزہ لے کر 12؍ مارچ کو پیشی کے لئے وہ جوابات تیار کرسکیں۔ 12؍ مارچ کو میر شکیل الرحمٰن دستاویزی ثبوت کے ساتھ تفصیلی جوابات لے کر نیب گئے۔ جو انہوں نے 4؍ مارچ کو کاغذ پر خود نوٹ کئے تھے۔

نیب کے طریقہ کار کے مطابق ملزم کی جانب سے جوابات ملنے پر اگر وہ اطمینان بخش نہ ہوں یا مزید وضاحت کی ضرورت ہو تو دوسرا سوال نامہ فراہم کیا جاتا ہے۔ میر شکیل الرحمٰن کے معاملے میں ایسا نہیں کیا گیا، انہیں نئے سوال نامے کا جائزہ لینے یا تحریری جوابات داخل کرنے کا موقع نہیں دیا گیا۔ نیب کا طریقہ کار کہتاہے اگر دوسرے سوال نامے پر جوابات تسلی بخش نہ ہوئے تو علاقائی ڈائریکٹر جنرل نیب جوابات کا جائزہ لیں گے جو تسلی بخش نہ ہوئے تو قانون اور طریقہ کار کے مطابق مذکورہ کاروباری شخصیت کو ذاتی حاضری کے لئے طلب کیا جائے گا۔ میر شکیل الرحمٰن کے معاملے میں انہیں طلبی کا نوٹس دیا گیا اور تمام ابتدائی مراحل کونظرانداز کرتے ہوئے دوسری حاضری کے دوران انہیں گرفتار کرلیا گیا۔

جنگ گروپ کے ایڈیٹر ان چیف کو پہلا اور دوسرا سوال نامہ کبھی فراہم نہیں کیا گیا۔ علاقائی ڈائریکٹر جنرل نیب کے جوابات کا جائزہ لینے کے کردار سےبھی گریز کیا گیا۔ اس سے کہیں زیادہ چیئرمین نیب نے یہ جانے بغیر کہ نیب لاہور نے تمام تر قانونی تقاضے پورے کردیئے، میر شکیل الرحمٰن کی گرفتاری کے وارنٹ جاری کردیئے۔ اس بات کا کوئی جواب دستیاب نہیں کہ دو شخصیات کے درمیان اراضی کی کمرشل منتقلی کے معاملے میں چیئرمین نیب کو میر شکیل الرحمٰن کی گرفتاری میں اتنی عجلت کیوں تھی۔