میر صاحب کمال کردیا

June 20, 2020

میرے بحیثیت ٹرید یونین کے ایک ادنیٰ کارکن کی حیثیت سے جنگ کے مالکان یا میڈیا مالکان سے ، جنگ اور محبت، کا رشتہ رہا ہے مگر یہ بات میں پورے وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ آج میر شکیل الرحمان صاحب کے ساتھ پچھلے 100روز سے جو کچھ ہو رہا ہے اس سے خود احتساب بھی شرما جائے۔یہ احتساب کے سو روز نہیں بلکہ انتقام کے ہیں اور وہ بھی بدترین انتقام کے کچھ لوگوں کی انا کو سکون دینے کےلئے ۔ بقول ہمارے دوست شاعر فاضل جمیلی کےکھونا ہے اور کیا ہمیں زنجیر کے سواپانے کو اک جہانِ تمنا ہے سامنےشکیل صاحب نے کمال کردکھایا۔ سچ پوچھیں تو مجھے ذاتی طور پر یقین نہیں آتا کہ وہ اتنے روز قید وبند کی صعوبتیں برداشت کرپائیں گے اور وہ بھی اس استقامت کے ساتھ ۔

کبھی نیب کی حراست، کبھی سلاخوں کے پیچھے توکبھی نیب کی حراست سے احتساب عدالت تک ۔ جس طریقے سے گرفتاری ہوئی، وہ تو خود نیب کے کچھ افسران بھی حیران کہ ابھی تو معاملہ تحقیق کے مرحلے میں ہی تھا مگر ظاہر ہے کچھ لوگوں کو خوش کرنا مقصود تھا ۔ کوئی تو ہے جو نظام ہستی چلارہا ہے، کم ازکم مجھے اس بات کا یقین ہے کہ یہ مقدمہ زبردستی بنانے کی زوروشور سے کوششیں جاری ہیں۔

شاید نیب والے سمجھتے ہوں کہ، مالک ہے جلدی گھٹنے ٹیک دے گا ، میں نے اپنی صحافتی زندگی میں جنگ کو کئی مرتبہ لڑتے بھی دیکھا ہے اور اپنے موقف پر ڈٹے رہتے ہوئے بھی۔ معاملہ چاہے بھٹو صاحب کے زمانے کا ہو ، ایم کیو ایم کا80اور90کی دہائی کا دور ہو یا جنرل پرویز مشرف کی میڈیا پر چڑھائی کا جس کا خاص نشانہ ’ جیو‘ اور ’ جنگ‘ تھے۔ پھر حامد میر پر حملہ اور اس کے بعد کی صورتحال۔

ہوسکتا ہے میری باتوں سے کچھ لوگو ں کو، کچھ دوستوں کو اختلاف ہو مگر جب بڑے میڈیا گروپس کو دبائو میں لانے کی اور بند کرنے کی سازشیں ہورہی ہوںتو یہ آزادی صحافت کی لڑائی بنتی ہے۔ پاکستان کے دوبڑے گروپس جنگ اور ڈان کے ساتھ پچھلے کچھ عرصے سے جو کچھ ہورہا ہے وہ آنے والے خطرات کی نشاندہی کرتا ہے۔ میر شکیل الرحمٰن کے خلاف34سال پرانا کوئی کیس گڑھے کھود کر نکالنے کا مقصد اس کے سوا اور کچھ نظر نہیں آتا کہ انہیں دبائو میں لاکر جنگ اور جیو کی پالیسیاں تبدیل کروائی جائیں، آزاد میڈیا کا گھلا گھونٹا جائے۔

پاکستان کا میڈیا ایک مشکل دور سے گزر رہا ہے۔ میر شکیل الرحمٰن کو رہائی نہیں انصاف چاہئے۔کیس بنتا تو اب تک ریفرنس فائل ہوچکا ہوتا۔ اب تو تاریخ پر تاریخ، ریمانڈ پر ریمانڈ کبھی بینچ ٹوٹ جاتا ہے تو کبھی کوئی اور وجہ یہ احتساب نہیں انصاف کا قتل ہے۔

آپ اپنے حربے آزماتے رہیں ہم آزادی صحافت کی جنگ لڑتے رہیں گئے۔ ہمارا مالکان سے اختلاف بھی ہوتا ہے اور اتفاق بھی یہ آجر اور آجیر کے درمیان کا معاملہ ہےمگر جب کچھ اہل کرم اور اہل شمع مہہ خانہ گرانے آئیں گے تو دہلیز پر کارکنوں کو کھڑا پائیں گے۔

پاکستانی میڈیا کو آزاد کرو

میر شکیل کو انصاف دو