بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام میں کرپشن

June 28, 2020

بے نظیر اِنکم سپورٹ پروگرام جو شہیدبے نظیر بھٹو کے دور حکومت میں غریب خواتین کے لیے شروع کیا گیا تھا، کرپشن کی نذر ہوتا جارہا ہے اور مستحق خواتین کی بجائےلیڈی افسران اوراعلیٰ عہدیداروں کی بیگمات اس کی رقوم نکلوا رہی ہیں۔ نواب شاہ فیڈرل انویسٹی گیشن ایجنسی (ایف آئی اے ) نے بےنظیر آباد ڈویژن میں بےنظیر اِنکم سپورٹ پروگرام کی بیوائوں، یتیموں اور مسکین خواتین کی امدادی پروگرام کی رقوم پر مستحقین کی آڑ میں ڈاکہ ڈالنے والی بی آئی ایس پی کی لیڈی افسران اور اعلی عہدوں پر فائز افسران کی پردہ نشین بیگمات کے خلاف کارروائی کرکے وصول شدہ رقوم واپس لے لی ہے۔

اس کرپشن میں بے نظیر آباد ریجن کے سرکاری محکموں کے گریڈ سترہ سے بیس تک کے 174 افسران کی بیگمات کے علاوہ اعلیٰ گریڈ کی لیڈی افسران خود بھی شامل ہیں۔ اس سلسلے میں ڈپٹی ڈائریکٹر ایف آئی اے بشیر احمد سومرو نے نمائندہ جنگ کو بتایا کہ وفاقی حکومت کی جانب سے بے نظیر اِنکم سپورٹ پروگرام میں غیر مستحق افراد کو شامل کرنے کی ایف آئی اے کی جانب سے تحقیقات شروع کی گئیں۔ ان کا کہنا تھا کہ دوران تفتیش معلوم ہوا کہ بے نظیر اِنکم سپورٹ پروگرام جو کہ خالصتا ًان بے سہارا ،بیوہ ،یتیم اور ایسی خواتین کے لئے ہے جن کے سروں کی چادر اور چھت چھن گئی اور نان شبینہ سے محروم ہیں۔ ایسی بے آسرا خواتین اور ان کے بچوں کی کفالت کے لئے یہ پروگرام تشکیل دیا گیا تھا۔

ڈپٹی ڈائریکٹر ایف آئی اے بشیر احمد سومرو نے بتایا کہ بے نظیر آباد ریجن میں بھی پورے سندھ کی طرح سرکاری ملازمین جو کہ سترہ سے بیس گریڈ تک کے ہیں ان میں کچھ ایسی خواتین جو کہ افسران کی بیگمات نہیں بلکہ خود گریڈ17 سے گریڈ بیس کی افسر ہیں جن میں گریڈ اٹھارہ کی نغمہ چانڈیو جو کہ ہیڈ مسٹریس ، گریڈ اٹھارہ کی ایگری کلچرل آفیسر راحیلہ طاہر اسی گریڈ کی محکمہ تعلیم میں فزیکل ٹرینر زرینہ ٹانوری شامل ہیں ۔ ان کے خلاف دھوکہ دہی فراڈ سمیت سرکاری فنڈ میں خود برد کی دفعات پر مشتمل ایف آئی آر درج کرلی گئی ہیں۔

ڈپٹی ڈائریکٹر ایف آئی اے بشیر احمد سومرو کے مطابق ریجن کے تین اضلاع جن میں ضلع شہید بے نظیر آباد ،ضلع سانگھڑ کے 174خواتین افسران خود اور مرد افسران کی بیگمات نے ایک کروڑ چونسٹھ لاکھ روپیہ کی خطیر رقم وصول کی تھی۔ مذکورہ افسران کی جانبسے ناجائز طور پر وصول کردہ ایک کروڑ چونسٹھ لاکھ روپیہ کی رقم واپس کردی گئی ہے ۔کارروائی کے دوسرے مرحلے میں تین خواتین افسران کے خلاف تو ایف آئی آر درج کرلی گئی ہے جبکہ دیگر کے خلاف ایف آئی آر کے لئے محکمہ سے اجازت طلب کی گئی ہے۔

ان تین خواتین افسران میں سے ایک کی گرفتاری اور عدالت سے ضمانت جبکہ دیگر کی ضمانت قبل از گرفتاری ہوچکی ہے۔ ایک سوال کے جواب میں بشیر احمد سومرو نے بتایا کہ پہلے محکمہ کی جانب سے رقوم وصول کرنے والوں کے نام مشتہر نہ کرنے کا حکم دیا گیا تھا تاہم اب ان کے نہ صرف نام مشتہر کرنے بلکہ ان کے خلاف ایف آئی آر کے اندراج کی پالیسی بھی آگئی ہے ۔

دوسری جانب ذرائع کے مطابق اندرون خانہ صورتحال یہ بتائی جاتی ہے کہ افسر شاہی نے اپنے پیٹی بندبھائیوں کو بچانے کے ان کے نام مشتہر نہ کرکے گمنام بتا کر رقوم وصولی کا پروگرام بنایا تاہم قانونی پیچیدگیوں کے باعث اس پالیسی کو بدلنا پڑا اور اب محکمہ کے ذرائع کے مطابق 174افسران میں سے پہلے تین کے خلاف اور اب مزید آٹھ اس طرح گیارہ کے خلاف ایف آئی آر کے احکامات دئے گئے ہیں جبکہ ذرائع کے مطابق اس وقت بھی محکمہ میں یہ کشمکش جاری ہے کہ تمام افسران جن کی بیگمات نے مستحقین کے حقوق پر ڈاکہ ڈالا ہے ان کے شوہروں کو اس اقدام سے غیر متعلق قرار دے کر اور ان کی بیگمات کو دیگر ہزاروں غیر مستحقین کی طرح پرائیویٹ فرد قرار دے کر کاروائی نہ کی جائے۔

اس طرح سانپ بھی مر جائے اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹے کے مصداق افسران اور ان کی بیگمات صاف بچ جائیں تاہم اس سارے قضیہ میں یہ سوال اہم ہے کہ گریڈ سترہ سے گریڈ بیس کے افسران جن کی اکثریت اپنے محکموں کے ہیڈ آف دی ڈیپارٹمنٹ اور ان کے پاس اپنے محکموں کے کروڑوں روپیہ کے فنڈز کے خرچ کے صوابدیدی اختیارات ہیں چند ہزار کی مستحق خواتین جن میں بیواہ یتیم اور مسکین خواتین شامل تھیں۔

ان کے حقوق پر ڈھٹائی سے اپنی بیگمات کے نام پر ڈاکہ مار چکے ہیں تو اس بات کی کیا ضمانت ہے کہ ان کے ہاتھ ان عوامی بھلائی کے منصوبوں کے فنڈز کی خرد برد سے آلودہ نہ ہوئے ہوں اس کی بھی تحقیقات نیب یا ایف آئی اے کے ذریعہ ہونی چاہئے تاکہ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہوسکے اور اس کے لئے یہ بھی ضروری ہے کہ ان افسران کی ملازمت سے انہیں جبری ریٹائر بھی کیا جائے تاکہ تفتیش پر اثر انداز نہ ہوسکیں اور دوسروں کے نشان عبرت بن سکیں۔