کراچی سمیت سندھ میں دہشت گردی کی نئی لہر

June 28, 2020

کراچی میں بم حملہ کرنے والے دہشت گردوں کی سی سی ٹی وی فوٹیج

سندھ میں دہشت گردی کی تازہ لہر میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کو ٹارگٹ کیا گیا ہے۔دس روز کے اندر کراچی سمیت سندھ کے مختلف شہروں میں دہشت گردوں کی جانب سے کیےجانے والے حملوں میں خاص طور سے رینجرز اہل کاروں کو نشانہ بنایا گیا۔اب تک کی تفتیش کے مطابق سندھی قوم پرست جماعت جسے گذشتہ ماہ ہی حکومت پاکستان نے کالعدم قرار دیا تھا ان واقعات میں ملوث ہے۔ تفتیشی حکام کا کہنا ہے کہ کراچی میں ہونے والے حملوں میں مقامی افراد کی بھی ممکنہ طور پر دہشت گردوں کو مدد حاصل تھی،ایک قوم پرست جماعت کی جانب سے حملوں کی زمہ داری بھی قبول کی گئی ہے۔ تفتیشی ذرائع کا کہنا ہے کہ بھارتی خفیہ ایجنسی "را"کی مدد ان تنظیموں کو حاصل ہے۔

بم دھماکے میں ہلاک ہونے
والا نوجوان کاشف

واقعات کے مطابق 10جون کو گلستان جوہر اور شاہ لطیف منزل پمپ کے قریب کریکر حملے کیے گئے جن میں رینجرز اہلکار اور ایک شہری زخمی ہوگیا ۔بتایا جاتا ہے کہ گلستان جوہر خیر محمد گوٹھ میں رینجرز کی موبائل پر موٹر سائیکل سوار ملزمان دیسی ساختہ کریکر پھینک کر فرار ہوگئے جو دھماکے سے پھٹ گیا جس کے نتیجے میں ایک رینجرز اہلکار معمولی زخمی ہوگیا۔

رینجرز اہلکار پنکچر کی دکان پر موبائل وین کے ٹائر میں ہوا بھروا رہے تھے۔ اس واقعے کے بعد 19 جون کو کراچی کے علاقے لیاقت آباد دس نمبر میں واقع ایک گرلز کالج میں کورونا لاک ڈاؤن متاثرین کو رقوم دینے کے سرکاری احساس پروگرام پر نامعلوم ملزمان نے دستی بم پھینکا اور فرار ہو گئے۔ بم حملے کے نتیجے میں ایک نوجوان جاں بحق جبکہ رینجرز اہلکار سمیت8افراد زخمی ہو گئے۔

ایس ایس پی سینٹرل عارف اسلم راؤ کے مطابق کالج میں وفاقی حکومت کے احساس پروگرام میں کورونا وائرس لاک ڈاؤن کے مستحقین کو رقوم دی جا رہی تھیں۔ایس ایس پی کے مطابق جہاں بم حملہ کیا گیا اس مقام کے اندر احساس پروگرام کا کیمپ ہے جب کہ کالج کے گیٹ کے آس پاس رینجرز اور پولیس کی موبائلیں ڈیوٹی سرانجام دیتی ہیں۔کچھ لوگ کالج کے اندر رقم لینے کے لیے موجود تھے جبکہ ایس او پی کے تحت باقی لوگ قطار میں اپنی باری کا انتظار کر رہے تھے۔تفتیشی حکام کے مطابق دھماکےمیں ہینڈ گرنیڈ استعمال کیا گیا ہے۔

حکام کا کہنا تھا کہ ممکنہ طور پروہاں موجود رینجرز اہلکاروں کو نشانہ بنایا گیا، بعد ازاں واقعہ کا مقدمہ سی ٹی ڈی میں درج کیا گیا جس میں پولیس کی جانب سے انکشاف کیا گیا ہے کہ یہ حملہ پانچ ملزمان نے کیا اور حملہ آوروں نے تعاقب کرنے والے پولیس اہل کاروں پر فائرنگ کی اور جوابی فائرنگ کے دوران رش کی وجہ سے فرار ہونے میں کامیاب ہوگئے۔لیاقت آباد دستی بم حملہ جاں بحق ہونے والا کاشف والدہ ،دو بہنوں، بیوی اور بیٹی کے ساتھ کرائے کے مکان میں رہتا تھا ۔

اہل خانہ کے مطابق کاشف بیٹری بنانے کا کام کرتا تھا ،لاک ڈاؤن کےباعث بے روزگار تھا۔کاشف کو احساس پروگرام میں رقم ملنے کی کال آئی جس کے بعد رقم لینے کے لیے وہ اپنی والدہ کے ہمراہ لیاقت آباد پیسے لینے گیا تھا، جہاں دہشت گردی کا شکار ہوگیا۔ اسی روز یعنی 19جون کو گھوٹکی میں رینجرز کے ونگ کمانڈر کی گاڑی پر دستی بم حملے میں دو رینجرز اہل کار اور ایک راہگیر شہید اور دو افراد زخمی ہوگئے۔

واقعہ کی تفتیش کے لیے سکھر سے آنے والے بم ڈسپوزل اسکواڈ کی گاڑی ٹائر پھٹنے سے الٹ گئی جس کے نتیجے میں سب انسپکٹر جاں بحق اور 6 اہل کار زخمی ہوگئے۔ شہید رینجرز اہلکاروں میں ظہوراحمد اورفیاض احمد شامل ہیں جبکہ شہری کا نام غلام مصطفیٰ بتایا جاتا ہے ۔19جون کوصبح نو بجے چانڈکا میڈیکل کالج لاڑکانہ کے گیٹ کےقریب واقع رینجرز اسکول کے باہر نامعلوم افراد نے کریکر دھماکا کردیا۔ رینجرز اسکول لاک ڈائون کی وجہ سے بند تھا اس لیے کوئی جانی اور مالی نقصان نہیں ہوا۔

تفتیشی حکام کے مطابق کراچی، لاڑکانہ اور گھوٹکی میں کیے گئے دہشت گردحملوں کی تحقیقات میں پیش رفت ہوئی ہے۔کراچی میں روسی ساختہ دستی بم استعمال کیا گیا جس کی پلیٹ جائے واردات سے مل گئی ہے۔لاڑکانہ میں گرنیڈ سے جبکہ تحقیقاتی اداروں کو گھوٹکی میں بھی دستی بم استعمال کیے جانے کا شبہ ہے۔سیکورٹی اور انٹیلی جنس حکام کے مطابق یہ حملے گزشتہ حملوں سے مماثلت رکھتے ہیں، جس روسی ساختہ گرنیڈ سے حملہ کیا گیا۔ حکام کے مطابق ایسے گرنیڈایک کارروائی کے دوران کراچی میں بھارتی خفیہ ایجنسی’’ را ‘‘کے سلیپر سیل سے برآمد کیے گئے تھے اور ابتدائی تحقیقات میں ان وارداتوں کے تانے بانے بھی وہیں سے ملتے ہیں۔

لاڑکانہ میں بھی حملے میں گرنیڈاستعمال کیا گیا جبکہ گھوٹکی میں رینجرز حکام کی گاڑی کے قریب دھماکے میں آئی ای ڈی ڈیوائس استعمال نہیں کی گئی ۔10 جون کو کراچی میں بھی رینجرز پر دو حملوں میں ہینڈ گرنیڈکے استعمال کے شواہد ملے، گلستان جوہر سے تفتیش کاروں کو روسی ساختہ گرنیڈ کی پلیٹ بھی ملی تھی،ان تمام بم حملوں میں مماثلت پائی جاتی ہے۔حکام کا کہنا ہے کہ دہشت گردوں کی جانب سے دستی بم کے استعمال کی خاص وجہ ہوسکتی ہے، ہینڈ گرنیڈ کی پن نکال کر پھینکنے اور فرار کی کوشش میں 8 سے 10 سیکنڈز لگتے ہیں، یہ پھینکنےکے بعد فوری طور پر نہیں پھٹتا۔ اس کے پھینکنے کے بعد پھٹنے میں وقت لگتا ہےجس کی وجہ سے دہشت گردوں کو افرار ہونے کا موقع مل جاتا ہے۔ حساس ادارے، سی ٹی ڈی، رینجرز اور پولیس سمیت تمام ادارے واقعات کی تحقیقات کر رہے ہیں۔

تفتیشی حکام کے مطابق کراچی میں حالیہ دنوں میں تین دستی بم حملوں میں طریقہ واردات اور ٹارگٹ کے حوالے سے کافی مماثلت پائی جاتی ہے۔ سکیورٹی ماہرین کے مطابق تینوں وارداتوں میں ایک ہی دہشت گرد گروپ کے ملوث ہونے کا امکان ہے۔ سندھ پولیس کا کاؤنٹر ٹیررزم ڈیپارٹمنٹ ان دہشت گرد حملوں کی تحقیقات کر رہا ہے۔ حکومت پاکستان نے مئی 2020 میں 3 تنظیموں کوکالعدم قرار دیا تھا ،ان تنظیموں میں سندھو دیش ریوولوشن آرمی،سندھو دیش لبریشن آرمی اورجیے سندھ قومی محاذ، آریسر گروپ شامل ہیں۔مذکورہ حملوں کی ذمہ داری سندھو دیش ریوو لوشن آرمی نے اپنے سوشل میڈیا ٹوئیٹر اکائونٹ پر قبول کی ہے۔2018 میں سندھ میں ریلوے ٹریک پر حملوں کی ذمہ داری بھی اسی گروپ نے قبول کی تھی۔تفتیشی ذرائع کا کہنا ہے کہ بھارتی خفیہ ایجنسی "را"کی مدد ان تنظیموں کو حاصل ہے۔

دوسری جانب 10 جون کو گلستان جوہر کے علاقہ میں رینجرز موبائل پر گرنیڈحملہ کرنے والے مشتبہ ملزمان کی سی سی ٹی وی کیمرے سے بنائی گئی تصاویر سی ٹی ڈی نے جار ی کردی ہیں۔ سی ٹی ڈی حکام نے عوام سے اپیل کی ہے کہ ان ملزمان کی گرفتاری میں پولیس کی مدد کریں۔ ۔تفتیشی ذرائع کا کہنا ہے کہ کراچی میں ہونے والے حملوں میں ملوث ملزمان کے بارے میں اہم پیشرفت ہوئی ہے اور امید ہے کہ جلد ان کو گرفتار کر لیا جائے گا۔