صحبت کا اثر

July 12, 2020

محمد ابوبکر ساجد

’’ارے بیٹا عثمان! ناصر کے ساتھ نہ کھیلا کر و ،وہ اچھا لڑکا نہیں، سنا ہے وہ چوریاں کرتا ہے اور اسکول جانے کی بجائے آوررہ گردی کرتا ہے ۔‘‘

’’ماما جان وہ میرا کلاس فیلو ہے اور سب سے بڑھ کر میرا کزن بھی ہے، اس سے روز ملنا ہوتا ہے‘‘۔’’ ارے بیٹاصحبت کا بہت اثر ہوتا ہے، کزن ہے تو کیا ہوا۔ برے کے ساتھ برا نہیںبنا جاتا ۔‘‘ اس کی ماما نے کہا۔’’ ماما جان آپ فکر نہ کریں آپ کا بیٹا ایسا نہیں ہے۔ میں اسے سمجھائوں گا۔‘‘’’ چھوٹی موٹی چوریاں کرنا، آوارہ گردی اس کی فطرت بن چکی ہیں۔ تم خاک اسےسمجھاؤگے ۔‘‘’’ ماما جان آپ ٹینشن نہ لیں۔‘‘ عثمان یہ کہہ کر گھر سے نکل گیا۔

دونوں کزن ساتویں کلاس میں پڑھتے تھے۔ بریک ٹائم جب بچے کھانے پینے کے لئے نکلے تو سب سے زیادہ ناصر متحرک ہوتا چار، پانچ اور بھی اس کے دوست ساتھ ہوتے وہ کبھی گول گپے، کبھی آلو چنے اور کبھی آئس کریم کھا تے ۔ ان سب کو ناصر کھلاتا تھا۔ وہ عثمان کوبھی شامل کر لیتے۔ وہ کبھی ساتھ دیتا اور کبھی اپنی جیب سے خرچ کرتا۔ وہ حیران تھا کہ ناصر کے والد اتنے امیر بھی نہ تھے جو اسے روزانہ پچاس ساٹھ روپے پاکٹ منی دیتے ہوں گے۔ اسے روزانہ دس روپے ملتے ہیں اس نے ایک دن ناصر سے پوچھ ہی لیا کہ وہ اتنے پیسے کہاں سے لاتا ہے۔ ناصر نے آسمان کی طرف انگلی اٹھائی اور کہا اوپر والا دیتا ہے۔

’’وہ تو ٹھیک ہے، وہی سب کو دیتا ہے، پھر بھی بتائو نہ۔‘‘ عثمان نے پوچھا۔

اس نے چٹکی بجائی اور کہا،’’پیارے آم کھائو، پیڑ نہ گنو ‘‘، مگر عثمان کا اصرار جاری رہا۔

’’او مائی ڈیر کزن! تم ڈرپوک اور کمزور دل ہو میرا ساتھ نہیں دے سکو گے۔‘‘ ناصر نے چالاکی سے کہا۔’’ بھائی میرا بھی دل کرتا ہے آپ کی طرح خرچ کروں‘‘۔

’’او کے! سوچ لو پھر نہ کہنا، مجھے بہادر پارٹنر چاہیے۔‘‘ ناصر نے چالاکی سے کہا۔

’’مجھے منظور ہے۔‘‘ عثمان نے کہا۔

اگلے دن عثمان مقررہ جگہ پر پہنچا دونوں کا رخ ایک مرغی خانہ کی طرف تھا۔ ناصر کے پاس ایک کپڑے کا تھیلا تھا۔ دونوں چھپتے چھپاتے مرغی خانے پہنچ گئے۔ ناصر ایک ٹوٹی ہوئی جالی سے اند ر گھس گیا اور کچھ دیر بعد انڈوں سے بھرا تھیلالے کر باہر آیا۔اس نے تھیلا اس جگہ سے عثمان کو پکڑایا اور کہا ،’’کہ فوراً اسے ’’ کریانہ اسٹور‘‘ پر لے جائو، وہ پیسے دے گا وہ لے کر گھر چلے جانا۔ میری اس سے بات ہوچکی ہے۔‘‘ وہ چھپتا چھپاتا کھیتوں سے نکل کر دوکا ن دار کے پاس پہنچ گیا۔

جب اس نے پیسے پکڑے تو اس کا دل بڑی تیزی سے دھڑک رہا تھا، جونہی پیسے لے روانہ ہوا، دل نارمل ہوگیا۔ آدھےگھنٹے میں انہوں نے دو سو روپے کے قریب کما لیے۔ کچھ دیر بعد ناصر پہنچ گیا،دونوں بہت خوش تھے۔ اسی طرح چار پانچ چکروں میں عثمان کی جھجک ختم ہوگئی۔ اب وہ خود جالی کے راستے اندر جاتا اور تھیلا بھر واپس آجاتا۔ اب دونوں نے بے دھڑک کام سر انجام دینے لگے کہتے ہیں بکرے کی ماں کب تک خیر منائے گی۔

ایک دن پولٹری فارم کا مالک آیا، اس نے پولٹری فارم دیکھا، مرغیوں کی خوراک والے اسٹور اور انڈوں والے اسٹور کا وزٹ کیا۔ پھر اپنے کھیتوں اور باغات کی سیر کے لئے نکل گیا۔گھنٹے بعد واپس آیا تو دیکھا انڈے کم ہیں اس نے نوکر سے پوچھا۔ ان پڑھ نوکر نے کہا ،’’جو انڈے ہوتے ہیں وہ ٹرے میں رکھ دیتا ہے، جب شہر سے گاڑی آتی ہے وہ گن کر بتا دیتے ہیں کہ اتنے ٹرے ہیں، وہ لکھ کر دے جاتے ہیں‘‘۔ ’’گاڑی تو ابھی نہیں آئی تم نے کس کو دیئے‘‘؟ نوکر نے لا علمی کا اظہار کیا۔ ’’مالک نے کہا ،مجھے یقین ہے کہ انڈے کم ہیں ۔اگلے دن اس نے نگرانی کا فیصلہ کرلیا۔

اگلے دن لگ بھگ اسی وقت دو لڑکے ٹوٹی ہوئی جالی سے اندر آئے۔ دونوں نے تھیلے پکڑ رکھے تھے۔ انہوں نے جلدی جلدی سے ایک تھیلے میں انڈے ڈالے وہ تھیلا لے کر عثمان باہر نکل گیا، ناصر دوسرا تھیلا بھرنے میں مصروف ہوگیا، اتنے میں مالک سر پر پہنچ گیا اور وہ رنگے ہاتھوں پکڑا گیا۔

ابھی عثمان انڈوں کے پیسے لے کر باہر نکل رہا تھا کہ مالک اور ناصر موٹر سائیکل پر پہنچ گئے۔ یوں عثمان بھی پکڑاگیا۔ پہلے تو اس نے دونوں کی خوب مرمت کی پھر تھانے لے گیا۔ اس نے ان خلاف چوری کی رپٹ درج کروا دی۔ گھر واں نے بھاگ دوڑ کر کے ہرجانہ دے کر اور مالک کی منت سماجت کر کے انہیں تھانے سے رہائی دلوائی۔ ناصر اور عثمان ،جہاں سے گزرتے بچے انہیں دیکھ کر کک کک کڑوں کہتے دونوں شرمندہ ہوتے۔ عثمان بہت شرمندہ تھا۔ اسے فوراً یاد آجاتا کہ اس کی ماما نے روکا بھی تھا، مگر میں نے ان کی بات نہیں مانی جس کی سزا ملی ہے۔