نیب نے قانون کی دھجیاں بکھیرکر رکھ دیں، سپریم کورٹ

July 20, 2020


سپریم کورٹ آف پاکستان نے پاکستان مسلم لیگ (ن) کے رہنماؤں خواجہ سعد رفیق اور خواجہ سلمان رفیق کی ضمانت کا تفصیلی فیصلہ جاری کردیا۔

فیصلے میں عدالت نے ریمارکس دیے کہ نیب نے قانون کی دھجیاں بکھیر کر رکھ دیں، قانون کی کھلے عام خلاف ورزی کی، قانون اور آئین کا جائزہ لینے کے باوجود یہ راز میں ہے کہ یہ مقدمہ کیسے بنایا گیا۔

فیصلے میں قرار دیا گيا کہ نیب قانون ملک میں بہتری کے بجائے مخالفین کا بازو مروڑنے کےلیے استعمال کیا گیا، نیب آرڈیننس اپنے اجراء سے ہی انتہائی متنازع رہا ہے۔

پیراگون ہاؤسنگ سوسائٹی کیس میں گرفتار خواجہ سعدی رفیق اور خواجہ سلمان رفیق کی ضمانت کا یہ فیصلہ جسٹس مقبول باقر نے تحریر کیا جو 87 صفحات پر مشتمل ہے۔

فیصلے میں کہا گیا کہ ذہن میں رہنا چاہیے کہ ضمانت کا مقصد ملزم کی ٹرائل میں حاضری کو یقینی بنانا ہے، مقصد سزا دینا، جیل بھیجنا یا آزادی سے محروم کرنا نہیں ہے۔

عدالتی فیصلے میں کہا گیا کہ تمام مہذب معاشروں میں مجرم قرار دینے کے بعد ہی سزا شروع ہوتی ہے، جب تک ٹرائل کے بعد سزا نا سنادی جائے ملزم بے گناہ تصور ہوتا ہے، ٹرائل سے پہلے یا ٹرائل کے دوران سزا اذیت کا باعث ہے۔

تفصیلی فیصلہ میں کہا گیا کہ آئینِ پاکستان بننے کے47 سال گزرنے کے باوجود ہم ان اصولوں پر عمل نہیں کر رہے، ملک میں آئین کے برعکس پاکستان کے عوام کو ان کے بنیادی حقوق کے منافی عمل ہو رہا ہے۔

جسٹس مقبول باقر نے فیصلے میں لکھا کہ قانون کی حکمرانی، آئین کی بالادستی کی کوشش کی گئی جسے پوری قوت سے دبانے کی کوشش کی گئی تھی، ملک میں مسلسل غیرآئینی مداخلت کی گئی۔

سپریم کورٹ کے تفصیلی فیصلے میں کہا گیا کہ غیر جمہوری قوتوں کی طرف سے طاقت کی ہوس، قبضہ کا لالچ آئینی و جمہوری اصولوں کی نفی بنتا گیا۔

فیصلے میں کہا گیا کہ مقدمہ بنیادی حقوق کی خلاف ورزی، غیر قانونی طور پر آزادی سلب کرنے کی اہم مثال ہے، نیب نے اس مقدمے میں قانون کی کھلے عام خلاف ورزی کی۔

خواجہ برادران کی ضمانت کے فیصلے میں کہا گیا کہ کرپشن کا خاتمہ ایک انتہائی نیک بات ہے، لیکن نیب نے اس مقدمے میں قانون کی دھجیاں بکھیر کے رکھ دیں۔

فیصلے میں کہا گیا کہ قانون اور آئین کا جائزہ لینے کے باوجود یہ راز میں ہے کہ یہ مقدمہ کیسے بنایا گیا، اختیارات کی تقسیم کے آئینی اصول کی انتہائی توہین کی گئی۔

اس میں یہ بھی کہا گیا کہ نیب قانون ملک میں بہتری کے بجائے مخالفین کا بازو مروڑنے کے لیے استعمال کیا گیا۔

سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں لکھا کہ ملک کا کوئی بھی ادارہ کرپشن سے پاک نہیں، ایسے لوگ جنہوں نے ملک میں تباہی اور موت کا کھیل رچایا انہیں تحفظ فراہم کیا جاتا رہا۔

اس فیصلے میں یہ بھی کہا گیا کہ نیب قانون وفاداری تبدیل کروانے، سیاسی مخالفین کو سبق سکھانے کے لیے استعمال کیا گیا اور نیب قانون کو سیاسی جماعتوں کو توڑنے کے لیے استعمال کیا گیا۔

سپریم کورٹ کے اس فیصلے میں لکھا گیا کہ چھوٹے لوگوں کو منتخب اور ان کی نشو نما کرکے اہم عہدوں پر بٹھایا گیا، بدنما ماضی اور مجرمانہ ریکارڈ رکھنے والوں کو قوم پر مسلط کیا گیا۔

فیصلے میں کہا گیا کہ ملک میں کرپشن میں اضافہ ہوتا گیا، ملک میں جمہوری قدروں، آئین کی حکمرانی اور برداشت کو ہوا میں اڑایا گیا۔

اس تفصیلی فیصلے کے آخر میں جسٹس مقبول باقر نے انقلابی شاعر حبیب جالب کے شعر کا حوالہ بھی دیا۔

ظلم رہے اور امن بھی ہو

کیا ممکن ہے تم ہی کہو

واضح رہے کہ سپریم کورٹ نے 17 مارچ کو پیراگون ہاؤسنگ سوسائٹی کیس میں گرفتار خواجہ سعد رفیق اور خواجہ سلمان رفیق کی ضمانت منظور کی تھی۔

سپریم کورٹ میں خواجہ برادران کی ضمانت کی درخواست پر جسٹس مقبول باقر اور جسٹس مظہر عالم میاں خیل نے سماعت کی تھی۔

سماعت کے دوران عدالت عظمیٰ نے 30-30 لاکھ روپے کے ضمانتی مچلکوں کے عوض خواجہ برادران کی ضمانت منظور کی تھی۔

عدالت نے ریمارکس دیے تھے کہ قومی احتساب بیورو (نیب) عدالت کو مطمئن نہیں کر سکی، نیب کے پاس ابھی بھی کوئی واضح شواہد موجود نہیں ہیں۔

سماعت کے دوران خواجہ برادران کے وکیل کی جانب سے مؤقف اختیار کیا گیا تھا کہ لاہور ڈیولپمنٹ اتھارٹی (ایل ڈی اے) کے ریکارڈ میں مقدمہ غیر قانونی اختیارات کا ہے۔

انھوں نے مزید کہا تھا کہ نیب کی جانب سے انکوائری کے دوران تین خطوط سامنے لائے گئے، پیراگون سوسائٹی کی حد تک یہ خطوط جھوٹے ہیں۔

سپریم کورٹ نے لاہور ہائیکورٹ کا فیصلہ کالعدم قرار د یتے ہوئے کہا تھا کہ نیب میں نیت اہلیت یا دونوں کا فقدان نظر آتا ہے۔