سپریم کورٹ میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کیس کی سماعت میں جسٹس مقبول باقر کا کہنا تھا کہ قانون کے مطابق سپریم کورٹ کے جج کا بھی احتساب ہوسکتا ہے، فروغ نسیم نے کیس میں قرآنی آیت کا حوالہ بھی دے ڈالا جس پر جسٹس قاضی امین نے کہا کہ آپ ہمیں خطرناک صورتحال میں دھکیل رہے ہیں یہ آیت کیس سے متعلقہ نہیں ہے۔
جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں 10رکنی فل کورٹ نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کیس کی سماعت کی، جسٹس عمر عطا بندیال نے فروغ نسیم کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ کیس میں آپ کی جانب سے پیش کئے گئے سوالات کا بغور جائزہ لیا ہے تاہم ان میں اکثر سوال ضروری نہیں ہیں۔
فروغ نسیم نے کہا بنیادی سوال ہے کہ کیا جج پر قانونی قدغن تھی کہ وہ اہلیہ اور بچوں کی جائیداد ظاہر کرے، درخواست گزار کا موقف ہے کہ اہلیہ اور بچے انکے زیرکفالت نہیں ہیں۔
جسٹس مقبول باقر نے کہا کہ کسی نے بھی نہیں کہا کہ جج کا احتساب نہیں ہوسکتا، جج کا احتساب صرف قانون کےمطابق ہی ہوسکتا ہے، سپریم کورٹ کے جج کا بھی احتساب ہوسکتا ہے۔
فروغ نسیم نے کہا کہ کبھی نہیں کہا کہ جج احتساب کو نہیں مانتے، آرٹیکل 209 کے تحت کارروائی ڈسپلنری ہوتی ہے، ٹیکس کی نہیں۔
جسٹس منصور علی شاہ نے وکیل فروغ نسیم سے سوال کیا کہ ایک بات بتادیں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی اہلیہ ٹیکس ریٹرنز جمع کراتی ہیں یا نہیں، جس کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ میری معلومات کے مطابق جسٹس قاضی فائز عیسی کی اہلیہ ٹیکس ریٹرنز جمع کرواتی ہیں۔
جسٹس منصورعلی شاہ نے کہا کہ اگر جسٹس قاضی فائز عیسی کی اہلیہ ٹیکس گوشوارے جمع کراتی ہیں تو وہ زیر کفالت کیسے ہیں؟
جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ ٹیکس قانون تو تمام شہریوں کیلئے ہیں، فروغ نسیم نے بتایا کہ جسٹس قاضی فائز عیسی کی اہلیہ ٹیکس ریٹرنز جمع کرواتی ہیں، سپریم جوڈیشل کونسل میں ٹیکس سے متعلق کارروائی نہیں ہوتی۔
جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دئے کہ یہ کیسے فرض کر لیا گیا کہ خواتین سے ٹیکس کا نہیں پوچھا جائے گا؟ یہ جمپ کیسے لے لیا کہ خاوند سپریم کورٹ کا جج ہے تو وہی جائیداد کا بتائے گا۔
کیس میں فروغ نسیم نے قرآنی آیت کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ میاں اوربیوی ایک دوسرے کا لباس ہیں، اس پر جسٹس سجاد علی شاہ نے کہا کہ فروغ نسیم صاحب اس آیت کا شان نزول بھی بتادیں، آپ کو پتا ہی نہیں یہ آیت کیوں نازل ہوئی۔
جسٹس قاضی امین نے کہا کہ آپ ہمیں خطرناک صورتحال میں دھکیل رہے ہیں یہ آیت کیس سے متعلقہ نہیں ہے۔
جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ کیا پاکستان میں بطور شہری خواتین کے حقوق نہیں، کیا خواتین پاکستان میں علیحدہ جائیداد نہیں خرید سکتیں،یہ کیسے فرض کر لیا گیا کہ خواتین سے ٹیکس کا نہیں پوچھا جائے گا۔
جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ کیا خاتون جج کا خاوند پینشن نہیں لے سکتا، اس پر فروغ نسیم نے کہا کہ قانون میں جج کا لفظ دیا گیا جس سے مراد مرد اور خاتون دونوں جج ہیں۔
جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ قرآن پاک میں اثاثوں کے بارے میں کہا گیا ہے، کیا قرآن پاک سے دیےگئے حوالے غیر مسلم ججز پر بھی لاگو ہونگے، جسٹس مقبول باقر نے کہا کہ اگر قانون میں جوابدہی ہے تو وہ جواب دیں گے، قانون کے مطابق کاروائی تو شروع کر دی گئی ہے۔
جسٹس مقبول باقر نے کہا کہ جب آپ ثابت کریں گے کہ یہ جائیدادیں جسٹس قاضی عیسیٰ کی آمدن سے ہیں پھر منی ٹریل کا سوال ہوگا، جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ میاں بیوی کا تعلق اور رشتہ تو ہمیں معلوم ہے۔
فروغ نسیم نے کہا کہ برطانیہ میں جج کی اہلیہ کے بار کو خط لکھنے پر جج کو جانا پڑا، برطانوی جج جبراٹر کے معاملے میں تو معمولی سی بات پرجج نےاستعفیٰ دے دیا، جبکہ یہاں پر تو کروڑوں کی جائیدادیں ہیں۔
جسٹس عمرعطا بندیال نے کہا کہ اس کیس میں آپ نے بیگم کے مالی معاملات کا تعلق جج صاحب سے ثابت کرنا ہے۔
جسٹس منصور علی شاہ نے کہاکہ فروغ نسیم صاحب آپ ہمارے سوالات کی تعریف کرتے ہیں لیکن جواب نہیں آتا، اس پر انہوں نے کہا کہ میں سائل ہوں صرف گزارش کر سکتا ہوں۔
جسٹس یحییٰ آفریدی نے سوال کیا کہ کیا ریفرنس فائل کرنے سے پہلے کسی نے جج یا ان کی اہلیہ سے جائیدادوں کےبارے میں پوچھا، فروغ نسیم نے جواب دیا کہ جج سے جائیدادوں کا پوچھنے کیلئے مناسب فورم کونسل ہے۔
وکیل فروغ نسیم نے کہاکہ آئندہ سماعت پر بدنیتی اوراے آر یو پر دلائل دوں گا، جبکہ شواہد اکٹھے کرنا اور جاسوسی کے نکتہ نظر پر بھی دلائل دوں گا۔
جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ آئندہ سماعت ویڈیو لنک کے ذریعے ہوگی، کچھ ججز ممکن ہیں اسلام آباد میں موجود نہ ہوں۔ اس کے بعد سپریم کورٹ نے کیس کی سماعت پیر تک ملتوی کردی۔