اسلام آباد( رپورٹ : رانا مسعود حسین ) عدالت عظمیٰ نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور متعدد وکلاء تنظیموں کی جانب سے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور جسٹس کے کے آغا کے خلاف دائر صدارتی ریفرنس کیخلاف دائر کی گئی آئینی د رخواستوں کی سماعت کے دوران عدالت نے اٹارنی جنرل سے استفسارکیا کہ ریفرنس کیسے بنایا گیا۔
جسٹس فائز عیسیٰ پر الزام کیا ہے؟جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ آپ کے تمام سوالوں کا جواب دوں گا پہلے مجھے کیس بنانے دیں۔ انہوں نے سوال اٹھایا کہ کیا ایگزیکٹو کو جج کے خلاف معلومات کی تصدیق نہیں کرنی چاہئے؟
عدالت نے قومی میڈیا کو وفاقی حکومت کے چیف لاء افسر انور منصور خان کی جانب سے 10رکنی بنچ کے رکن ججوں کے حوالے سے لگائے گئے قابل اعتراض الزامات کی رپورٹنگ سے منع کردیاہے جبکہ اٹارنی جنرل نے دلائل دیتے ہوئے سوال اٹھایاکہ کیا ایک جج کو شوکاز نوٹس کے اجراء کے بعد سپریم جوڈیشل کونسل کی کارروا ئی سپریم کورٹ میں چیلنج ہو سکتی ہے ؟
ججوں کیخلاف جو الزامات ہیں ان کا جائزہ لیا جانا چاہیے، انصاف صرف ہونا نہیں بلکہ ہوتا ہوا نظر بھی آنا چاہئے۔جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں جسٹس مقبول باقر، جسٹس منظور احمد ملک، جسٹس فیصل عرب، جسٹس مظہر عالم میاں خیل ، جسٹس سجاد علی شاہ، جسٹس سید منصور علی شاہ، جسٹس یحی ٰ آفریدی اور جسٹس قاضی محمدامین احمد پر مشتمل 10رکنی فل کورٹ بنچ نے منگل کے روز کیس کی سماعت کی تو ملکی عدالتی تاریخ کا اپنی نوعیت کا پہلا واقعہ رونما ہوا۔
جب اٹارنی جنرل انور منصور خان نے اپنے جوابی دلائل شروع کرنے سے قبل کہا کہ میرے ذاتی علم میں ہے کہ اس کیس میں کچھ خاص بات ہے جو نہیں ہونی چاہئے تھی۔
انہوں نے بات کوآگے بڑھاتے ہوئے فاضل ججوں کے حوالے سے کچھ نامناسب اور قابل اعتراض الزامات عائد کئے تو جسٹس مقبول باقر نے کہاکہ یہ مناسب بات نہیں ہے جبکہ جسٹس منصور علی شاہ نے کہاکہ آپ یہاں پر ریاست پاکستان کی نمائندگی کررہے ہیں۔
آپ کیسے اس طرح کے الزامات عائد کرسکتے ہیں ؟جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ وہ عدالت اور موجودہ بنچ پر مکمل اعتماد کرتے ہیں۔بنچ کے سربراہ جسٹس عمرعطا بندیال نے کہاکہ اگر حکومت کو اس حوالے سے کوئی تحفظات ہیں تو آپ یہ سب کچھ تحریری طور پر دیں یا پھر اس بات کو واپس لیں۔جسٹس مقبول باقر نے کہا کہ آپ یہ الزمات واپس لیں تاکہ ہم کیس کو آگے بڑھا سکیں۔
جس پر اٹارنی جنرل نے کہاکہ میں یہ الزام واپس لیتا ہوں،جس پرجسٹس مقبول باقر نے عدالتی رپورٹروں کو زبانی طور پر ہدایت کی کہ اٹارنی جنرل کے الزامات کی رپورٹنگ نہیں کرنی ہے۔
بعد ازاں اٹارنی جنرل نے جوابی دلائل دیتے ہوئے موقف اختیار کیا ہے کہ درخواست گزاروں نے اصل ایشو سے عدالت کی توجہ ہٹانے کی کوشش کی ہے۔کل کائنات کا مالک اور اصل حاکمیت اللہ تعالیٰ کی ہے، ملک کا نظام منتخب نمائندوں کے ذریعے چلایا جاتا ہے ،عدلیہ کو آئین میں مکمل تحفظ فراہم کیا گیا ہے، جج عدالتوں میں انصاف کرنے کیلئے موجود ہوتے ہیں۔
انہوں نے کہاکہ میں کوشش کرونگا کہ درخواست گزار کی جانب سے اٹھائے گئے تمام نکات کے جواب دوں۔
ا نہوں نے کہاکہ درخواست گزار جسٹس فائز عیسی ٰکیخلاف الزامات کا جائزہ سپریم جوڈیشل کونسل نے لینا ہے، ریفرنس میں سپریم جوڈیشل کونسل کو کہا گیا ہے کہ وہ جائزہ لے کہ یہ جائیدادیں جسٹس فائز عیسی ٰکی ہیں یا نہیں؟ انہوں نے کہاکہ یہ تاثر ہے لندن جائیدادوں کا براہ راست تعلق جسٹس فائز عیسی کیساتھ ہے۔
تاثر یہ بھی ہے کہ جسٹس فائز عیسی نے غیرملکی جائیدادوں کیلئے رقم فراہم کی ہے۔انہوں نے کہاکہ سپریم جوڈیشل کونسل کی انکوائری سے پہلے کوئی نتیجہ اخذ نہیں کیا جا سکتا۔
حکومت کوکسی جج سے کوئی عداوت نہیں ہے۔انہوں نے کہاکہ دونوں ججوں(جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور جسٹس کے کے آغا) کیخلاف جو الزامات ہیں سپریم جوڈیشل کونسل میں ان کا جائزہ لیا جانا چاہئے۔