مایوسی کے دلدل میں پھنسے ہوئے نوجوان، بھیک مانگنے میں بھی قباحت محسوس نہیں کرتے

August 15, 2020

محمد فاروق دانش

ہم اپنے گرد و پیش کا جائزہ لیں تو یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ موجودہ دور میں روزگار کی فراہمی اور مختلف شعبوں میں مناسب ذرایع میسر نہ ہونے کے سبب معاشرے کے عام افراد اور خصوصاً نوجوانوں نے کام کاج اور محنت مزدوری کرکے اپنی روزی پیدا کرنے کی کوشش کی بجائے تن آسانی کی خاطر مانگ کر گزاراکرنے کو رواج دینا شروع کر دیا ہے۔روزگار کی عدم فراہمی نئی نسل کو درپیش صورت حالت میں کسی وائرس سے کم دکھائی نہیں دیتی ، مسلسل بےیقینی اور مستقبل سے وابستہ امیدوں کے حوالے سے پائی جانے والی مایوسی نے نئی نسل کو جن مشکلات میں مبتلا کردیا ہے ،اس کے سبب غریب گھرانوں کے نوجوانوں میں گداگری کا بڑھتا ہوا رجحان تشویش ناک صورت حال اختیار کر رہا ہے۔

مایوسی کے سبب آگے بڑھنے کی لگن کم ہوتی جارہی ہے ،عام افرادنے تواپنی عمومی ضروریات پوراکرنے کے لیے ہاتھ کی کمائی کو ترجیح دینے کے بجائےمانگ کر گزارا کرنے کی عادت کو اپنا ہی لیا تھاساتھ ہی ایک جانب بھیک مانگنے کی عادت نے ہوش مند نوجوانوں کے جذبہ خود اعتمادی کو نقصان پہنچایا ہے تو دوسری جانب باہوش والدین نہ چاہتے ہوۓ بھی گداگری کو روکنے میں ناکام دکھائی دے رہے ہیں ۔

موجودہ صورت حال کے حوالے سے پائی جانے والی مایوسی نے نئی نسل کو جن قباحتوں میں مبتلا کیا ہے ان کے سبب غریب گھرانوں کے ساتھ ساتھ سفید پوش گھرانوں کے جوانوں میں بھی گداگری کا بڑھتا ہوا رجحان تشویشناک صورت حال اختیار کر رہا ہے ۔ مایوسی کے سبب آگے بڑھنے کی لگن کم ہوتی جارہی ہے ،کم اجرت پر پرائیوٹ ملازمت اور قابل افراد کی ناقدری جیسے معاملات نے بھی نوجوانوں میں اپنی ضروریات پوری کرنے کے لیے محنت کو ترجیح دینے کی بجائے ،مانگ کر گزاراکرنے اوردوسروں کے سامنے ہاتھ پھیلانے کے عادی ہوتے جارہے ہیں ۔

یہ کام تن آسانی پر مائل افراد کو بے حد بھلا لگا ۔حال آں کہ بے سبب یا عذر بھیک مانگنے کی عادت نے نوجوانوں کے جذبہ خود اعتمادی کو سخت نقصان پہنچایا ہے ۔اس کام کو نامناسب سمجھنے والے باہوش والدین اور ہمدردی رکھنے والے دوست بھی اس صورت حال میں بڑھتی ہوئی گداگری کو روکنے میں ناکام دکھائی دے رہے ہیں ۔

ضروریات زندگی اور خواہشات نفس آسانی سے پوری ہوجانے کی سبیل نکل آنے کی وجہ سے موجودہ دور میںنوجوانوں کی اکثریت دوسروں کے سامنے ہاتھ پھیلانے میں کسی قسم کی قباحت محسوس نہیں کرتی ،جب ایسے نوجوانوں سے عزت نفس کے متعلق استفسار کیا جاتا ہے تو وہ کہتے ہیں کہ کون سی عزت ؟اور کیسا نفس ،ہم تو اپنی حاجات کو ہی سب کچھ سمجھتے ہیں ،اگر وہ بھیک مانگنے سے پوری ہو جاتی ہیں تو اس میں شرم کیسی ؟ یہی وجہ ہے کہ ہم نوجوانوں کو اپنے اسلاف کا پیروکار بننے اور کام یابی کے ان اسلوب کی سمت لے جانے میں ناکام رہے ہیں ۔

گداگرافراد کو با وقار اور باعزت زندگی گزارنے کے طور طریقے سکھانے کے خواہاں بڑے خود اس صورت حال سے مایوس ہیں ، بیشتر افراد اور ادارے ایسے نوجوانوں کو کما کر کھانے کی طرف لانے میں عملاًیوں ناکام رہے کہ انھیں بنا ہاتھ پیر ہلائے ہزاروں کی آمدن نظر آتی ہے جب کہ محنت مزدوری کے ذریعے آجر پانچ سو رپے بھی آٹھ گھنٹے بعد رُلا رُلا کر دیتے ہیں اور کام بھی سخت کرنا پڑتا ہے، بھیک میں انکم حاصل کرنےکے لیے جتنی چال بازی کی جائے، اتنی ہی زیادہ ہوتی ہے اور پھر یہ تواپنااپنا ہنر ہے،جس نے جتنی دیر چاہا آزمالیا اور جب جیب مال سے بھر گئی تو گھر آکر آرام کر لیا۔آپ کو شاید اندازہ نہ ہو کہ ہمارے ملک میں ایسے لاکھوں لوگ ہیں جو بھیک مانگ کر لکھ پتی نہیں بل کہ کروڑ پتی بن چکے ہیں۔

مرنے والے فقیروں سے کروڑوں برآمد ہونے کی خبریں ضرور آپ کی نظروں سے بھی گزری ہوں گی۔یہ ضرور ہے کہ اس پیشے سے وابستہ چند عناصر ایسے ہیں جو اس فعل کو برا تو سمجھتے ہیں لیکن چوں کہ وہ ان کا آبائی پیشہ بن چکاہے اس لیے اب وہ اس سے روگردانی بھی نہیں کرنا چاہتے۔بہت مشکل سے انگلیوں پر گنے جانے والے افراد ایسے نکلیں گےجنھوں نے واقعی اس عمل سے توبہ کر لی ہو۔غضب خدا کا ،اب تو یہ حال ہے کہ ہر گلی اور ہر موڑ پر یہ ستم گر موجود ہیں اور یہ بھیک اس طرح مانگ رہے ہوتے ہیں کہ جیسے ہمیں ان کا کوئی پرانا قرض چکانا ہو۔

یہ ایک پہلو ضرور ہے کہ ملازمت نہ ملنے جیسے عوامل ان نوجوانوںمیں بد دلی اور مایوسی کا سبب بن جاتے ہیں جس کے نتیجے میں ان میں منفی سر گرمیاں بھی فروغ پاتی ہیں۔اکثر نوجوان منشیات کے عادی بن کر اپنی جسمانی صلاحیتوں ،بل کہ بسا اوقات اپنی زندگی تک سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں ۔یہ صورت حال ہر گزرتے لمحے کے ساتھ سنگین شکل اختیار کر رہی ہے ،مگر تا حال نوجوانوں کو خراب عادتوں سے بچانے اور اچھے کاموں کا عادی بنانے کی کوئی بھی کوشش کام یابی سے ہم کنار نہیںہوپارہی ۔یہ ایک اہم سوال ہے جس کے جواب کے منتظر خود مایوسی کے دلدل میں پھنسے نوجوان بھی ہیں جو ان حالات میں گداگری کرنے میں کوئی قباحت محسوس نہیں کر رہے ۔اس ساری صورت حال کا بہر طور اصل فائدہ گدا گری سے وابستہ اُن حلقوں کو ہو رہا ہے جو نوجوانوں کی خراب عادتوں میں اضافے سے شاداں ہیں ۔

آج کا نوجوان ،آنے والے کل کے حوالے سے جس بے یقینی اورمایوسی کا شکار ہے اس کا کوئی مضبوط جواز تو ان کے پاس موجود نہیں، مگر اکثر مواقعوں پر مسلسل ناکامی اور مایوس کن صورت حال انھیںبے راہ روی میں مبتلا کیے رکھتی ہے ،جس کا نقصان ہر صورت انھی کو ہو رہا ہے مگر نوجوانوں کی اکثریت یا تو اپنے مستقبل سے مکمل طورپر نا امید ہو چکی ہے یا پھر وہ اپنےکل کو بہتر بنانے کا عزم کرنے سے بھی گریزاں ہیں۔گداگروں کی اکثریت یا تو بحالت مجبوری یا پھر معاشرے کی جانب سے ٹھکرائے جانے کی وجہ سے گداگری اختیار کر لیتے ہیں اور جب کبھی انھیں بہتر معاشی وسائل مہیا ہو جاتے ہیں تو وہ گداگری ترک کرکے محنت کی کمائی کو ترجیح دینے لگتے ہیں گوکہ ایسی مثالیں بہت کم ہیں ، تاہم اس پیشے سے وابستہ افراد کو ماضی قریب میں معاشرے کا پروقار فرد تصور نہیں کیا جاتا تھا اور معاشرتی مسائل ہی انھیں گداگری اختیارکرنے پر مجبور کر دیتے تھے ، معاشرتی نا ہمواریاں ،حق داروں کو حق سے محروم کرنے اور عدم مساوات کو وطیرہ بنا لینے کی صفات گداگری کےفروغ کا سبب بنتی ہیں۔

ماضی قریب میں بھی گداگروں سے تعلق جوڑنے یا انھیں اپنا ہم عصر سمجھنے سے بھی گریز کیا جاتا تھا ،جس کی وجہ سے گداگری سے متعلق تصورات کو تقویت نہیں ملتی تھی اور گداگری ایک معیوب عمل سمجھے جانے کی وجہ سے نوجوان بھی گداگروں سے دور رہنے ہی میں عافیت محسوس کرتے تھے ۔صحیح و غلط میں تمیز کرنے اور بری عادات سے بچنے میں کوتاہی وہ اسباب ہیں جنھوں نے نوجوانوں کو گداگری کی جانب مائل کر رکھا ہے اور ارادے کی کمزوری نے گداگروں کو زیادہ معزز بنا دیا ،گویا گداگری کاشعبہ عزت و توقیر اختیار کرگیاہو اوراس سے وابستہ افراد بھی جو کسی زمانے میں عام نوجوانوں کو گداگری سے دور رہنے اور اپنے عزم و ارادے میں نئی قوت لانے کا مشورہ دیا کرتے تھے ، اب گداگری کو ایک مقصد اور صنعت کی حیثیت سے پروان چڑھتا دیکھ رہے ہیں۔

بر خلاف اس کے اگر جائزہ لیا جائے توماضی قریب ہی میں گداگروں کی معاشرتی حیثیت کو مخصوص رکھنے ،ہاتھ کی کمائی کو ترجیح دینے ، دوسروں کے سامنے ہاتھ پھیلانے سے گریز کرنے، گداگروں کو معاشرے کا غیر اہم اور غیر فعال حصہ بیان کرنے کی کوششوں کا اثر لا محالہ نوجوانوں پر ہونا چاہئے تھا اور نوجوان گداگری کے رجحان کو برا تصور کرکے ہاتھ سے کما کر اپنی ضروریات پوری کرنے کا عزم کرتے دکھائی دیتے اور دوسروں کے آگے ہاتھ پھیلانے کو معیوب تصور کیا کرتے ،گوکہ اس مقصد کے حصول کے لئے گھر کے بزرگ اور اساتذہ بھی اپنا مثبت کردار ادا کرسکتے تھے اور ہاتھ سے کمانے، اپنی کمائی سے ضروریات پوری کرنے والے نوجوانوں کے کارنامے بیان کرکے نوجوانوں میں گداگری سے نفرت پیدا کیا کرسکتے تھے اور کسی طور وہ ایسا کرتے بھی ہوں گے مگر ان کی ایسی کوششوں کا نوجوانوں پر کس حد تک اثر ہوا ، گویا نوجوان خرابیوں سے دور ہو گئے،یا منفی رجحانات میں اضافہ نوجوانوں کو مزید ناکامیوں اور نا مرادیوں کی طرف لے جائے گا۔

تمام تر صورت حال اور مایوس کن حقائق ،گداگروں کی حوصلہ شکنی کے طور طریقے اختیار کرنے کی باتیں کیے جانے کے باوجود گداگری سے وابستہ افراد اور اداروں کے مضبوط نیٹ ورک کو توڑنا اور معاشرے میں گداگری خاص طور پر نوجوان مرد اور عورتوں میںبڑھتے ہوئے رجحان کو روکنے میں ناکامی کا ایک بڑا سبب گداگری کی مافیائوں والی حیثیت کا ہونا ہے ۔اس عمل کا تدارک انتظامیہ کی عدم دل چسپی سے کبھی بھی ختم نہیں ہو سکتا۔پیشہ ور گداگروں کے خلاف کوئی کارروائی نہ ہونے کے سبب ان لوگوں کے حوصلے بے حد بلند ہو چکے ہیں۔کوئی دقیقہ ایسا نہیں گزرتا کہ آپ پیدل یا گاڑی پر کچھ لمحے کے لیے کہیں توقف کریں اور یہ ہٹے کٹے نوجوان لڑکے اور لڑکیاں آپ کے آگے ہاتھ پھیلائے نہ کھڑے ہوں۔

گداگری سے منسلک نئی نسل کی حوصلہ افزائی ان کے عزم کوتقویت دینے کا سبب بنتی ہے ،اگر ان عناصر کی حوصلہ شکنی کی جائے توایسا کرنے سے بددل نوجوانوں کو ذلت و گمراہی کے گڑھے میں پڑنے سے بچایا جا سکتا ہے ،ان کی مثبت صلاحیتوں کو اجاگر کرنے ،ان کے جذبوں کو متحرک کرنے اورباعزت وخود اعتمادی پر مبنی زندگی گزارنے کا عادی بنانے کی کوششوں کو نئی جہت دی جا سکتی ہے ۔نوجوانوں کی بہتر خدمات اور موثر مصروفیات معاشرتی مسائل کے حل میں بھی مدد گار ثابت ہوسکتی ہیں۔

مخیر و درد مند دل رکھنے والے افراد کی انفرادی اور خدمت خلق کے اداروں کی باہمی کوششوں سے بھی ایسے نوجوانوں کو خود روزگار کی فراہمی یقینی بنا کر انھیں معاشرے کا مثالی اور قابل اعتماد فرد بنایا جا سکتا ہے، جہاں دیگر بہت سے شعبوں پر ہماری نظر ہے ، ایسے نوجوان گداگروں کے اس فعل کی بیخ کنی لازمی اور ان کی معاشرے میں کارآمد فرد کی حیثیت سے شمولیت وقت کی اہم ضرورت ہے اور اس سے کوتاہ نظری ایک جرم ہی گردانی جائے گی۔ ان کے لیے کام کرکے ان کو ایسی قبیح عادتوں سے چھٹکارا دلایا جاسکتا ہے جو معاشرے میں انھیں لایق نفرت بنانے کا سبب بنتی ہیں۔