پہاڑوں کو تراش کر بنائے جانے والے محلات

August 30, 2020

دو ہزار سال قبل اردن کے بالائی صحرا میں واقع پہاڑوں میں پیازی و گلابی رنگت کے رسوبی پتھر کو تراش کر بنائے جانے والے محلات و مقابر انسانی ہاتھ کی کاریگری کا عظیم شاہکار کہلاتے ہیں، جنہیں دیکھ کر آج کے انسان کو یقین نہیں آتا کہ قدیم دور کا انسان اس سے کہیں زیادہ اختراع ساز تھا۔ سنگی تعمیرات پر مبنی یہ شہرِ گلاب (Rose City)کہلانے والا پترہ نامی علاقہ گم شدہ تہذیب کی عظمت کا نشانبر ہے، جو نبطی سلطنت کا دارالحکومت تھا۔

خانہ بدوش صحرائی نبطیوں کے بارے میں بہت کم معلومات ملتی ہیں، جن کی سلطنت انہی چٹانوں اور پہاڑوں کے درمیان ابھری۔ لوبان اور دیودار کی تجارت سے انہوں نے بے تحاشا دولت حاصل کی، ان کے تجارتی روابط بحر روم اوربحر عرب کے درمیان اونٹوں کے کاروانوں کے ذریعےمصر سے شام اور یونان تک تھے۔

دیودار اور شیشم کی مضبوط لکڑی سے بنائے جانے والے بیڑوں کے باعث انہیں سمندروں پر کنٹرول حاصل تھا اور پہاڑوں کو تراش کر تعمیر سازی کی جادوئی صلاحیت نے انہیں صدیوں تک اس علاقےمیں بالادست اور ناقابل شکست حکمران بنائے رکھا۔63قبل مسیح میں رومیوں کے یہاں پہنچنے سےبڑی تعمیرات کا سلسلہ شروع ہوا۔ 6ہزار تماشائیوں کی گنجائش پر مبنی تھیٹر قائم کیا، ساتھ ہی شہر کے سامنے کے رُخ پر ایستادہ پہاڑوں کو تراش کرخزانہ گھر اور پوجاگھر قائم کیے، جن میں ہیلینیائی طرز تعمیر نمایاں رہا۔ ان میں تزئین و آرائش پر مبنی کارنتھیئن ستون، بیس ریلیف ایمیزونز اورفینسی ایکروٹیریا جیسے تعمیراتی کمالات سے فن تعمیر میں رومی رنگ کو نکھارا۔

پترہ کی کنسٹرکشن انجینئرنگ کے کئی مظاہر آپکو اس جگہ واضح نظر آئیں گے،جس میں نفیس نکاسی آب کا نظام قابل دید تھا جو30ہزار رہائشیوں کی ضروریات پوری کرتا تھا۔ اسے 12فٹ بلندی پر خمدار راستوں سے ترتیب دیا گیا تھا۔اس پانی کو قحط کے دنوں کے لیے بھی محفوظ رکھا جاتاتھا۔ پترہ کی تعمیراتی خوبصورتی یہاں آنے والے لاکھوں سیاحوں کو حیرت میں مبتلا کردیتی ہے۔ پورا شہر تعمیراتی فن پاروں کے نشانات سے بھرا پڑا ہے۔

ہر ایک گھنٹے کے بعد یہاں کے پتھر اور مصوری کی کندہ کاری کے نمونے اپنا رنگ بدلتے ہیں۔ شاندار سلک مقبرہ سرخ،نیلے اور گیروی رنگوں میں بدلتا رہتا ہےجبکہ نمایاں سنگ مر مر کی سیڑھیاں بازنطینی دور کے گرجا گھر تک جانے کے لیے موجود ہیں۔ پترہ میںعیسائیت تیسری اور چوتھی صدی میں آئی اور پھلی پھولی تاہم زلزلے کے بعد یہ شہرِ ویران میں تبدیل ہوگیا اور ساتویں صدی کی ابتدائی اسلامی سلطنتوں کے رواج پانے پر یہاں عیسائیت کی اہمیت کم ہوئی۔

پھر رفتہ رفتہ یہ شہر کھنڈرات میں تبدیل ہوگیا، جسے سوئس کھوجی و مہم جو جوہان برک ہارڈٹ نے1812ء میں دوبارہ دریافت کیا۔اس وقت سے اب تک ماہرین آثار قدیمہ اس کی پراسراریت سےپردہ اٹھارہے ہیں۔ 2016ء میں سیٹیلائٹ امیجز کی مدد سے ایک یادگاری ڈھانچہ دریافت کیا گیا جو ریت میں مدفون تھا۔

پترہ کی سحر انگیز تعمیرات کے باعث یہ بات تعجب انگیز نہیں ہے کہ اردن کا سب سے معروف سیاحتی مقام یہی ہے جسےیونیسکو کی جانب سےعالمی ورثے کا مرتبہ بھی حاصل ہے۔ پترہ عمان سے تین گھنٹے اور عقبہ کی بندرگاہ سے دو گھنٹے کی مسافت پر واقع ہے۔اس کا رقبہ سو مربع میل سے زائد ہے،جو مین ہٹن سے چار گنا زائد ہے۔ اس خوبصورت شہر کی سیر ایک دن کا سودا نہیں، کم از کم ایک ہفتہ ٹہر کر آپ اس شہر خموشاں کے شاندار تعمیراتی ورثے کو ملاحظہ کرسکتے ہیں۔

مدائن صالح

نبطی سلطنت کے دارالحکومت پترہ کے ساتھ مدائن صالح کا ذکر کرنابھی ناگزیر ہے کہ یہ اسی تہذیب اور تعمیراتی فن کی کڑی ہے۔ اس سلطنت کی سرحدیں بہت وسیع تھیں جن میں آج کے اردن، شام ، اسرائیل اور سعودی عرب آجاتے ہیں۔ سعدی عرب میں اسی تہذیبی ورثے کی باقیات مدائن صالح کے نام سے جانی جاتی ہیں۔

یہ جگہ سعودی عرب کے انتظامی خطہ المدینہ کے علاقے العلی میں واقع ہے، جو ظہور اسلام سے قبل کا ایک انسانی معاشرہ اور تہذیب ہے۔ اس قدیم شہر کی اکثر باقیات سلطنت نبطی سے تعلق رکھتی ہیں۔ قدیم لحیان اور قدیم 'رومی بادشاہت کے قبضہ جات جبکہ 'نباتین سلطنت سے قبل اور بعد کے آثاربھی ملے ہیں۔

یہاں پر 'قوم ثمودآباد تھی، اسلامی عبارات اور معلومات کے مطابق قوم ثمود جس نے پہاڑوں کو تراش کر گھر بنائے تھے۔ سعودی عرب کی حکومت 1972ء سے اس شہرکو اس کی تاریخی حیثیت کی وجہ سے سیاحت و تفریح کی کشش کے لیے مدائن صالح کے طور سے فروغ دے رہی ہے اور اس کو قومی تہذیبی تشخص کی حیثیت سے محفوظ کیا گیا ہے۔ قدیم تہذیبی 'سلطنت نباطین کے انتہائی محفوظ حالت میں موجود خاص کر 131پتھروں کے تراشیدہ گھر اور ان کے بیرونی داخلی دروازوں کو 2008ء میں اقوام متحدہ کے ادارے یو نیسکو نے اسے سعودی عرب میں عالمی ورثہ کی پہلی جگہ قرار دیا تھا۔

یہ عرب کی قدیم ترین اقوام میں سے دوسری قوم تھی جو عاد کے بعد سب سے زیادہ مشہور و معروف ہے۔ اس قوم کا مسکن شمالی مغربی عرب کا وہ علاقہ تھا جو آج بھی الحَجِر کے نام سے موسوم ہے۔ اب تک وہاں ہزاروں ایکڑ کے رقبے میں وہ سنگی عمارتیں موجود ہیں جن کو ثمود کے لوگوں نے پہاڑوں میں تراش تراش کر بنایا تھا اور اس شہر خموشاں کو دیکھ کر اندازہ کیا جاتا ہے کہ کسی وقت اس شہر کی آبادی چار پانچ لاکھ سے کم نہ ہوگی۔