حضرت امام حسینؓ

August 30, 2020

مولانا نعمان نعیم

(مہتمم جامعہ بنوریہ عالمیہ)

شہادت کے فضائل سے قرآن وحدیث بھرے ہوئے ہیں اور اسلامی تعلیمات کی رو سے ایک مسلمان کی حقیقی ودائمی کامیابی یہی ہے کہ وہ اﷲ کے دین کی سربلندی کی خاطر شہید کردیا جائے، لہٰذا ایک مومن کی تو دلی تمنا یہی ہوتی ہے کہ وہ اﷲ کی راہ میں شہادت سے سرفراز ہو۔ حضرت ابوہریرہؓ بیان کرتے ہیںکہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا: قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضۂ قدرت میں میری جان ہے، میری یہ آرزواورتمناہے کہ میں اللہ تعالیٰ کی راہ میں قتل (شہید) کیا جاؤں، پھر زندہ کیاجاؤں،پھر شہید کیا جاؤں، پھر زندہ کیا جاؤں، پھر شہید کیا جاؤں، پھر زندہ کیاجاؤں اورپھر شہیدکیا جاؤں‘‘۔(صحیح بخاری،مشکوٰۃ المصابیح)

ماہِ محرم ہمیں نواسۂ رسولؐ،شہیدِ کربلا حضرت امام حسینؓ اوران کے عظیم جاں نثاروں کی یاد دلاتا ہے ،جنہوں نے کربلا میں ظلم اور باطل نظام کے خلاف کلمۂ حق بلند کرتے ہوئے راہِ حق میں اپنی جانیں قربان کیں۔شہدائے کربلا کے قافلہ سالارسیدنا حضرت حسینؓ کی ذات گرامی جرأت وشجاعت اور حق وصداقت کا بلند مینار ہے۔ سیدنا حضرت حسین ابن علیؓ کی ولادتِ باسعادت پانچ ہجری کو ہوئی۔ رسول اللہﷺ نے اپنے دستِ مبارک سے آپؓ کو شہد چٹایا۔ آپؓ کے دہن مبارک کو اپنی بابرکت زبان سے تر کیا اور دعائیں دیں، حسین نام رکھا۔ سیدنا حضرت امام حسینؓ کا چہرۂ مبارک رسول اللہ ﷺ کے چہرۂ انور سے مشابہ تھا اور جسم پاک رسولﷺ کے جسمِ اطہر کے مشابہ تھا۔

حضرت اسامہ بن زیدؓ سے مروی روایت کے مطابق ایک رات وہ سرور کائناتﷺ کی خدمتِ اقدس میں حاضر ہوئے‘آپﷺ باہر تشریف لائے تو کچھ اٹھائے ہوئے تھے،جسے وہ نہیں جان سکے۔دریافت کیا’’آپ ﷺ کیا اٹھائے ہوئے ہیں؟‘‘ آپ ﷺ نے چادر مبارک اٹھائی تو انہوں نے دیکھا کہ آپﷺ کے دونوں پہلوئوں میں حضرت حسنؓ اور حضرت حسینؓ ہیں۔آپﷺ نے فرمایا ’’یہ دونوں میرے بیٹے اور میرے نواسے ہیں۔‘‘ اور فرمایا ’’اے اللہ، میں ان دونوں کو محبوب رکھتا ہوں، تُو بھی انہیں محبوب رکھ اور جو ان سے محبت کرتا ہے،انہیں بھی محبوب رکھ۔‘‘

نبی آخر الزماںﷺ نے ارشاد فرمایا ’’حسینؓ مجھ سے ہیں اور میں حسینؓ سے، یا اللہ جو حسینؓ کو محبوب رکھے، تُو اسے محبوب رکھ۔‘‘ اور آپﷺ کا یہ فرمانِ مبارک ’’جویہ چاہے کہ نوجوانانِ جنت کے سردار کو دیکھے، وہ حسین بن علیؓ کو دیکھ لے۔‘‘

تاریخی روایات کے مطابق نواسۂ رسولؐ، شہید کربلاؓ 72 نفوس قدسیہ کے ہمراہ وارد ہوئے اور میدانِ کربلا میں حق و صداقت اور جرأت و شجاعت کی وہ بے مثال تاریخ رقم کی،جس پر انسانیت ہمیشہ فخر کرتی رہے گی۔ جب سیّدنا حسین ابنِ علیؓ اپنے جاں نثاروں کے ہمراہ کربلا کی جانب روانہ ہوئے تو آپ نے تمام باتوں کے جواب میں ایک بات فرمائی:’’میں نے (اپنے نانا) رسول اکرم ﷺ کو خواب میں دیکھا ہے،آپﷺ نے تاکید کے ساتھ اس میں مجھے ایک کام کا حکم دیا ہے، اب بہرحال میں یہ کام کروں گا، خواہ مجھے نقصان ہو یا فائدہ۔ پوچھنے والے نے پوچھا کہ وہ خواب کیا ہے؟ آپؓ نے فرمایا: ابھی تک کسی کو نہیں بتایا، نہ بتائوں گا، یہاں تک کہ اپنے پروردگار عزّوجل سے جاملوں گا۔‘‘

امام حسینؓ اور ان کے رفقاء معرکۂ حق و باطل میں حق و صداقت اور جرأت و شجاعت کا علَم بلند کیے ریگ زارِ کرب و بلا میں جرأت و استقامت کی بے مثال تاریخ رقم کرکے حق وصداقت کا پیغام دے گئے ۔

دنیا کی تاریخ کا ہر ورق انسانوں کے لیے عبرتوں کا مرقع ہے، خصوصاً دنیا کی تاریخ کے اہم واقعات انسانوں کے لیے ہر شعبۂ زندگی میں اہم نتائج سامنے لاتے ہیں،جو کسی دوسری تعلیم و تلقین سے حاصل نہیں ہوسکتے۔اسی لیے قرآن کریم کا ایک بہت بڑا حصہ قصص اور تاریخ پر مشتمل ہے‘ قرآن پاک نے قصص کے ٹکڑے بیان کرکے نتائج کے لیے پیش فرمائے ہیں۔

آپ کا وہ تاریخی خطبہ جو آپؓ نے مقامِ بیضہ میں دیا، تاقیامِ قیامت ہماری رہنمائی کرتا رہے گا اور ہمیں حق پرستی کی شمع روشن رکھنے کا درس دے گا۔ آپؓ نے حمد و ثناء اور درود و سلام کے بعد پُرجوش انداز میں فرمایا: لوگو! رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جس نے ایسے بادشاہ کو دیکھا جو ظالم ہے، خدا کی حرام کی ہوئی چیزوں کو حلال کرتا ہے، خدا کے عہد کو توڑتا ہے، سنتِ رسول کی مخالفت کرتا ہے، خدا کے بندوں کے درمیان گناہ اور زیادتی کے ساتھ حکومت کرتا ہے (پھریہ سب کچھ)دیکھنے والے کو اس پر عملاً یا قولاً غیرت نہ آئی تو اللہ کو یہ حق ہے کہ اس(ظالم)بادشاہ کی جگہ اس دیکھنے والے کو دوزخ میں داخل کردے ، میں تم کو آگاہ کرتا ہوں کہ ان لوگوں نے شیطان کی اطاعت قبول کرلی ہے اور اطاعتِ رحمن چھوڑدی اللہ کی زمین پر فتنہ وفساد پھیلا رکھا ہے ، حدودِ خداوندی کو معطل کردیا ہے، غنیمت میں اپنا حصہ زیادہ لیتے ہیں، خدا کی حرام کردہ چیزوں کو حلال اور حلال اشیاء کو (ازخود)حرام کردیا ہے، اس لیے مجھے ان باتوں پر غیرت آنے کا زیادہ حق ہے، میرے پاس بلاوے کے تمہارے خطوط آئے بیعت کا پیام لے کر تمہارے قاصد آئے،انہوں نے کہا کہ تم مجھے (ہرگز) دشمنوں کے سپرد نہ کروگے اور بے یارومددگار نہ چھوڑو گے، اگر تم اپنی بیعت کا حق ادا کروگے تو ہدایت پائوگے ، میں حسین بن علی وابن فاطمہ بنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہوں، میری جان تمہاری جانوں کے ساتھ اور میرے اہل بیت تمہارے گھر والوں کے ساتھ ہیں، تمہارے لیے میری ذات(بہترین) نمونہ ہے، اب اگر تم اپنے فرائض بجا نہ لائوگے اور عہدوپیمان توڑ کر اپنی گردنوں سے میری بیعت کا حلقہ اتار لوگے تو قسم بخدا! تم سے یہ بعید نہیں، تم میرے والد، بھائی اور چچا زاد کے ساتھ ایسا کرچکے ہو، جو تمہارے فریب میں آئے ،وہ فریب خوردہ ہے، تم نے عہد توڑ کر اپنا حصہ ضائع کردیا(تو)جو عہد شکنی کرے، اس کا وبال اس کے سر ہے، عنقریب خدا مجھے تمہاری امداد سے بے نیاز کردے گا۔(طبری)

نواسۂ رسولؐ،حضرت امام حسینؓ شہادت کے عظیم رتبے سے سرفراز ہوئے،بے شک اللہ تعالیٰ نے ان کی شہادت کے لیے یہ دن عطا فرمایا کہ جس دن کی عظمت اور بزرگی دیگر دنوں سے حرمت والی ہے۔آج جب پوری دنیا اسلام کے خلاف صف آراء ہو چکی ہے،ان حالات میں ضرورت ہے کہ ہم اسوۂ شبیریؓ پر عمل پیرا ہوتے ہوئے ہمت اور جرأت کا مظاہرہ کریں۔ معاشرے میں قیامِ امن، رواداری اور تحمّل و برداشت کے فروغ کے لیے اُسوۂ شبّیریؓ پر عمل پیرا ہوتے ہوئے فرقہ وارانہ ہم آہنگی اوردینی و ملّی یگانگت کو فروغ دیا جائے۔