حاسد وزیر اور بیمار ملا نصیر الدین

September 20, 2020

اعجاز احمد

ایک مرتبہ ملا نصیر الدین سخت بیمار ہو گئے۔ دوست احباب عیادت کو آنے لگے۔ ملا کے گھر سے کچھ نہ کچھ کھا کرجاتے۔ ملا نے اپنے بیٹے کے کان میں کچھ کہا، جب عزیز رشتہ دار عیادت کو آئیں تو ملا کے بیٹے نے کہا، آپ سب خالی ہاتھ آرہے ہو، کوئی سیب انار ، کیلے ہوں تو ملا صحت مند ہوں جائیں گے۔ آپ کو خالی ہاتھ دیکھ کر ملا کو دورہ پڑ سکتا ہے۔ کچھ دوست رشتہ دار پھل وغیرہ لائے۔ فارغ اوقات میں ملا اور اس کے گھر والے مزے مزے سے پھل کھاتے۔

جب بادشاہ کو پتہ چلا کہ ملا سخت بیمار ہیں تو بادشاہ نے فیصلہ کیا کہ وہ اپنے درباریوں، وزراءکے ساتھ عیادت کو جائے گا۔ ملا کو علم تھا کہ ان میں سے ایک وزیر ملا سے حسد کرتا تھا ہر موقع پر بادشاہ کو ملا کے خلاف اکساتا تھا۔ جب بادشاہ عیادت کے لیے آیا تو ملا نے سب سے پہلے اسے اپنے پاس بلایا وہ خوشی خوشی عیادت کر کے گیا۔ اسے فخر محسوس ہوا کہ ملا نے بادشاہ سے پہلے اسے بلایا ہے۔

اس بات کا جب بادشاہ کو پتہ چلا تو وہ ملا سے ناراض ہوا کہ اس نے وزیر کو مجھ پر فوقیت کیوں دی ۔ اس پر ملا نے کہا حضور گستاخی معاف! مجھے پتہ ہے کہ وہ حاسد شخص ہے۔ مجھے ڈر تھا کہ اگر میں مر گیا تو آپ سے پھر بھی جنت میں ملاقات ہو سکتی ہے، مگر چونکہ وہ حاسد ہے، وہ دوزخی ہونے کی وجہ سے مجھ سے کبھی نہیں مل سکتا۔ اس پر بادشاہ اور درباری مسکرانے لگے۔

بادشاہ نے کہا،بے شک تم نے ٹھیک کہا حاسد کا ٹھکانہ دوزخ ہے۔ جب اس وزیرکو پتہ چلا کہ ملا نے اس کی توہین کی ہے تو اس نے یہ بات دل میں رکھ لی، وقت گزرتا گیا ، کسی بات پر بادشاہ ملا سے ناراض ہوگیا۔ اس حاسد وزیر نے بادشاہ کو بھڑکایا کہ وہ ملا کو قتل کروادیں۔اور بادشاہ نے غصے میں ملا کے قتل کے احکامات جاری کر دئیے۔

اس بات کا جب ملا کو پتہ چلا کہ فلاں وزیر نے بادشاہ کوبھڑکایا ہے۔ وہ چھپتا چھپاتا بادشاہ کے دربار میں پہنچ گیا اور سرجھکا کر بولا،”بادشاہ معظم مجھے پتہ چلا ہے کہ آپ نے میرا سر قلم کرنے کا حکم صادر فرمایا تھا؟“

”تم نے ٹھیک سنا ہے ہم نے ہی ایسا حکم دیا ہے۔“ بادشاہ نے کہا۔

اس پر ملا ہاتھ باندھ کر بولا, ”آپ کا حکم سر آنکھوں پر غلام خود ہی حاضر ہو گیا ہے۔ حضور کے حکم کے سامنے میرا سرخم ہے، مگر ایک گزارش ہے۔‘‘

بادشاہ نے پوچھا۔”وہ کیا ؟“

گزارش ہے کہ میں آپ کا نمک کھا کر پلا ہوں، اس لیے میں نہیں چاہتا کہ روز قیامت آپ پر میرے نا حق قتل کا الزام آئے۔ آپ اجازت دیں تو وزیر کو مار ڈالوں۔

پھر آپ مجھے اس کے ساتھ قصاص میں قتل کر دیں۔ اس صورت میں میرا قتل جائز ہوگا۔

بادشاہ ہنس پڑا۔

اگلے دن جب دربار لگا تو بادشاہ نے اس نے وزیر سے کہا،’’ اب بتا تیری کیا رائے ہے؟جو ملا کہہ رہا ہے۔‘‘

وزیر نے کہا،”جہاں پناہ میری رائے یہ ہے خدا کے لیے اپنے پدر بزرگوار کی قبر کے صدقے میں ملا کوآزاد کر دیجئے تاکہ میں بھی اس کی تجویز پر بچ سکوں۔

اس پر بادشاہ اور درباری ملا کی ذہانت کے معترف ہو گئے اور حاسد وزیر نے حسد سے توبہ کر لی۔

دیکھا پیارے بچو! کسی سے حسد نہیں کرناچاہیے ورنہ اپنا نقصان ہوگا۔