تبدیلی کا وعدہ: عوام کیلئے ڈراؤنا خواب؟

September 17, 2020

وطن عزیز میں گو سیاسی نظام قانون و روایات کی باقیات سمیت چلتا دکھائی دے رہا ہے لیکن المیہ یہ ہے کہ عملی طور پر یوں محسوس ہو رہا ہے جیسے عوام اس کے فیض اور خوشگوار اثرات سے مسلسل محروم ہیں۔ واقفانِ حال کا کہنا ہے کہ نئی جمہوری بساط بچھانے کا دعویٰ کرنے والی ’’تبدیلی سرکار‘‘ نے دو سال کے اقتدار کے دوران عوام کو مہنگائی، بے روزگاری اور عدم تحفظ کے جہنم میں جلنے پر مجبور کر دیا ہے۔ سیاسی تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ عوام میں یہ سوچ زور پکڑ رہی ہے کہ حکومت ملک میں جاری کساد بازاری، مہنگائی اور بے روزگاری کے طوفان سے عوام کی توجہ ہٹانے کے لئے نئے نئے منصوبوں کو لانے کے اعلانات کر رہی ہے اور وہ تو حکومت کی حالیہ سیاسی سرگرمیوں اور احتساب کی لہر کو بھی اسی پالیسی کا شاخسانہ قرار دے رہے ہیں۔

جب موجودہ حکمران اپوزیشن میں تھے تو مہنگائی اور بے روزگاری کے حوالےسے جارحانہ تنقید کرتے نہیں تھکتے تھے اور دعووں کے ساتھ ساتھ وعدوں کے ذریعے عوام کو باور کراتے تھے کہ ان کے پاس ایسا فارمولا اور پلان ہے کہ وہ سو دن کے اندر اندر منہ زور مہنگائی اور بیروزگاری کے علاوہ لاء اینڈ آرڈر کی مخدوش صورتحال پر قابو پانے میں کامیاب ہو جائیں گے۔ اس سلسلہ میں وہ ماہرین کی ٹیم کا بھی واشگاف انداز میں تذکرہ کرتے تھے کہ وہ ہر شعبہ میں مہارت اور تجربہ رکھنے والوں کو اس قافلے میں شامل کر کے اپنا ’’ہوم ورک‘‘ مکمل کر چکے ہیں۔ ’’کپتان‘‘ کی طرف سے دکھائے جانے والے تبدیلی کے خوابوں نے عوام کو توقعات کے گھوڑوں پر بٹھا دیا تھا لیکن اب تک کے حکومتی اقدامات سے تو ایسے لگتا ہے کہ عوام کے لئے تاریکی کی رات اور گہری اور لمبی ہوتی جا رہی ہے۔

عوام کیلئے تبدیلی کا یہ وعدہ ڈرائونا خواب ثابت ہوا، عوام کی توقعات کے برعکس حکومت نے اُن کے مسائل اور مصائب میں اضافہ کر دیا ہے جبکہ آسمان کو چھوتی ہوئی گرانی کی صورتحال نے تو ان کے اوسان خطا کر دیئے ہیں۔ وفاقی دارالحکومت کے سیاسی حلقوں میں غیر منتخب مشیروں کے کئی ’’کارناموں‘‘ کے بارے میں خبریں گردش کر رہی ہیں۔ وزارت قانون میں ہونے والی حالیہ تعیناتیوں کے حوالہ سے بھی کئی کہانیاں سننے میں آ رہی ہیں۔ مشیر داخلہ کا عہدہ رکھنے والے ’’احتساب اکبر‘‘ تو من پسند افسران کے کمانڈر بنے ہوئے ہیں۔ پرائم منسٹر سیکرٹریٹ سے لے کر وزارتِ داخلہ تک کے بیشتر معاملات کے علاوہ احتساب کیسز میں اُن کی مشاورت اور حتمی رائے کو اعلیٰ درجہ حاصل ہے۔

یہ بھی سننے میں آیا ہے کہ بعض وفاقی وزراء بھی ان کے اختیارات سے اتنے مرعوب ہیں کہ وہ نجی محفلوں میں ان کے کئی ’’کارناموں‘‘ پر تبصرہ کرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔ وزارت خارجہ میں ہونے والے اعلیٰ سطح کے تبادلوں کے بارے میں بھی وزارتِ خارجہ کے اعلیٰ افسران نالاں ہیں کہ مجوزہ پالیسی سے ہٹ کر میرٹ کو نظرانداز کیا گیا ہے۔ اس سلسلہ میں دو افسران نے عدالت ِ عالیہ میں ان احکامات کو چیلنج بھی کر دیا ہے۔ حکومتی پارٹی کے اندر بھی وزراء کے آپس میں اختلافات کے کئی قصے زبان زدعام ہیں جبکہ ایک وفاقی وزیر اور صوبائی وزیر تو کھلم کھلا ایک دوسرے کی مخالفت کرتے نظر آتے ہیں۔

یہ بات بھی شدت سے محسوس کی جا رہی ہے کہ ملک کی داخلی صورتحال سے کہیں زیادہ بڑے چیلنجز خارجی محاذ پر ابھر کر سامنے آ رہے ہیں کیونکہ خطے کی صورتحال کے حوالہ سے چین کے لئے پاکستان کا سیاسی استحکام بہت اہم ہے۔ صوبائی دارالحکومت بھی سیاسی سرگرمیوں کا مرکز بنا ہوا ہے۔ احتساب کی آڑ میں حکومت اپوزیشن لیڈر میاں شہباز شریف اور ان کے خاندان کو ’’ٹارگٹ‘‘کئے ہوئے ہے۔

منی لانڈرنگ کیس میں گزشتہ سماعت کے دوران میاں شہباز شریف اپنی بیٹی کے ہمراہ عدالت میں پیش ہوئے۔ عدالت نے اُن کی اہلیہ کو بھی طلب کر رکھا تھا۔ یوں شریف خاندان کی خواتین کو بھی احتساب کے مقدمات میں طلب کر کے حکومت یہ باور کرا رہی ہے کہ وہ قانون کی نظر میں سب کو برابر سمجھتی ہے جبکہ اپوزیشن رہنمائوں کا کہنا ہے کہ حکومت شریف خاندان کو مزید انتقام کا نشانہ بنا رہی ہے۔ مسلم لیگی رہنما رانا ثناء اللہ نے واضح طور پر یہ وضاحت کی ہے کہ حکومت نے مریم نواز کی بڑھتی ہوئی مقبولیت سے خوفزدہ ہو کر نیب دفتر کے سامنے ہونے والے واقعہ کے مقدمہ میں دانستہ طور پر دہشت گردی کی دفعہ کا اضافہ کر کے یہ ثابت کیا ہے کہ وہ مسلم لیگ (ن) کے کارکنوں اور رہنمائوں کی استقامت اور ثابت قدمی سے گھبرا کر اوچھے ہتھکنڈوں پر اتر آئی ہے۔

سی سی پی او لاہور کی تعیناتی بھی حکومتی انتقام کے سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ میاں حمزہ شہباز شریف ایک عرصہ سے اولوالعزمی اور بہادری سے جیل کاٹ رہے ہیں بلکہ وہ کورونا کا شکار ہونے کے باوجود حوصلے اور ہمت کا منظر پیش کر رہے ہیں جس سے مسلم لیگ (ن) کے نوجوانوں میں ان کی مقبولیت کا گراف دن بدن بڑھتا ہوا محسوس ہو رہا ہے۔ صوبائی دارالحکومت میں موٹر وے پر بچوں کی موجودگی میں خاتون کے ساتھ ہونے والے وحشت و بربریت کے المناک سانحے نے معاشرے کے ہر طبقے کو نہ صرف عدم تحفظ کی فضا میں مبتلا کر دیا ہے بلکہ سراسیمگی کا شکار کر دیا ہے۔ گو اس واقعہ میں ملوث ملزمان کو ٹریس بھی کر لیا گیا ہے لیکن ابھی تک حکومت کی طرف سے کئے جانے والے اعلیٰ سطحی تبادلوں کو سوالیہ نشان کی صورت میں دیکھا جا رہا ہے۔

اپوزیشن کی طرف سے ملزمان کے سراغ لگانے کے سلسلہ میں میاں شہباز شریف کو کریڈٹ دیا جا رہا ہے کہ ان کے دور میں ’’جدید فرانزک لیبارٹری‘‘ کو بین الاقوامی سٹینڈرڈ پر استوار کیا گیا تھا اور وحشی مجرموں کے سراغ کی وجہ بھی وہ ڈی این اے ڈیٹا بنک بنا جو ان کے دور میں بنایا گیا تھا۔ وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار بھی اس واقعہ کے سلسلہ میں انتظامی طور پر ضرور متحرک رہے اور انہوں نے سیالکوٹ کی طرف جانے والی مذکورہ موٹروے کو پنجاب پولیس کے کنٹرول اور نگرانی میں دینے کے احکامات بھی صادر کئے لیکن یہ بات بھی حکومت پنجاب اور حکمران جماعت کے لئے دردسر بنی ہوئی ہے کہ جب مذکورہ موٹر وے کے بارے میں تین ماہ قبل ایک ڈویژن کے اعلیٰ پولیس افسر کی طرف سے نشاندہی کی گئی تھی اور آئی جی کی طرف سے وفاقی حکومت کو بھی لکھا گیا تھا تو اس سلسلہ میں حکمران جماعت کے متعلقہ وفاقی وزیر اور صوبائی حکومت نے عملی اقدامات کرنے کے سلسلہ میں کیوں غفلت سے کام لیا تھا؟