بچوں کے ساتھ زیادتی ویڈیو بنا کر بلیک میل کیا جاتا ہے

September 20, 2020

تعلقہ ڈگری جو دو شہروں ڈگری اور ٹنڈو جان محمد اور چھ دیہی یونین کونسلوں پر مشتمل ہے، ایک پرامن علاقہ کہلاتا ہے۔ مگر اب کچھ عرصہ سے یہ جرائم کی آماج گاہ بنا ہوا ہے ۔ہر ہفتے نمائندہ جنگ کے پاس شہر میں ہونے والے جرائم کی چار سے پانچ اسٹوریز اکٹھا ہوجاتی ہیں جو ’’جرم و سزا ‘‘ کے صفحے پر شائع ہوتی ہیں۔ لیکن ان کے شائع ہونے کے بعد دوسرے جرائم کی اسٹوریز شائع ہونے کی منتظر ہوتی ہیں۔ کون سا جرم یا کون سی برائی ایسی ہو گی جو اس علاقے میں نہ پائی جاتی ہو۔ معاشرے میں پھیلی برائیاں اور بڑھتے ہوئے جرائم کی وجہ سے شہری بہت پریشان ہیں۔ حال ہی میں ڈگری تعلقہ کے شہروں میں معصوم بچوں سے زیادتی کے بعد ان کی ویڈیو بناکر بیلک میل کرنے والا گروہ منظر عام پر آیا ہے۔

پولیس نے گروہ کے ایک شخص کو گرفتار کرکے دیگر افراد کی تلاش شروع کردی ہے۔ جنگ کو موصول ہونے والی اطلاعات کے مطابق ڈگری تعلقہ کے شہر ٹنڈوجان محمد کے وارڈ نمبر 5 میر خدا بخش روڈ نزد مندر چوک کے رہائشی تیسری جماعت کے ایک طالب علم کو دو کارندوں نےزیادتی کا نشانہ بنا کر نہ صرف اس کی ویڈیو بنائی بلکہ اسے بلیک میل اورہراساں کیا جاتا رہا۔ ،خوف و ہراس کا شکار بچے نے مذکورہ ملزمان کے بارے میں اپنے والدین کو آگاہ کیا ۔اس کے والد کی مدعیت میں دو ملزمان کے خلاف پولیس اسٹیشن ٹنڈو جان محمد میں واقعہ کی شکایتی درخواست جمع کروائی گئی .جس کے بعد پولیس نے ایک ملزم کو فوری گرفتار کرکے لاک اپ کردیا۔

جبکہ دوسرے اور مرکزی ملزم کو سیاسی سرپرستی حاصل ہونے کے باعث تاحال گرفتار نہیں کیا جاسکاہے۔ بتایا جاتا ہے کہ ملزمان کا تعلق بلیک میلروں کے گروہ سے ہے جو گھناؤنی حرکتیں کرکے اپنے شکار کو بعدازاں بلیک میل کرتے ہیں۔ شہریوں کے مطابق مذکورہ گروہ کے ارکان کافی عرصے سے علاقے میں مصروف کار ہیں لیکن بااثر شخصیات کی سرپرستی کی وجہ سے پولیس کی دسترس سے آزاد رہتے ہیں۔ سیاسی و سماجی تنظیموں نےمذکورہ گروہ کی مکمل بیخ کنی کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ بچوں کے ساتھ زیادتی اور بلیک میلنگ میں ملوث ملزمان اور ان کے سہولت کاروں کو کیفرکردار تک پہنچایا جائے۔

ٹنڈوجان محمد کے قریب ایک اور افسوس ناک واقعہ رونما ہوا جس میں نوجوان کی مونچھیں، بھنویں اور آدھے سر کے بال مونڈھ دیئے گئے ۔مذکورہ واقعے کے خلاف متاثرہ نوجوان کے والد اور برادری کے متعدد افراد نے ڈگری میں پریس کلب کے باہر احتجاجی مظاہرہ کیا ہے۔مظاہرین ن کا کنا تھا کہ چانڈیو برادری کےبعض افراد روشن خاصخیلی کو اپنے ساتھ گائوں لے گئے تھے،جہاں اسے تشدد کا نشانہ بنایا گیا،کلہاڑیوں کے وار سےزخمی کرنے کے بعد اس کی مونچھیں،بھنویں اور آدھے سر کے بال کاٹ دیئے گئے۔مظاہرین کے مطابق پولیس نے ملزمان کے خلاف مقدمہ تو درج کرلیا مگر مرکزی ملزم کو گرفتار کرنے میں اب تک ناکام رہی ہے جب کہ احتجاج کرنے کی پاداش میں ایک شخص امین خاصخیلی کے خلاف جھوٹا مقدمہ درج کرلیا گیا ہے۔

بجنگ کو موصولہ اطلاعات کے مطابق پولیس نے تشدد کانشانہ بننے والے نوجوان کا علاج کرانے کے بجائے اس کے خلاف چوری کی ایف آئی آر درج کرکے حوالات میں بند کردیاہے۔بتایا جاتا ہے کہ اس واقعے سے کچھ عرصہ قبل بھی مذکورہ نوجوان سے پانچ ہزار روپے چھین لئے گئے تھے،جس کی این سی ٹنڈوجان محمد تھانے میں درج ہے۔

ڈگری کے علاقے اللہ آباد کالونی کی رہائشی خواتین نے نجی مائیکرو فنانس بنکوں کے ریکوری افسران کے روئیے پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ نجی بنکوں سےہم نے قرض لیالیکن کورونا وائرس کی وجہ سے لاک ڈاؤن شروع ہوگیاجس کی وجہ سے سارے کاروبار ٹھپ ہوگئے۔ مالی حالات اور معاشی پریشانیوں کے باعث قسطوں کی ادائیگی میں تاخیر پر نجی مائیکرو فنانس بنکوں کےاہل کار گھروں پر آکر خواتین سے اہانت آمیزسلوک کررہے ہیں جس کا نوٹس لیا جانا چاہئے۔

ماڈل کرمنل ٹرائل کورٹ نے قتل کا الزام ثابت ہونے پر تین ملزمان کو عمر قید اور دو دو لاکھ روپے جرمانے کی سزا سنائی ہے جب کہ جبکہ دو افرادکو عدم ثبوت پر بری کرنے کا حکم دیا ہے۔ ملزمان پر ڈگری سب ڈویژن کے کوٹ غلام محمد تھانے کی حدود میں رشتہ کے تنازعے پر ایک شخص کو قتل اور دو خواتین کو زخمی کرنے کا الزام تھا۔ جرمانہ ادا نہ کرنے کی صورت میں مجرمان کو مزید چھ چھ ماہ قید بھگتنا ہو گی۔ بتایا جاتا ہیے کہ ایک سال قبل کوٹ غلام محمد تھانے کی حدود میں رشتہ کے تنازعے پر جھگڑے کے دوران ایک شخص غلام مصطفی کھوسو کا گلا کاٹ کر قتل کر دیا تھا۔ جبکہ دو خواتین کو زخمی کر دیا تھا۔

جس کا مقدمہ مقتول کے ماموں حیات کھوسو کی مدعیت میں سات افراد کے خلاف درج کیا گیا تھا۔ دیگر جرائم کے ساتھ شہر کے مختلف علاقوں میں خود کشیوں کا سلسلہ بھی جاری ہے۔چند روز قبل میرواہ گورچانی تھانے کی حدود میں واقع بابو گوٹھ کے رہائشی کیلاش میگھواڑ نے درخت میں رسی کا پھندا ڈال کر خودکشی کرلی۔ متوفی کافی عرصے سے معاشی مسائل کا شکار تھا۔