ڈیمینشیا...ضعیف العمر افراد میں تیزی سے پھیلتا مرض

September 24, 2020

دنیا بھر میں ڈیمینشیا بڑی عمر کے افراد میں تیزی سے پھیلتا ہو اطبی مسئلہ ہے۔ اندازہ ہے کہ اس وقت دنیا میں 5کروڑ افراد اس مرض میں مبتلا ہیں اور خدشہ ہے کہ آئندہ تین دہائیوں میں ایسے افراد کی تعداد تین گنا بڑھ جائے گی۔ عمر میں اضافے کے ساتھ باقاعدہ ورزش، صحت بخش خوراک، بلڈ پریشر معمول کے مطابق برقرار رکھنا، کولیسٹرول اور بلڈ شوگر کو صحت مند سطح پر برقرار رکھنا، ایسے عوامل ہیں جو ڈیمینشیا کی روک تھام میں معاون ثابت ہوتے ہیں۔

ڈیمینشیا، بڑھاپے میں انسانی دماغ اور اعصاب کی کارکردگی کو متاثر کرنے والی ایک ایسی بیماری ہے، جو وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ شدید تر ہوتی جاتی ہے۔ یادداشت کا چلے جانا ڈیمینشیا کا سب سے عام پہلو ہے، جس میں بالخصوص حال ہی میں پیش آنے والے واقعات کو یاد کرنے میں مشکل پیش آتی ہے۔ اس کی دیگر علامات میں انسان کے رویوں، موڈ اور شخصیت میں تبدیلی شامل ہے۔ متاثرہ شخص جانی پہچانی جگہوں پر کھو جاتا ہے اور گفتگو کے دوران دُرست الفاظ بھول جاتا ہے۔ کچھ افراد میں بات اس حد تک پہنچ جاتی ہے کہ اُن سے یہ فیصلہ تک نہیں ہوپاتا کہ انھیں کچھ کھانا پینا بھی ہے یا نہیں۔

ماہرین کے مطابق اس میں کوئی شبہ نہیں کہ بڑھتی عمر ڈیمینشیا کا باعث بن سکتی ہے اور یوں عمر میں اضافہ یادداشت کے لیے خطرے کا باعث ہو سکتا ہے۔ تحقیق اور ترقی کے نتیجے میں دنیا میں لوگوں کی عمروں میں اضافہ ہو رہا ہے۔ اس لیے صحت کے ادارے اور تحقیق کار ڈیمینشیا کی روک تھام، خاتمے اور علاج معالجے کے طریقوں پر غور کر رہے ہیں۔ ان کے سامنے الزائمر کا مرض بھی ہےجو ڈیمینشیا کی انتہائی عام قسموں میں سے ایک ہے۔

ڈاکٹر ویبھور کرشنا، ریاست اوہائیو کے ویکسنر میڈیکل سینٹر کے نیورو سرجن ہیں۔ انھوںنے ڈیمینشیا کے علاج کے لیے ایک نئے طریقے کو آزمانے کا آغاز کیا، جو الزائمر کے ابتدائی مراحل میں مریض کا علاج کر سکتا ہے۔ ڈیمینشیا کے علاج کے لیے اس نئے طریقہ کار میں ’ساؤنڈ ویوز‘ کا استعمال کیا جاتا ہے۔ اس میں ’الٹرا ساؤنڈ ویوز‘ کی مدد سے ہدف بناتے ہوئے ’بلڈ برین بیرئیر‘ کو کھولا جاتا ہے۔ ’بلڈ برین بیرئیر‘ ایک حفاظتی تہہ ہے، جو دماغ کو انفیکشنز سے محفوظ رکھتی ہے۔

تاہم، ڈاکٹر کرشنا کا کہنا ہے کہ اس بیریئر کی وجہ سے اعصاب کو متاثر کرنے والے الزائمر جیسے امراض کا علاج کرنا بھی مشکل ہو جاتا ہے۔ ڈاکٹر کرشنا کا کہنا ہے کہ ’بلڈ برین بیریئر‘ کو کھولنے سے ہم دماغ کے زیادہ ٹشوز تک رسائی حاصل کرسکتے ہیں اور یوں علاج کو زیادہ مؤثر بنایا جاسکتا ہے۔

اس ٹرائل میں ایم آر آئی کی مدد سے دماغ کے ان حصوں پر توجہ مرکوز کی گئی جو یادداشت اور پہچان کا کام کرتے ہیں۔ ڈاکٹر کرشنا کے مطابق، یہی وہ حصے ہیں جہاں الزائمر کے مریضوں میں زہریلی پروٹین جمع ہو جاتی ہیں، جنھیں ’ایمے لائیڈ‘ کا نام دیا جاتا ہے۔ ’ایمے لائیڈ‘ کی بڑی مقدار اور الزائمر کے عارضے میں یادداشت کھونے کا آپس میں گہرا تعلق ہے۔ محققین کا خیال ہےکہ یہ ممکن ہے کہ اس طریقہ کار کی مدد سے مریض کا اپنا خود دفاعی نظام اس زہریلی پروٹین، یعنی ایمے لائیڈ کی کچھ مقدار کو خود سے ختم کر سکے۔ اس طریقہ کار میں الٹرا ساؤنڈ لہروں کی مدد سے دماغ کے اس حصے کو سُکیڑا اور پھیلایا جاتا ہے۔ ڈاکٹر کرشنا کا کہنا ہے کہ اس عمل سے ’بلڈ برین بیرئیر‘ کو میکانکی انداز میں کھولنے میں مدد ملتی ہے اور اس دوران مریض بدستور ہوش میں رہتا ہے۔

بلڈ برین بیرئیر کھولنے سے یہ بھی ممکن ہے کہ ایک روز ڈاکٹر مطلوبہ جگہ پر براہ راست دوا پہنچا سکیں۔

ورزش الزائمر سے بچاؤ کا ذریعہ

الزائمر، ڈیمینشیا کی سب سے عام قسم ہے۔ ماہرین کے نزدیک ورزش کرنے سے دماغ کے خلیے متحرک ہوتے اور زیادہ تیزی سے کام کرتے ہیں، یہ یادداشت سے متعلق بیماری الزائمر کو ختم کرنے میں مددگار ثابت ہو سکتے ہیں۔ ایک نئی تحقیق بتاتی ہے کہ ورزش کرنے سے دماغ کی استعداد ِکار کو بہتر بنایا جا سکتا ہے۔ تحقیق کے مطابق ایسے معمر افراد جنہوں نے ورزش کو اپنی روزمرہ زندگی کا معمول بنایا، ان میں مثبت تبدیلیاں نوٹ کی گئیں۔ ایسے معمر افراد جنھیں یادداشت سے متعلق عارضوں کی شکایت تھی اور انہوں نے ورزش کو اپنی زندگی کا معمول بنایا، ان میں بھی دماغی طور پر بہتری کے آثار دیکھے گئے۔

ماہرین کہتے ہیں کہ ان بیماریوں کے معمر افراد پر بہت منفی اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔ اس لیے ضروری ہے کہ معمر افراد اپنی زندگیوں میں چند چھوٹی تبدیلیاں لا کر مثبت سمت میں قدم اُٹھائیں۔

آسٹریلیا کی جیمز کک یونیورسٹی کے ماہرین کی جانب سے کی جانے والی ایک تحقیق میں 83معمر افراد کو شامل کیا گیا۔ تحقیق میں حصہ لینے والے معمر افراد کی عمر 60 سے 88 برس تھی۔ ان معمر افراد کو دو گروپوں میں بانٹا گیا۔ ایک گروپ کو روزانہ 30 منٹ ورزش کرنے کا کہا گیا جبکہ دوسرے گروپ کے معمر افراد نے ورزش نہیں کی۔ پروگرام کے آخر میں نوٹ کیا گیا کہ جن معمر افراد نے ورزش کو اپنا معمول بنایا ان کی ذہنی استعداد ان کے دیگر ساتھیوں کی نسبت کہیں بہتر تھی۔