مستقبل کے روزگار کے حوالے سے 5 باتیں

September 27, 2020

افرادی قوت کی مارکیٹ تیزی سے بدل رہی ہے، اب ہر گزرتے دن کے ساتھ نیا ڈیٹا (تقریباً ریئل ٹائم) اور نئے پیمانے ہمیں مستقبل کی افرادی قوت اور مستقبل کے روزگار سے متعلق بہتر سے بہتر طور پر سمجھنے میں مدد دے رہے ہیں۔ عالمی معیشت میں پیدا ہونے والی کئی ملازمتیں جو مختلف پیشوں اور مہارتوں تک پھیلی ہوئی ہیں، ہر تجربے اور تعلیم کے حامل افراد کو اُبھرتی ہوئی ملازمتوں اور نئی معیشت سے فائدہ اُٹھانے کے مواقع فراہم کرتی ہیں۔

روزگار کے پیدا ہونے والے نئے مواقع اور انھیں انجام دینے کے لیے مطلوب ہنروں کی نشاندہی کے ذریعے اس بات کا اندازہ ہورہا ہے کہ تبدیلی کی رفتار کا ساتھ دینے کے لیے موجودہ افرادی قوت کو کون سی نئی تربیت اور نئے ہنروں کی ضرورت ہے۔

تاہم ماہرین کا ماننا ہے کہ نئی معیشت اپنے ساتھ جو مواقع لارہی ہے، ان سے فائدہ اٹھانے کے لیے کئی ہنری اور صنفی خلاہیں، جنھیں پُر کرنا ضروری ہے اور اگر ان پر کام نہیں کیاگیا تو مستقبل میں یہ خلا بڑھتا چلا جائے گا۔

ٹیکنالوجی کا غلبہ

مستقبل میں روزگار کے لیے پیدا ہونے والا ہر نیا موقع ’ہارڈ ٹیکنیکل‘ ہنر کا متقاضی نہیں ہوگا۔ تاہم ماہرین کا خیال ہے کہ انھیں ’سوفٹ ٹیکنیکل‘ ہنر جیسے کہ ڈیجیٹل لٹریسی، ویب ڈیویلپمنٹ اور گرافک ڈیزائننگ کی یقینی ضرورت ہوگی۔ ’مستقبل کے روزگار‘ کے نام سے شائع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق، ’کلاؤڈ‘، ’انجینئرنگ‘ اور ’ڈیٹا کلسٹرز‘، تیزی سے فروغ پانے والے مستقبل کے شعبہ جات ہیں، جن کے لیے آرٹیفیشل انٹیلی جنس، روبوٹکس اور کلاؤڈ کمپیوٹنگ کی ضرورت ہوگی۔

آرٹیفیشل انٹیلی جنس کی ٹیکنالوجی مستقبل میں اس قدر سرایت کرجائے گی کہ سیلز اور مارکیٹنگ جیسے شعبہ جات میں بھی اس کی سمجھ بوجھ لازمی ہوجائے گی۔ یہ اور اس طرح کی دیگر ٹیکنالوجیز معیشت کے ہر میدان میں انتہائی مطلوب ہوںگی۔ مستقبل کی افرادی قوت کے لیے بلاک چین، کلاؤڈ کمپیوٹنگ، اینالیٹکل رِیزننگ اور آرٹیفیشل انٹیلی جنس کی سمجھ بوجھ لازمی قرار دے دی جائے گی۔

افرادی قوت کی اہمیت

ہرچندکہ ٹیکنالوجی کے میدان میں روزگار کے نئے مواقع پیدا ہورہے ہیں، ساتھ ہی مشینیں کئی ایسے کام کررہی ہیں جو پہلے انسان کیا کرتا تھا، تاہم اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ انسان کا کردار ختم ہوکر رہ جائے گا۔ سیلز، کانٹینٹ پروڈکشن اور ہیومن ریسورس مستقبل میں تیزی سے فروغ پانے والے شعبہ جات میں شامل ہوں گے۔

یہ ایسے شعبہ جات ہیں، جن کا ٹیکنالوجی کے فروغ میں تو اہم کردار ہوگا مگر یہ سارے کام انسان سے بہتر کوئی نہیں کرپائے گا۔ تحقیق کے مطابق ہیومن ریسورس اسپیشلسٹ، کسٹمر سکسیس اسپیشلسٹ اور سوشل میڈیا اسسٹنٹس جیسی ملازمتوں کی مانگ برقراررہے گی۔ یہ وہ ملازمتیں ہیں، جنہیں انجام دینے والوں کو متنوع صلاحیتوں خصوصاً ’سوفٹ اسکلز‘ کا ماہر ہونا ہوگا۔

آٹومیشن کا رجحان جس قدر فروغ پائے گا، اداروں کو ’سوفٹ اسکلز‘ کے حامل ماہرین کی ضرورت بھی پہلے سے زیادہ محسوس ہوگی۔ تخلیقیت، شراکت داری اور ترغیب دینے کی انسانی صلاحیت کا مشینی متبادل نہیں لایا جاسکتا، اس کا مطلب یہ ہوا کہ اگر آپ میں یہ صلاحیتیں موجود ہیں تو مستقبل میں اپنے ادارے کے لیے آپ زیادہ اہم ہوجائیںگے۔

صنفی تفریق کا خاتمہ

مختلف تحقیقی مطالعوں سے معلوم ہوتا ہے کہ جس طرح آٹومیشن تمام شعبہ جات میں تیزی سے فروغ پارہی ہے، افرادی قوت کے میدان میںمردوں کے مقابلے میں خواتین کی شرح اور بھی کم ہورہی ہے۔ آٹومیشن کے کئی شعبہ جات میں خواتین کی نمائندگی صرف 12فیصد تک محدود ہوکر رہ گئی ہے جبکہ کلاؤڈ، انجینئرنگ اور ڈیٹا کے میدان میں خواتین کا حصہ اوسطاً 30فیصد تک محدود ہے۔ معاشروں اور معیشتوں پر طویل مدتی پائیدار اثرات کے لیے ضروری ہےکہ ٹیکنالوجی کے میدان میں مردوں اور خواتین کے درمیان فرق کو کم اور بالآخر بالکل ختم کیا جائے۔

دستیاب انسانی وسائل

مستقبل کی جاب مارکیٹمیں جس طرح کی افرادی قوت کی ضرورت ہوگی، اسے پورا کرنے کے لیے ہمیں تخلیقی انداز میں سوچنا ہوگا تاکہ جو خلا اس وقت موجود ہے وہ مستقبل میں بڑھ نہ جائے۔ اس سلسلے میں پہلے سے موجود انسانی وسائل کو تربیت فراہم کرتے ہوئے اس خلا کو پُر کرنے کی جانب توجہ مرکوز کی جائے۔

تحقیق سے معلوم ہو اہے کہ پہلے سے موجود انسانی وسائل کو تربیت کی فراہمی اور ’اَپ۔اِسکلنگ‘ کے ذریعے یورپ میں آرٹیفیشل انٹیلی جنس کے شعبہ میں کام کرنے والے افراد کی تعداد کو دُگنا کیا جاسکتا ہے۔ اسی طرح ٹیکنالوجی کے شعبہ میں خواتین کے کردار کو بڑھانے کے لیے انھیں جینیٹکِ انجینئرنگ، ڈیٹا سائنس اور نینو ٹیکنالوجی کے ذیلی شعبہ جات میں بہتر نمائندگی کی کوششیں کی جاسکتی ہیں۔ یہ وہ ذیلی شعبہ جات ہیں، جن میں خواتین پہلے ہی اپنی صلاحیتیں تسلیم کرواچکی ہیں۔

نیٹ ورکنگ

یہ ایک حقیقت ہے کہ اپنی پیشہ ورانہ زندگی میں آپ کا دیگر لوگوںکو جاننا اور ان سے روابط قائم کرنا کافی اہم ہوتا ہے۔ اس لیے ہمیں جہاں ’اِسکل گیپ‘ اور ’جینڈر گیپ‘ کو ختم کرنا ہوگا، وہاں ہمیں ’نیٹ ورک گیپ‘ کو بھی ختم کرنا ضروری ہوگا۔ ’نیٹ ورک گیپ‘ ختم کرنے کی صورت میںملازمت پیشہ افراد کو نیٹ ورکنگ نہ رکھنے والے افراد پر ایک طرح سے فوقیت حاصل ہوجاتی ہے۔

ورلڈ اکنامک فورم کی تحقیق کے مطابق، زیادہ آمدنی والے علاقے میں رہنے، بہترین اسکول میں تعلیم حاصل کرنے اور اعلیٰ پائے کی کمپنی میںکام کرنے والے افراد دیگر کے مقابلے میں 12گُنا زیادہ آسانی سے نئے مواقع تک رسائی حاصل کرنے میں کامیاب رہتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ایک ہی اور مساوی ہنر رکھنے والے دو افراد، جو دو مختلف علاقوں میں پیدا ہوئے ہیں، انھیں نئے مواقع کے حصول میں دو مختلف دنیاؤں کا سامنا ہوتا ہے۔