مجرم سرگرم، پولیس بے بس

October 04, 2020

چند برسوں قبل یہ سلوگن!! ’’پولیس کا ہے فرض مددآپ کی‘‘۔ کانوں کو بھاتا تھا،لیکن پولیس میں موجود چندکالی بھڑیں اس کے بر عکس عمل پیرا ہیں،جو پوری پولیس کی بد نامی کا سبب ہیں۔ یہ کسی المیے سے کم نہیں ہے۔ یُوں تو ان کے کالے کرتوت کسی سے پوشیدہ نہیں ہیں۔ لیکن اس کی ایک تازہ مثال گزشتہ دنوں اس وقت سامنے آئی جب اسپیشل انویسٹی گیشن (ایس آئی یو) کےانسپکٹر ملک اشرف اعوان نے تاجر کے اغوا کر کے 7 لاکھ تاوان طلب کیا ۔ واقعات کے مطابق فیڈرل بی صنعتی ایریا تھانے کی حدود شفیق موڑ کے قریب اسپیشل انویسٹی گیشن (ایس آئی یو) پولیس کے انسپکٹر ملک اشرف اعوان نے پارٹی کے ہمراہ تاجر الماس کو اس وقت اغوا کرلیا، جب وہ نیو کراچی سے تقریب میں شرکت کے بعد اپنی فیملی کے ساتھ اپنی ویگو گاڑی میں اپنے گھر واقع لکھنو سوسائٹی جا رہے تھے۔

اغوا کار پولیس اہلکاروں نے تاجر کی اہلیہ الماس کو فون کرکے 7 لاکھ روپے تاوان طلب بھی طلب کیا۔ مغوی کی اہلیہ فرزانہ الماس کی جانب سے 15 مددگار فون کرنے پر فیڈرل بی صنعتی ایریا پولیس شفیق موڑ پہنچ گئی، فیڈرل بی صنعتی ایریا تھانے کے ایس ایچ او نے شواہد کی بنیاد پر فوری انسپکٹر اشرف اعوان اور پولیس پارٹی کے خلاف اغوا اور جان سے مارنے کی دھمکی کا مقدمہ نمبر 239/2020درج کر کے انسپکٹر ملک اشرف اعوان کو گرفتار کرلیا اور مغوی تاجر الماس بازیاب کرالیا ۔

واضح رہے کہ گزشتہ دنوں عدالت نے شہری کو اغوا برائے تاوان کے کیس میں سی ٹی ڈی انچار ج عمرخطاب کی گرفتاری کاحکم دے چکی ہے۔

دوسری جانب پولیس نے ہاکس بے روڈ پر پولیس مقابلے میں مبینہ انتہائی خطرناک دہشت گرد کو ہلا ک کر کے شہر میں بڑی دہشت گردی کا منصوبہ ناکام بنا دیا۔ انچارج سی ٹی ڈی مظہر مشوانی نے جنگ کو بتایا کہ سعید عرف لوہا عرف حاجی صاحب عرف تورا بورا انتہائی خطرناک دہشت گرد تھا۔ اُن کا کہنا کہ سی ٹی ڈی نے حساس ادارے کی اطلاع اور مدد سے منگل اور بدھ کی درمیانی شب ماڑی پور ہاکس بے روڈ پر کارروائی کے دوران ایک دہشت گرد ہلاک ہو گیا ،جس کے قبضے سے سے ایک پستول،2عدد تیار شدہ بم،40گولیاں بر آمد کر لیں،انچارج سی ٹی ڈی کا کہنا ہے کہ ملزم سعید لوہا کی ٹیم ڈرون بم حملوں کی تیاری کر رہے تھے۔

انچارج سی ٹی ڈی کے مطابق ہلاک دہشت گرد کو افغانستان سے کراچی بھیجا گیا تھا اور دہشت گرد کو گروہ تشکیل دے کر دہشت گردی کی کارروائیوں کا ٹاسک دیا گیا تھا۔مظہر مشوانی نے مزید بتایا کہ دہشت گرد 2014میں القاعدہ برصغیر میں شامل ہوا تھا۔ ہلاک دہشت گرد نے کراچی میں رینجرز چیک پوسٹ ، پولیس تھانوں پر کریکر حملے کیے، اور پولیس ٹارگٹ کلنگ ، فرقہ وارانہ ٹارگٹ کلنگ میں ملوث رہا ہے۔ دہشت گردسعید عرف لوہا نے مبینہ ٹاون پولیس اسٹیشن پر بم حملہ بھی کیا۔

ناظم آباد نمبر7پل کے نیچے رینجرز چیک پوسٹ پر بوتل بم سے حملے کے علاوہ کورنگی کراسنگ رینجرز چیک پوسٹ پر دستی بم حملہ اور گجر نالہ کے قریب رینجرز چیک پوسٹ پر بم حملہ کیا، جب کہ لیاقت آبادصرافہ بازار پل پر پولیس اہلکار زاہد حسین رضوی کو شہید کیا تھا،جب کہ عوامی کالونی کورنگی میں 3اہل تشیع افراد کا قتل بھی اسی نے کیا تھا ۔ علاوہ ازیں 2016 میں گڈاپ میں سی ٹی ڈی سےمقابلے کے دوران ہلاک ہو نے والے دہشت گرد کے2اہم ساتھی ہلاک ہوگئے تھے، وہ اپنے ساتھی اسلام الدین ، شکیل برمی اور دیگر کے ساتھ افغانستان فرار ہو گیا ۔

موجودہ ایڈیشنل آئی جی کراچی غلام نبی میمن کی شہر کو جرائم پاک کرنے کی کاو شوں کو بھی عوام میں قدر کی نگاہ سے دیکھی جارہی ہیں ۔ وہ باقاعدگی سے اسٹریٹ کرائمز اور شہر میں منشیات کی روک تھام کے حوالے سے اعلی سطحی اجلاس کرتے ہیں ۔گزشتہ دنوں بھی منعقدہ اجلاس میں شہر میں منشیات کی روک تھام اور اسٹریٹ کرائمزپر قابو پانے کے لیے کیے جانے والے اقدامات اور آئندہ کی حکمت عملی کے حوالے ہدات بھی دیں۔

اجلاس میں کہا گیا کہ شہرمیں موٹرسائیکل،گاڑیوں کی چوری اور اسٹریٹ کرائمز کی بیش تر وارداتوں میں منشیات کے عادی افراد ملوث پائے گئے ہیں۔ منشیات کے عادی افراد منشیات خریدنے کے لیے جرائم کا سہارا لیتے ہیں۔ اجلاس میں منشیات کے عادی افراد کی بحالی پر کیے جانے والے سنجیدہ اقدامات کا جائزہ بھی لیا گیا۔ اس کے برعکس شہر میں اسٹریٹ کرائمز ، ٹارگیٹ کلنگ اور بھتہ خوری کی وارداتوں میں خاطر خواہ کمی نظر نہیں آرہی ہے ۔

شہر میں بھتہ خور ایک بار پھر سر گر م ہوگئےہیں۔ منگل کو بھی لیاقت آباد میں ایک بلڈرکو کو مبینہ طور پر 30 لاکھ روپے بھتے کی پرچی موصول ہو گئی۔بھتے کی پرچی پھینکنے والے کی سی سی ٹی وی ویڈیو بھی منظر عام پر آگئی ہے ۔بھتہ کی پرچی بلڈرز کے دفتر میں پھینکنے والا شخص موٹر سائیکل پر سوار تھا۔پرچی پر تحریر تھا کہ پیسوں کا بندوبست نہ کیا تو کوئی بھی بھائی مشکل میں آسکتا ہے۔کسی بھائی کے مشکل میں آنے کے بعد بھتے کی رقم 50 لاکھ روپے ہوجائے گی۔ہمیں تمھاری رہائش سے لے کر تمام معاملات کا پتہ ہے، کسی کو خبر دی تو مشکل ہوجائے گی، بھتے کی وصولی کے لیے 48 گھنٹوں میں ہم خود رابطہ کریں گے، پولیس کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ سی سی ٹی وی فوٹیج کی مددسے ملزم کی تلاش شروع کردی ہے ۔

یہاں یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ ایس ایس پی ملیرعرفان بہادرکی خصوصی ہدایت پر پولیس نےکراچی سے قیمتی موبائل فونز چھین کر بیرون ممالک اسمگل کرنے والا گروہ کوگرفتار کر لیا۔ پولیس نے خفیہ اطلاع پر گلشن حدید کے قریب چھاپہ مار کر 5 ملزمان جہانگیر بدر، حسن عبداللہ، محمد عثمان، شاہ رخ قریشی اور عابد علی کو گرفتار کر کے ان کی نشاندہی پر شہر کے مختلف علاقوں سے 70 سے زائد قیمتی اسمارٹ فونز برآمد کر کے ان کے قبضے سے آئی ایم ای آئی نمبر تبدیل کرنے والی ڈیوائس سمیت لیپ ٹاپ، سائٹ ویئر یو ایس بیز بھی تحویل میں لے لیں۔ پولیس نےگرفتار گروہ کا ماسٹرمائنڈ حسن عبداللہ کی نشاندہی پر گروہ کے دیگر ملزمان کو بھی گرفتار کر لیا،ملزم عبداللہ چھینے ہوئے موبائل فونز کا آئی ایم ایی آئی نمبر تبدیل کرنے کا ماہر تھا، گروہ کا سرغنہ جہانگیر بدر تبدیل کیے گئے نمبرز والے فونز نیٹ ورک کے ذریعے بنگلہ دیش اور افغانستان بھجواتا تھا۔

ملزم انٹرنیٹ پر خریداروں سے رابطے کرتا اور مو بائل فون مہارت کیساتھ بیرون ملک بھجواتا تھا،گرفتار ملزم جہانگیر بدر نے 3 برسوں سے کراچی میں موبائل فون چھننے کا اعتراف کیا، جب کہ ملزمان نے لوٹ مار کے دوران متعدد شہریوں کو زخمی کرنے کا بھی اعتراف کیا،ملزمان کے خلاف مقدمات درج کر لیے ۔ ایس ایس پی ملیر کے مطابق ضلعی آئی ٹی ٹیم کی جانب سے برآمد موبائل فونز کے تبدیل کئے گئے آئی ای ایم نمبر، ریکور کیے جا رہے ہیں۔موبائل فون کے نمبرز ریکور کر کے اصل مالکان کو مطلع کیا جائے گا۔ جس کی فہرست بھی جاری کی گئی ہے ۔موبائلز کے اصل مالکان کے رابطے کے بعد یہ قیمتی موبائل فونز ان کے حوالے کر دیے جائیں گے ۔

اگر ٹریفک پولیس کی کارکردی کا جائزہ لیا جائے تو شہر بھر میں ٹریفک پولیس مختلف علاقوں اور چوراہوں پر غول کی شکل میں موٹر سائیکل اور کار سواروں کو بلاجواز پکڑ دہکڑ کرتی نظر آئی گی ۔لیکن حیرت اس بات کی ہے کہ ان کو شہر میں دن کے ممنوعہ اوقات میں دند داتےہوئے قاتل ڈمپرز نظر نہیں آتے، جو تیزرفتاری کے باعث نہ جانےکتنی معصوم شہریوں کو اندی نیند سلاچکے ہیں اور حادثات میں قیمتی جانوں کے ضیاع کا بڑا سبب ہیں ۔ٹریفک پولیس اس وقت خواب خرگوش سے جا گی، جب سپر ہائی وے نوری آباد کے قریب المناک حادثہ رونما ہو نے کے بعد ٹریفک اچانک محترک ہوگئی اور کراچی میں چلنے والی اسکول و ینز اور کنٹریکٹ گاڑیوں میں سی این جی سیلنڈر کے خلاف خصوصی مہم شروع کردی ،مختلف مقامات سے سی این جی سیلنڈر نصب گاڑی کو وائی ایم سی گراؤنڈ منتقل کرکے سلینڈرنکال لیے گئے۔

شہری حلقوں کا کہنا ہے کہ ٹریفک کی اس مہم کاکوئی بھی ا معترض نہیں ہے، یہ درست قدم ہے ،لیکن یہ مہم اس وقت شروع کی گئی جب 6ماہ کی بندش کے بعد پہلے روز اسکول کھلے تھے۔ اس کے لیے گاڑی مالکان کو ڈیڈ لائن دی جاتی تو بہتر ہو تا ۔ اس حوالے سے تر جمان ٹریفک پولیس کا کہنا ہے کہ کسی بھی اسکول وین اور کنٹریکٹ گاڑیوں میں سی این جی سیلنڈر لگانا غیر قانونی ہے ، ٹریفک پولیس کی جانب سے جاری خصوصی مہم کے دوران ایسی تمام گاڑیوں کے سلینڈر نکالے جارہے ہیں اور یہ اقدام حالیہ جان لیوا حادثات کے پیش نظر اٹھا یا گیا ہے ۔