خاتُم الانبیاء، سرورِ کائنات حضرت محمد مصطفیٰﷺ کی تشریف آوری

October 23, 2020

مولانا نعمان نعیم (مہتمم جامعہ بنوریہ عالمیہ)

ماہِ ربیع الاوّل اِسلامی کیلنڈر کاتیسرا اور مبارک مہینہ ہے، اِس ماہِ مبارک میں رات کے اندھیرے کے اختتام پر دن کا اُجالا ہونے کے سا تھ نبی آخرالزماں‘ حبیب ِکبریا‘ امام الانبیاء ، حضور نبی کریم ﷺ کی ولادتِ باسعادت ہوئی۔ سیّد المرسلین، حضرت محمدمصطفیٰﷺ کی ولادت باسعادت ،آپ ﷺ کی تشریف آوری اور آپﷺ کی بعثت تاریخِ عالم کا عظیم واقعہ اور ایک بے مثال انقلاب کا پیش خیمہ ہے۔بلاشبہ آپ ﷺ کی بعثت اور نبوت و رسالت امت پر اللہ تعالیٰ کا عظیم احسان ہے۔

ارشاد باری تعالیٰ ہے:’’ اور (اے رسولﷺ!) ہم نے آپ کو تمام جہانوں کے لئے رحمت بنا کربھیجا ہے(سورۃ الانبیاء،آیت: ۱۰۷)اس آیت میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے اہتمام کے ساتھ دنیا جہاں والوں پر اپنی خصوصی مہربانی کا تذکر فرمایا ہے۔ وہ اس طور پر کہ پروردگار عالم نے اپنے پیارے حبیب محمد مصطفی احمد مجتبیٰﷺ کوتمام جہاں والوں کے لئے رسول رحمت بنا کر بھیجا۔ آیت میں مذکور لفظ’’عالمین ‘‘، عالَم کی جمع ہے، جس میں ساری مخلوقات بشمول انسان، فرشتے، جنات، حیوانات، نباتات، جمادات سب ہی داخل ہیں۔

رسول اکرم ﷺ ان سب کے لئے رحمت اس طور پر ہیں کہ دنیا میں قیامت تک اللہ تعالیٰ کا ذکر وتسبیح اور اس کی عبادت وبندگی آپ ﷺکے دم سے قائم اور آپ کی تعلیمات کی برکت سے جاری و ساری ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب زمین پر کوئی بھی اللہ اللہ کہنے والا نہیں رہے گا تو قیامت آ جائے گی۔ تفسیر ابن کثیر میں نبی اکرم ﷺ کا یہ فرمان نقل کیا گیا ہے کہ’’میں اللہ کی بھیجی ہوئی رحمت ہوں‘‘۔باقی انسانوں کے لئے رحمت ہونا اس طور پر ہے کہ آپ نے لوگوں کو سیدھا راستہ دکھایا، گمراہی سے بچایا، کفر وشرک کے اندھیروں سے ،ایمان و توحید کے اجالے کی طرف رہنمائی فرمائی ۔۳۶۰بتوں کے سامنے اپنی پیشانی ٹیکنے اور اپنی حاجتوں کے لئے انہیں پکارنے کے بجائے صرف ایک خالق و مالک کی بندگی کی طرف بلایا۔

لوگوں کو جہنم کی آگ میں جانے سے انہیں پکڑ پکڑ کر روکا۔صحیح مسلم میں حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺنے ارشاد فرمایاکہ ’’میری اور میری امت کی مثال ایسی ہے، جیسے کسی شخص نے آگ جلائی، تو پروانے اور پتنگے آ کر اس میں گرنے لگے،میں تمہیں کمر سے پکڑ پکڑ کر کھینچتا ہوں اور تم اس میں چھوٹ چھوٹ کر گرتے ہو‘‘ یعنی میرے منع کرنے کے باوجود تم اللہ کی نافرمانی ،فسق و فجور کا ارتکاب کر کے جہنم کی آگ میں گرنے لگتے ہواور آپ کی رحمت انسانوں میں مؤمن و کافر دونوں کے لئے عام ہے۔ صحیح مسلم میں حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ آپ ﷺ سے التماس کی گئی کہ اے اللہ کے رسولﷺ ! مشرکوں کے لئے بد دعا فرمائیں۔ آپﷺ نے فرمایا کہ میں لوگوں کے لعنت کرنے والا بنا کر نہیں بھیجا گیا ہوں، بلکہ مجھے رحمت بناکر بھیجا گیا ہے۔

رسول اﷲ ﷺنے فرمایا،میں نبی تھا اور آدمؑ ابھی جسد اور روح میں تھے۔یعنی ان کی روح ان کے جسم میں داخل نہیں ہوئی تھی، اُس وقت بھی میں نبی تھا۔ حضور ﷺ مبدأ کائنات ہیں۔آپ ﷺمخزن کائنات ہیں۔منشاء کائنات اور مقصود کائنات ہیں۔ ایک حدیث میں آیا ہے۔اے پیارے حبیبﷺ تو نہ ہوتا تو میں دنیا کو نہ بناتا۔ایک حدیثِ قدسی میں فرمایا گیا:اے میرے نبی ،اگر آپﷺ کو پیدا کرنا مقصود نہ ہوتا میں آسمانوں کو بھی پیدا نہ کرتا۔ نبی کریم ﷺ کے اول ہونے کا مضمون قرآن اس طرح بیان کرتا ہے:اے حبیبﷺ ہم نے آپﷺ کو نہیں بھیجا، مگر سارے عالموں کے لیے رحمت بناکر۔ پھر آپﷺ سے ہی کہلوایا گیا کہ ’’تم فرماؤ اللہ ہی کے فضل اور اُسی کی رحمت پر چاہیے کہ خوشی کریں ،وہ ان کے سب دھن دولت سے بہتر ہے‘‘۔

اللہ عزّوجل کی عظیم ترین رحمت، فضل اور نعمت نبی کریم ﷺ کی ذات مبارکہ ہے، کیوںکہ آپﷺ کو مبعوث فرما کر خالق کائنات نے خود مومنین پر اس احسان عظیم کو جتایا ہے۔ سورۂ والضحیٰ میں ہے ’’اور اپنے رب کی نعمت کا خوب چرچا کرو‘‘ آنحضرت ﷺ کی ولادت باسعادت اللہ تعالیٰ کی عظیم ترین نعمتوں میں سے ایک نعمت ہے۔ارشادِ ربانی ہے:بے شک، رسول کریم ﷺکی پیروی بہتر ہے،اس کے لیے جو اللہ اورآخرت پریقین رکھتا ہو اور اللہ کو بہت یاد کرے، اس میں مسلمانوں کو ہدایت ہے کہ اگر دین ودنیا کی کامیابی چاہتے ہوتو رسول اللہ ﷺ کی زندگی کو اپنی زندگی کے لیے نمونہ بنالو اور ان کی پیروی کرو، ہرمسلمان کو حکم دیا گیا ہے۔ مسلمانوں میں بعض بادشاہ ہوںگے، بعض حاکم، بعض مال دار، بعض غریب، بعض گھر والے، بعض تارک الدنیا اب ہر شخص چاہتا ہے کہ میری زندگی حضور علیہ السلام کی زندگی کے تابع ہو۔

رسولِ اکرمﷺ کی ولادت باسعادت کا مہینہ ربیع الاول مقدس ماہ مبارک ہے، جس میں سیّد المرسلین احمد مجتبیٰ حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ اس دنیا میں جلوہ افروز ہوئے۔ اس ماہ میں دو ایسے واقعات اسلامی تاریخ کا حصہ بنے جو ہمیشہ کے لیے تاریخ عالم میں ثبت ہوگئے۔ان میں ایک محسنِ انسانیت، خاتم الانبیاء والمرسلین حضرت محمد ﷺ کی ولادت باسعادت کا واقعہ اور دوسرا آپﷺ کا وصال ہے۔ آپﷺ کی اس دنیا میں تشریف آوری تاریخ انسانیت کا سب سے عظیم اور سب سے مقدس واقعہ ہے ۔نبی کریمﷺ کا روئے زمین پر تشریف لانا ہی تخلیق کائنات کے مقصد کی تکمیل ہے۔یہ زمین و آسمان اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوب ﷺ کی خاطر ہی پیدا فرمائے۔

بعثتِ محمدیﷺ کائنات کی سب سے عظیم نعمت ہے جو خالق کائنات نے اپنی مخلوقات پر فرمائی یعنی ہر نبی سے یہ عہد لیا گیا کہ اس کی زندگی میں باوجود ان کی نبوت کی موجودگی کے اگر آنے والے نبیﷺ تشریف لے آئیں تو پھر کسی نبی کی نبوت نہیں چل سکتی، بلکہ اس نبی کو بھی سرور عالم ﷺ کی نبوت و رسالت پر ایمان لاتے ہوئے ان کی تائید و نصرت کرنا ہو گی۔

جب انبیائے کرامؑ کے ساتھ یہ معاملہ ہے تو پھر ان کی امتوں کا کیا وصف ہونا چاہیے؟ظاہر ہے کہ ان کے لیے تو بدرجۂ اولیٰ لازم ہے کہ وہ سرور کائنات علیہ الصلوٰۃ والتسلیم پر ایمان لائیں اور انبیاءؑ کے اللہ تعالیٰ کے ساتھ کیے گئے عہد کی پاس داری کرتے ہوئے منشائے ربّانی کے مطابق آقاﷺ کی اطاعت و فرماں برداری اختیار کریں،چوںکہ ہادی عالم ﷺ کی بعثت مبارکہ کے بعد تمام شریعتیں منسوخ ہوگئیں۔

قیامت تک کے لیے دستورحیات،صرف اور صرف شریعتِ مصطفویؐ قرار پائی ہے۔ جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:’’(اے محمد ﷺ) کہہ دیجیے کہ لوگو، میں تم سب (یعنی پوری انسانیت) کی طرف اللہ کا بھیجا ہوا ہوں (یعنی اس کا رسول ہوں) (وہ) جو آسمانوں اور زمین کا بادشاہ ہے، اس کے سوا کوئی معبود نہیں، وہی زندگانی بخشتا اور وہی موت سے ہمکنار کرتا ہے،تو اللہ پر اور اس کے رسول نبی امیﷺ پر جو اللہ اور اس کے تمام کلام (یعنی تمام سابقہ کتب و صحائف) پر ایمان رکھتے ہیں، ایمان لاؤ اور ان کی پیروی کرو، تاکہ تم ہدایت پا جاؤ۔ (سورۃ الا عراف)

یہ اللہ تعالیٰ کا انسانیت پر احسان عظیم ہے کہ رسول اکرم ﷺ کو کسی خاص خطے، قوم یا زبان والوں کا نبی بنا کر نہیں بھیجا، بلکہ آپﷺ پوری انسانیت کے لیے پیغمبر رشد و ہدایت کے مقام عظمت و رفعت پر فائز کر کے مبعوث فرمائے گئے۔ نبیﷺ کی شفقت، محبت، ہمدردی، صبر و تحمل، برداشت، بردباری، حلیمی بھری خیرخواہانہ جدوجہد جو صعوبتوں اور مشکلات کے درمیان رہی، ان کا نتیجہ یہ نکلا کہ وہ انسان جن کی تاریخ مؤرخین نے انتہائی بھیانک لکھی تھی، اُن کی تاریخ نبیﷺ کی 23 سالہ مسلسل جدوجہد کے نتیجے میں انتہائی تابناک بن گئی۔

نبی اکر مﷺ کی اس 23 سالہ مسلسل جدوجہد کے نتیجے میں دنیا کے اندر ایک عظیم انقلاب آیا جو لوگ دوسروں کے لہو کے پیاسے تھے، وہ آج دوسروں کے لیے اپنا خون بہانے پر تیار ہوگئے، جو اپنا وزن طاقتور کے پلڑے میں ڈال دیا کرتے تھے، آج اُن کا وزن پِسے ہوئے لوگوں کے حق میں استعمال ہونے لگا، جو دوسروں کے دانے چھین لیا کرتے تھے، آج خود ضرورت ہونے کے باوجود دوسروں کو ترجیح دینے لگے۔ یوں پوری دنیا کی کایا ہی پلٹ گئی۔ یہ آپﷺ کی فتح و کامیابی کا عظیم اور تاریخ ساز کارنامہ ہے۔