بھکر سے کراچی تک

October 23, 2020

میں پورے پنجاب میں دیکھتا پھر رہا ہوں کہ عثمان بزدار کی حکومت نے کیا کیا کام کئے ہیں؟ میانوالی سے بھکر پہنچا، وہاں ڈپٹی کمشنر موسیٰ رضا سے ملاقات کی۔ لاہور سے آئے ہوئے پروجیکٹ ڈائریکٹر پروکیورمنٹ مینجمنٹ یونٹ اسد نعیم بھی وہاں موجود تھے۔

ان کے ساتھ بھی گپ شپ ہوئی۔ وہ بھکر میں گائنی اسپتال کی تعمیر کا جائزہ لینے آئے ہیں، میں نے خود بھی اس کا وزٹ کیا تھا، تقریباً ساٹھ فیصد کام ہو چکا تھا۔ کام کی رفتار سے لگ رہا تھا کہ بہت کم عرصہ میں یہ اسپتال کام کرنا شروع کردے گا۔ میں نے بھکر شہر کیلئےاربن سیوریج ڈریننگ اسکیم کا بھی جائزہ لیا۔ اس پر تقریباً ایک ارب روپے کے لگ بھگ خرچ ہورہا ہے۔ یہ کام بھی تیزی سے جاری ہے۔ شہر میں تھل یونیورسٹی کا بہت ذکر تھا جس کی تعمیر کےلئے 30 کروڑ روپے مختص ہو چکے ہیں۔

تھل آرٹس کونسل کی عمارت کا ڈیزائن بھی بن چکا ہے یعنی اس پر کام بھی شروع ہونے والا ہے۔ پچاس کلو میٹر دیہی روڈ بن چکے ہیں۔ اس کے علاوہ کمیونٹی ڈویلپمنٹ پروگرام کے تحت 80کروڑ روپے سے سڑکیں اور سیوریج کا کام جاری ہے۔ تقریباً ستر فیصد کام مکمل ہو چکا ہے۔ ایجوکیشن سیکٹر میں بھی بارہ کروڑ روپے سے اپ گریڈیشن ہو چکی ہے۔ بھکر کے سب سے بڑے پروجیکٹ ایم ایم روڈ پر بھی، اگلے سال کے آغاز میں کام شروع ہونے والا ہے۔

مغل بادشاہ جہانگیر کی بیٹی مہر النسا نے بھکر میں دلکشا باغ بنوایا تھا، جو کھنڈرات میں بدل چکا تھا۔ اسے پھر ایک خوبصورت باغ میں بدل دیا گیا ہے جہاں جا کر میں نے دل میں واقعی کشادگی محسوس کی۔ جناح پارک بھی برباد ہو چکا تھا۔ وہ بھی آباد و شاداب دکھائی دیا۔شہر کی سڑکوں میں کہیں کوئی گڑھا نہیں تھا۔ آٹے اور چینی کے بحران سے نمٹنے کےلئے سہولت بازار لگا ہوا تھا۔ پوچھنے پر پتہ چلا کہ آٹے کے تھیلے کا سرکاری ریٹ 860 روپے ہے مگر یہاں 837 روپے کا ایک تھیلا فروخت ہو رہا ہے۔

چینی بھی 85 روپے کلو مل رہی تھی۔ سہولت بازار تقریباً تمام شہروں میں لگائے گئے ہیں۔ صرف لاہور میں 31 جبکہ لاہور ڈویژن میں 42 سہولت بازار قائم کئے گئے ہیں۔ بے شک وزیر اعلیٰ پنجاب جس حد تک ممکن ہے، مہنگائی کو روکنے کی کوشش کررہے ہیں۔

جو بات میرے لئے سب سے عجیب و غریب تھی وہ بھکر میں امن عامہ کی صورتحال تھی۔ میں بھکر کو فرقہ وارانہ فسادات کے سبب جانتا تھا۔ماضی میں اس حوالے سے بہت قتل و غارت اس شہر میں ہوئی۔ ہر لمحہ مذہبی منافرت پر لڑائی جھگڑے کا امکان رہتا تھا، پولیس الرٹ رہتی تھی۔ مگر ایک تقریب میں جب مختلف الخیال مذہبی عمائدین کی تقریریں سنیں تو میں حیران رہ گیا، وہ جن زبانوں سے کبھی شعلے برستے تھے، اُن سے پھول جھڑ رہے تھے۔ پتا چلا کہ یہ کارنامہ ڈپٹی کمشنرکا ہے،کچھ اچھی خبریں اسلام آباد سے بھی آرہی ہیں۔

عمران خان نے اپنے ٹویٹ میں کہا کہ ستمبر میں 73ملین ڈالر کے سرپلس کے ساتھ کرنٹ اکاؤنٹ پہلی سہ ماہی کیلئے 792ملین ڈالر سرپلس ہوگیا ہے۔ وزیراعظم نے کہا کہ گزشتہ برس اسی عرصے میں 1492ملین ڈالر خسارے کا سامنا تھا جب کہ گزشتہ ماہ میں برآمدات 29فیصد بڑھیں اور ترسیلاتِ زر میں 9فیصد اضافہ ہوا ہے۔

لاہور نیب کی تین سالہ کارکردگی رپورٹ جاری کر دی گئی جس میں شہریوں کانیب پر 220فیصد اعتماد بڑھنے کا دعویٰ کیا گیا ہے۔ یکم اکتوبر 2017سے اکتوبر 2020کی رپورٹ کے مطابق نیب لاہور کو 33 ہزار 911 شکایات موصول ہوئیں، پلی بارگین کے تحت 15ارب 81کروڑ 70لاکھ روپے ریکور کئے گئے۔ نیب لاہور نے 73 ارب 23 کروڑ 70 لاکھ روپے کے ریفرنس دائر کئے، کیسز میں 78 فیصد ملزمان کو سزائیں ہوئیں۔ رپورٹ کے مطابق نیب لاہور نے 3 سال میں 655افراد کو گرفتار کیا، 53ارب 52کروڑ 20لاکھ روپے ریکور کیے گئے۔ اس پر میں ڈی جی نیب لاہور کو مبارک باد دیتا ہوں۔

اگر چہ نیب کے چیئرمین نے کہا ہے کہ ہم مفرور مجرموں کو واپس لانے کے لئے تمام وسائل استعمال کریں گے مگر برطانیہ سے نواز شریف کی واپسی کا کوئی امکان نہیں کیونکہ برطانوی قانون کے تحت اگر کسی بھی شخص کی زندگی کو اپنے ملک میں کوئی خطرہ ہو تو اسے برطانیہ سے نہیں نکالا جا سکتا۔ اور نواز شریف کے لئے یہ ثابت کرنا کوئی مشکل نہیں کہ پاکستان میں اُنہیں قتل کیا جا سکتا ہے۔آئی جی سندھ کے ساتھ کراچی میں پیش آنے والے مبینہ واقعہ نے دنیا بھر میں پاکستان کی ساکھ کو بہت خراب کیا ہے۔ خدا نخواستہ اگر سندھ پولیس نے ہڑتال کردی تو پاکستان کےلئے یہ بات بہت شرمندگی کا باعث ہو گی۔ پنجاب، پختون خوا اور بلوچستان کی پولیس بھی احتجاج کے لائحہ عمل پر غور کررہی ہے۔ ایف آئی اے اور دوسرے قانون نافذ کرنے والے سویلین ادارے بھی سندھ پولیس کے ساتھ کھڑے ہیں۔

اس سے زیادہ خطرناک بات یہ ہے کہ پوری قوم آئی جی سندھ کے دکھ کو محسوس کررہی ہے۔ سوشل میڈیا پر عجیب و غریب جملے لکھے جارہے ہیں۔ ایک مکالمہ دیکھئے۔ خاتون نے تھانے میں فون کیا اور کہا ’’ میرا خاوند اغوا ہو گیا ہے ‘‘۔ ایس ایچ او نے جواب دیا، ’’ او چھوڑیے جی ہمیں اپنے آئی جی کا پتا نہیں چل رہا کہ انہیں کون لے گیا ہے؟ ‘‘۔

آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ سویلین بالادستی کے قائل ہیں اور ایک جمہوریت نواز آرمی چیف ہیں۔ میری ان سے درخواست ہے کہ وہ فوری طور پر اِس واقعہ کی انکوائری کروا کر اُس پر عملدرآمد یقینی بنائیں۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)