شہرِ قائد میں کیا ہوا؟

October 24, 2020

ووٹ کی طاقت سے الگ ملک حاصل کرنے والے بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کے مزار پہ ووٹ کو عزت دینے اور مادرِ ملت زندہ باد کے نعرے لگانے کے جرم میں مریم نواز کے شوہر کیپٹن ریٹائرڈ صفدر کی گرفتاری اور اس سے پیدا صورتحال نے ملک میں پہلے سے جاری افراتفری اور انتشار کی کیفیت میں کئی گنا اضافہ کر دیا ہے۔ مسلم لیگ ن کے کارکنوں نے اپنی رہنما مریم نواز کے استقبال کے لئے ائیر پورٹ سے مزارِ قائد تک 25کیمپ لگا رکھے تھے۔

سندھ کے دارالحکومت میں مسلم لیگ ن کے کسی رہنما کا ایسا استقبال دہائیوں بعد دیکھنے کو ملا تھا ۔مریم نواز پرجوش کارکنوں کے اسی جلو میں مزارِ قائد پہنچیں تو مزار کی انتظامیہ اور سیکورٹی پہ مامور عملے نے ان کی گاڑی کو اندر جانے سے روک دیا، اس دوران کارکنان اورمزار کے عملے کے دوران خاصی تکرار ہوئی جس کے بعد صرف مریم نواز اور سیکورٹی کی گاڑی کو مزار کے احاطے میں داخل ہونے دیا گیا جبکہ کارکن پیدل اندر گئے۔ فاتحہ خوانی کے بعد کیپٹن ریٹائرڈ صفدر نے جذباتی ہو کر آہنی جنگلے کے اندر جا کر نعرے لگانا شروع کر دئیے اور پہلے سے بپھرے کارکنوں نے بھی ان کا بھرپور ساتھ دیا۔ اس کے بعد جو ہوا۔

اس کا اندازہ وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ اور پیپلز پارٹی کی مرکزی قیادت کو جلسہ شروع ہونے کے بعد ہی ہو چکا تھا کیونکہ وزیر اعلیٰ سندھ جلسہ گاہ میں اسٹیج پہ موجود بشمول مسلم لیگ ن کے کچھ رہنماؤں کو جب کیپٹن ریٹائرڈ صفدر کی نعرے بازی والی وڈیو دکھا رہے تھے تو ایف آئی آر کےا ندراج کے لیے سخت دباؤ کے حوالے سے اپنی بے بسی کا بھی اظہار کر رہے تھے ۔ جلسہ ختم ہوا تو رات گئے وزیر اعلیٰ سندھ نے مسلم لیگ ن کے سینئر رہنما محمد زبیر کو ٹیلی فون کیا کیونکہ ان تک اطلاع پہنچ چکی تھی کہ کیپٹن صفدر کو ہر صورت میں گرفتار کیا جانا ہے، وہ مسلم لیگ ن کی قیادت بالخصوص مریم نواز کو صورتحال پہ اعتماد میں لینا چاہتے تھے تاہم محمد زبیر وزیر اعلیٰ سندھ کی کال اٹینڈ نہ کر سکے، اس کے بعد وفاقی وزارتِ داخلہ کے زیرا نتظام آئی جی سندھ سے ایف آئی آر کے اندراج اور کیپٹن ریٹائرڈ صفدر کی گرفتاری کیلئے زبردستی حکم نامے پہ دستخط کرائے گئے۔

جب یہ سب کچھ ہو رہا تھا تو اس ساری کارروائی کی مانیٹرنگ اسلام آباد میں بیٹھے وفاقی وزیر کر رہے تھے اور وہ رپورٹ وزیر اعظم ہاؤس تک پہنچا رہے تھے۔ اپنے شوہر کی گرفتاری کی اطلاع مریم نواز نے سوشل میڈیا کے ذریعے دی جس کے بعد انہوں نے سینیٹر پرویز رشید اور اپنے پولیٹکل سیکرٹری ذیشان کو آگاہ کیا جس نے دیگر رہنماؤں کو اس بارے میںبتایا۔

اسی دوران مریم نواز کی ہدایت پہ محمد زبیر نے وزیر اعلیٰ سندھ سے رابطہ کیا تو انہوں نے تفصیل بتائی کہ کس طرح آئی جی سندھ کو اغواکرنے کے بعد ایف آئی آر کا اندراج اور گرفتاری ہوئی ، یہی تفصیل محمد زبیر نے سینئر صحافی حامد میر کو دی جنہوں نے سوشل میڈیا پہ اسے شیئرکیا تو کھلبلی مچ گئی ۔

ن لیگی رہنماؤں کو خدشہ تھا کہ مریم نواز کو بھی گرفتار کیا جا سکتا ہے، ضمانت قبل از گرفتاری کروانے پر غور کیا گیا تاہم مریم نواز نے ایسا کرنے سے انکار کر دیا ۔انہوں نے اپنے والد نواز شریف سے بھی رابطہ کیا جنہوں نے انہیں سندھ حکومت سے متعلق کوئی قابلِ اعتراض بات نہ کرنے سمیت خاص ہدایات دیں۔ اسی دوران ن لیگ کے سینئر رہنماؤں کی طرف سے چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری سے رابطے کی کوششیں کی گئیں تاہم ان سے رابطہ نہ ہوسکا۔ جس کے بعد اسی ہوٹل میں مقیم پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن نے آصف زرداری اور بلاول بھٹو سے رابطہ کیا اور ان کی مشاورت سے پی ڈی ایم کا ہنگامی اجلاس منعقد کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔

آصف زرداری کی ہدایت پہ بلاول بھٹو نے خود مریم نواز سے رابطہ کیا اور نہ صرف واقعے پہ سخت مذمت اور اظہارِ شرمندگی کیا بلکہ انہیں پس پردہ تمام صورتحال سے آگاہ بھی کیاجس کے بعد دونوں رہنماؤں کے درمیان پی ڈی ایم کے خلاف کی گئی اس سازش کو ناکام بنانے کے امور طے پائے۔

یہ بھی دونوں رہنماؤں کی گفتگو میں طے پایا کہ بلاول بھٹو پی ڈی ایم کے اجلاس اور پریس کانفرنس میں شریک نہیں ہوں گے بلکہ وہ شام کوخود ایک جارحانہ پریس کانفرنس کریں گے۔ شنید ہے کہ وفاقی حکومت کی طرف سے صوبائی حکومت کو اس خفت سے دوچار کرنے کا بدلہ لینے کے لیے آئی جی پولیس سے ایس ایچ اوز تک استعفوں کا منصوبہ شریک چیئرپرسن اور چیئرمین پیپلز پارٹی نے مشاورت سے بنایا جس پہ عمل درآمد ہونے کے بعد بلاول بھٹو منظر پہ آئے اور انہوں نے براہِ راست آرمی چیف اور ان کے ماتحت حساس ادارے کے سربراہ سے آئی جی سندھ کے ساتھ پیش آنے والے واقعہ کی انکوائری کرنے کا مطالبہ کر دیا۔

جس کا فوری نوٹس لیتے ہوئے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے کور کمانڈر کراچی کو جلد از جلد تحقیقات کرنے اور رپورٹ پیش کرنے کا حکم دیا۔

تاہم اس حقیقت سے اپوزیشن کی مرکزی قیادت بھی بخوبی آگاہ ہے کہ شہرِ قائد میں جو کھیل رچایا گیا، اس کے پیچھے فوج کا کوئی کردار نہیں تھا بلکہ یہ سب کچھ پی ڈی ایم کوتوڑنے اور ن لیگ اور پیپلز پارٹی میں دراڑیں ڈالنے کے لئے وفاقی حکومت نے وفاقی وزارتِ داخلہ کے زیر انتظام ادارے کے ذریعے کیا۔